سچن دیو برمن کے لیے یہ بڑی حیران کن بات تھی کہ لتا منگیشکر کے پاس ان کے گانے کے لیے وقت نہیں۔
قصہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے لتا منگیشکر کو بس یہ پیغام بجھوایا تھا کہ جو گیت انہوں نے ریکارڈ کرایا ہے، وہ ایک بار پھر سے ریکارڈ ہوگا۔
ذکر ہورہا ہے 1957کا جب ہدایت کار اور کامیڈین آئی ایس جوہر نے فلم ’مس انڈیا‘ بنانے کا اعلان کیا۔ نرگس ان دنوں ’مدر انڈیا‘ میں غیر معمولی اداکاری کی بنا پر ہر جانب چھائی ہوئی تھیں۔ اسی لیے آئی ایس جوہر نے ان کی اس مقبولیت اور شہرت کو کیش کرانے کے لیے ’مس انڈیا‘ کی تخلیق سازی کا ارادہ کیا، جس میں نرگس کے مقابل پردیپ کمار تھے۔
فلم ’مس انڈیا‘ کی کہانی ایک ایسی سیدھی سادی لڑکی رما کی تھی، جس کی شادی والے دن اس کا شوہر انیل اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ یہ غم ایسا ہوتا ہے کہ رما ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے لیکن پھر وہ رو دھو کر بیٹھنے کے بجائے اس بحران کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتی ہے۔ بمبئی آکر شوہر کی تلاش کرتی ہے۔ جو اسے مل جاتا ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ رما لڑکے کا روپ دھار کر شوہر کے ساتھ سائے کی طرح رہتی ہے، جو اس بات سے انجان ہوتا ہے کہ جسے وہ لڑکا سمجھ رہا ہے، وہ وہی لڑکی ہے، جسے وہ سہاگ رات کو تنہا چھوڑ کر آگیا تھا۔
کہانی میں اس وقت ڈرامائی موڑ آتا ہے، جب قتل کے جھوٹے الزام میں شوہر گرفتار ہوتا ہے تب رما جو وکالت کے شعبے سے وابستہ تھی، وہ اس مقدمے میں اپنی ذہانت اور کچھ شواہد کی بنا پر شوہر انیل کو بے قصور ثابت کروا کر دم لیتی ہے۔ فلم کے کلائمکس میں ہی انیل پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جس لڑکی کو وہ ٹھکرا آیا تھا، وہ دراصل رما ہوتی ہے۔
فلم کے دو پوسٹرز بنائے گئے تھے۔ ایک میں رما سیدھی سادی مشرقی لڑکی کے روپ میں گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی تو دوسرے میں وہ ٹام بوائے بنی ہوئی تھی اور اسی پوسٹر کو دیکھنے اور فلم کی پوری کہانی سننے کے بعد سچن دیو برمن نے لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ ’البیلا میں ایک دل والا بڑا‘ دوبارہ ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سچن دیو برمن کا خیال تھا کہ جو گانا ریکارڈ ہوا ہے، اس میں لتا منگیشکر وہ چلبلا اور کھلنڈرا پن پیش نہیں کرسکیں، جو اس کردار کا تقاضہ تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ گیت نرگس کے اس روپ پر فلمایا جانے والا تھا، جو ٹام بوائے ٹائپ کا تھا۔
اب اس دور میں مواصلاتی ذرائع انتہائی محدود تھے۔ اسی لیے سچن دیو برمن نے لتا منگیشکر تک یہ پیغام بجھوایا تھا کہ گیت پھر سے ریکارڈ ہوگا۔ اب پیغام ان تک پہنچا لیکن انہوں نے کہا کہ وہ کچھ دنوں بعد ریکارڈ کرائیں گی۔ اب سچن دیوبرمن تک یہ پیغام کچھ ایسے واپس آیا، جس سے انہیں تاثر ملا کہ لتا منگیشکر نے وقت کی تنگی کے باعث جیسے معذرت کرلی ہے۔ یہی بات سچن دیو برمن کو ناگوار گزری تو انہوں نے فلموں سے جڑے یار دوستوں سے کہا کہ انہوں نے کتنے سارے بہترین گانے لتا کو دیے اور آج ان میں اس قدر غرور اور تکبر آگیا ہے کہ ان کے پاس ایک گیت کی ریکارڈنگ کے لیے وقت نہیں۔ بلاوجہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ بھی اب آئندہ سے لتا منگیشکر کے ساتھ کوئی گیت ریکارڈ نہیں کرائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات بھی لتا منگیشکر تک پہنچی۔ جو ان دنوں کیرئیر کے عروج پر تھیں۔ جنہوں نے جواباً یہ پیغام پہنچایا کہ اب وہ یہ گیت ریکارڈ نہیں کرائیں گی۔ یہی بات سچن دیو برمن کو ایسی بری لگی کہ انہوں نے ’مس انڈیا‘ کے اس گیت کو آشا بھونسلے کی آواز میں ریکارڈ کیا اور غیر اعلانیہ طور پر لتا منگیشکر کے ساتھ کام نہ کرنے کا عہد کرلیا۔
بہرحال لتا منگیشکر کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ بھلا اس دور کا کون سا ایسا موسیقار، فلم ساز اور ہدایت کار نہیں تھا جو لتا منگیشکر کے ساتھ خوشی خوشی کام کرنے کو تیار نہ ہوتا۔ لتا منگیشکر اپنے پورے جوبن پر تھیں۔ من مانگے معاوضے کے عوض ہر کوئی ان کی خدمات حاصل کر رہا تھا۔ سچن دیو برمن نے اب لتا منگیشکر پر آشا بھونسلے کو ترجیح دینا شروع کردی۔ اور یوں ’چلتی کا نام گاڑی‘، ’کالا پانی‘، ’سوجاتہ‘، ’کاغذ کے پھول‘ اور ’کالا بازار‘ جیسی فلموں میں آشا بھونسلے یا پھر گیتا دت کی آوازیں استعمال ہوتی رہیں۔
اس عرصے میں سچن دیو برمن کی موسیقی سے سجی ستاروں سے آگے، ’بات ایک رات‘ کی اور ’ڈاکٹر ودیا‘ وہ فلمیں تھیں، جس میں لتا منگیشکر کی آواز میں گیت تو شامل تھا لیکن ان کی ریکارڈنگ ’مس انڈیا‘ سے پہلے ہوئی تھی۔
سچن دیو برمن کے صاحبزادے راہول دیو برمن اس ساری صورت حال سے واقف تھے۔ والد کے اسسٹنٹ تھے لیکن پہلی بار جب انہیں 1961میں بطور موسیقار تن تنہا فلم ’چھوٹے نواب‘ کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا تو ان کی خواہش تھی کہ اپنی زندگی کا پہلا گیت ’گھر آجا گھر آئے‘ لتا منگیشکر ہی گائیں۔
لتا منگیشکر سے رابطہ کرکے جب راہول دیو برمن نے اپنی آرزو بتائی تو ابتدا میں لتا منگیشکر نے انتہائی کرخت اور تلخ لہجے میں ان سے ٹیلی فون پر بات کی لیکن راہول دیو برمن اڑ گئے، جنہوں نے لتا منگیشکر سے کہا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، انہیں اس گانے کے لیے آنا پڑے گا، کیونکہ ان کی زندگی کا بطور موسیقار پہلا گیت ہے۔
راہول دیو برمن نے نجانے کیسے جادوئی یا التجا بھرے لہجے میں کہا تھا کہ لتا منگیشکر نہ چاہتے ہوئے انکار نہ کرسکیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی انہوں نے ’ہاں‘ کردی کہ ریہرسل یا ریکارڈنگ کے دوران سچن دیو برمن سے ان کا آمنا سامنا ہوسکتا ہے لیکن وہ راہول دیو برمن کا دل توڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ طے شدہ وقت پر لتا منگیشکر پہنچیں تو ریہرسل کے بعد ان کا واقعی سچن دیو برمن سے ٹاکرا ہوگیا۔
صورت حال بہت عجیب تھی۔ ہر کسی کو سانپ سونگھا ہوا تھا کیونکہ سچن دیو برمن غصے کے تیز تھے۔ یہ بات ہر کسی کے علم میں تھی۔ راہول دیو برمن تو ڈر رہے تھے کہ کہیں بات بگڑی تو لتا منگیشکر انہیں ہی ’ناں‘ نہ کردیں۔ لیکن حیران کن طور پر سچن دیو برمن اور لتا منگیشکر ایسے ملے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی اور پھر سچن دیو برمن نے مسکراتے ہوئے کہا ’لتا بمل رائے کی فلم ’بندھنی‘ کے لیے موسیقی دے رہا ہوں۔ تم نے اس میں گانا ہے۔‘ لتا منگیشکر نے سر کے اشارے سے اپنی منظوری دی اور پھر سب نے دیکھا کہ لتا منگیشکرنے 1963میں نمائش پذیر ہونے والی ’بندھنی‘ کا گیت ’مورا گورا انگ لے لے‘ اس قدر ڈوب کر گایا کہ یہ آج تک مشہور ہے۔
یوں پیغام رسانی میں ذرا سی غلط فہمی کے بعد سچن دیو برمن اور لتا منگیشکر کی جوڑی ایک بار پھر تمام تر گلے شکوے بھلا کر ایک ہوگئی، جس نے آنے والے برسوں میں کئی مدھر اور رسیلے نغموں کا گلدستہ سجایا۔