شمالی سندھ میں بلوچستان کی سرحد سے متصل تاریخی شہر جیکب آباد سے باہر شکارپور روڈ پر نواں آباد گاؤں کے مرد آج کل شام کو گھروں سے چارپائیاں نکال کر سڑک کے درمیان 10 فٹ چوڑی فٹ پاتھ جیسی جگہ پر رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
سڑک کے کنارے مٹیالے پانی کے ایک بڑے تالاب میں بھینسیں نہا رہی ہیں۔ تالاب کے کنارے چارپائی پر تکیے کو ٹیک لگا کر بیٹھے نواں آباد کے رہائشی وسیم اُنڑ سے اس انوکھے منظر کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ جب بھی درجہ حرارت میں اضافہ شروع ہوتا ہے تو گاؤں کے رہائشی چارپائی لے کر روڈ کے درمیان میں سونا شروع کردیتے ہیں تاکہ آتی جاتی گاڑیوں سے کچھ ٹھنڈی ہوا ہی مل جائے۔
ان کے بقول عموماً ایسا شدید گرمی کے مہنیوں میں ہوتا ہے مگر اس سال ایسا مئی کے پہلے 10 دنوں میں ہی ہو گیا۔ حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور بھارت کے دیگر علاقوں میں شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ حکام نے ہیٹ ویو کا اعلان کیا ہوا ہے اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، جمعہ 13 مئی کو تو جیکب آباد کا درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ گیا۔
جیکب آباد میں وسیم اُنڑ نے بتایا: ’پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح موسم گرما کے دوران جیکب آباد میں رات گئے تک موسم ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ پوری رات ہوا بھی نہیں چلتی، حبس رہتا ہے، چاول کی کاشت بڑے پیمانے پر ہونے کے باعث جگہ جگہ پانی کھڑا ہے، جس کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہوتی ہے۔ بجلی بھی ساری ساری رات نہیں ہوتی۔ ایسے میں دن بھر کی سخت محنت کے بعد مرد رات کو کچھ آرام کرنے سڑک کے درمیان چارپائی رکھ کر سوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’یہ سڑک سندھ سے بلوچستان کی طرف جاتی ہے، اس لیے رات بھر اس سڑک پر گاڑیاں چلتی رہتی ہیں۔ جب سڑک کے دونوں اطراف سے تیزی سے گاڑیاں گزرتی ہیں تو سڑک کے درمیان سوتے ہوئے فرد کو ہوا کا جھونکا لگتا ہے، جب ٹرک یا بڑی گاڑی گزرتی ہے تو زیادہ ہوا لگتی ہے۔ اس طرح یہاں کے لوگ رات کو آرام کرتے ہیں۔‘
جیکب آباد کے اس گاؤں میں ہر سال مئی کے آخری ہفتے یا جون کے آغاز پر چارپائیاں باہر نکال کر سڑک کے درمیان رکھی جاتی ہیں، مگر اس سال مئی کے آغاز سے ہی چارپائیاں باہر نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔
وسیم اُنڑ کا کہنا ہے: ’سڑک کے درمیان سونا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ یہاں سونے والا کوئی فرد پانی پینے یا رفع حاجت کے لیے رات کو جب سڑک پار کرتا ہے، تو تیز رفتار گاڑیوں کے ڈرائیور کو نظر نہیں آتا، اس لیے حادثہ ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ یہاں حادثات میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں تو سڑک کنارے صرف تب سونا شروع کیا جاتا ہے جب گرمی انتہائی شدید ہو اور گھر میں سونا ممکن نہ ہو۔‘
بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر حصوں میں ریکارڈ گرمی پڑ رہی ہے۔ 30 اپریل کو جیکب آباد شہر میں درجہ حرارت 49 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ کیا گیا، جو محکمہ موسمیات کے مطابق، 122 سالوں میں اپریل کے مہینے میں ریکارڈ کیا جانے والا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔
محکمہ موسمیات پاکستان کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اپریل میں درجہ حرارت 49 ڈگری سیلسیئس تک پہنچنا ایک ریکارڈ ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اس سے پہلے 2018 میں لاڑکانہ میں اپریل میں 50 ڈگری ریکارڈ ہو چکا ہے، مگر جیکب آباد، جو دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے، جہاں موسم گرما ویسے ہی انتہائی شدید ہوتا ہے، وہاں اگر اپریل سے ہی موسم اتنا شدید ہونا شروع ہو جائے اور درجہ حرارت 49 ڈگری تک پہنچ جائے تو یہ ایک تشویش کی بات ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ رواں سال اپریل کرہ ارض پر گرم ترین رہا۔ امریکی ادارے نیشل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق اپریل کا درجہ حرارت دنیا کے اوسط درجہ حرارت سے 0.87 ڈگری زیادہ رہا اور یہ تاریخ کا پانچوں گرم ترین اپریل تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سردار سرفراز نے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سال مارچ اور اپریل دونوں ہی گرم ترین مہینے رہے ہیں۔
صرف جیکب آباد ہی نہیں، محکمہ موسمیات کے مطابق 30 اپریل کو سندھ کے 16 اضلاع میں درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کر گیا، جب کہ حیدرآباد، دادو، چھور (ضلع عمرکوٹ)، سکھر، نواب شاہ، پڈعیدن (ضلع نوشہرو فیروز)، لاڑکانہ سمیت 10 شہروں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سے زائد رہا۔
شدید گرمی کے ساتھ مچھروں کی بہتات
وسیم اُنڑ کے گاؤں کے بڑے تالاب کی طرح ضلعے میں جگہ جگہ ایسے تالاب نظر آتے ہیں، کیوں کہ جیکب آباد میں چاول کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور چاول کی فصل کو بہت سارا پانی چاہیے ہوتا ہے۔
فصل کٹنے کے بعد چاول کے کھیت کا پانی کسی نزدیکی تالاب میں جمع کیا جاتا ہے۔ یہ پانی چاول کی فصل کو دی جانے والی کیمیائی کھاد، جراثیم کُش ادویات اور بہت عرصے تک کھڑا رہنے کے باعث آلودہ ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود مقامی لوگ بھینسوں اور دیگر جانوروں کو اسی پانی میں چھوڑ دیتے ہیں۔
وسیم اُنڑ کے مطابق: ’چاول کی کاشت کے باعث جگہ جگہ پانی ہوتا ہے، جس کے باعث مچھر پیدا ہوتے ہیں اور شدید گرمی کے ساتھ مچھر بھی ایک بڑا عذاب ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ مچھر بہت بڑے ہوتے ہیں، اور اگر ایک رات بھینس کو مچھروں سے محفوظ رکھنے کی بجائے ایسے ہی باندھ دیں تو صبح تک وہ بھینس مری ہوئی پائی جائے گی۔
وسیم اُنڑ کا کہنا تھا: ’ہم جانوروں کو مچھروں سے بچانے کے لیے بڑی سائز کی مچھردانیوں میں باندھتے ہیں اور مچھر بھگانے کے لیے دھواں کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود مچھر کاٹ لیتے ہیں۔ اس لیے اب ہم نے یہ طریقہ ڈھونڈا ہے کہ ہم اپنی بھینسوں کو پانی کے ان تالابوں میں کھونٹا لگا کر باندھ دیتے ہیں، اور بھینس رات کو پانی میں بیٹھ جاتی ہے اور صرف سر پانی سے باہر نکال کر رکھتی ہے، تو اس طرح بھینس کو گرمی بھی نہیں لگتی اور مچھروں سے بھی بچ جاتی ہے۔
آلودہ پانی میں بندھی بھینسوں کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ڈبکی لگا کر بھینسوں کو نہلاتے نظر آتے ہیں، جو صحت عامہ کے لیے اچھا نہیں۔
سندھ میں صحت کا شعبہ سنبھالنے والے ادارے پیپلز پرائمری ہلیتھ کیئر انیشیٹو (پی پی ایچ آئی) جیکب آباد کے سربراہ ریٹائرڈ کرنل احمد بخش سومرو نے بتایا کہ شدید گرمی میں ہیٹ سٹروک، سر درد کے علاوہ سب سے زیادہ مریض جلد کی بیماری کے آتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ریٹائرڈ کرنل احمد بخش سومرو نے بتایا: ’چھوٹے بچوں کی اکثریت موسم گرما میں جلد کی بیماری سے متاثر ہوکر آتے ہیں۔ گندے پانی اور سخت گرمی کے باعث ان کے جسم پر پھوڑے، پھنسی نکل آتے ہیں۔‘
نواں آباد کے مزدور کے روز و شب
گاؤں کے باہر موجود اونچی چھت والے ایک ڈھابے میں صبح 11 بجے سے آس پاس کے کھیتوں کے مزدور آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
گرمی سے ہانپتے یہ مزدور ڈھابے کے اندر لکڑی کے بڑی میزوں پر آکر بیٹھنے لگتے ہیں۔ ہال کی چھت میں لگے شمسی پنکھے کسی بیٹری کی بجائے سولر پلیٹ سے جڑے ہونے کی وجہ سے دن بھر چلتے رہتے ہیں۔
ایک حالیہ دورے میں اس نمائندے نے دیکھا کہ ڈھابے کے باہر لگے ہینڈ پمپ پر کچھ بچے باری باری نہاتے ہیں جب کہ کچھ بچے برابر میں پریشر پائپ سے گاڑیاں دھونے والے نوجوان سے خود پر پانی ڈالنے کی درخواست کرتے ہیں۔ تو کچھ دور پرانی سائیکل پر لوہے کے کنستر میں نارنجی واٹر کولر میں رکھی آئس کریم نکال کر پلاسٹک کے چھوٹے کپ میں ڈال کر بیچنے والے 60 سالہ شاہ نواز سنجرانی کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے ہیں۔
شاہ نواز سنجرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے سائیکل پر آئس کریم بیچتے ہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ چند سالوں سے جیکب آباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں درجہ حرارت میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ ’گرمی بڑھنے کے بعد آئس کریم کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے مگر اب میں عمر رسیدہ ہوچکا ہوں زیادہ آئس کریم نہیں بنا سکتا۔‘
کھلے آسمان تلے کام کرنے پر مجبور مزدور
پاکستان کی تاریخ کی بدترین قدرتی آفات میں سے ایک 2010 میں آنے والا سیلاب تھا جسے پاکستان سپر فلڈ 2010 کہا جاتا ہے جس سے ملک میں 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس آفت سے تقریباً دو ہزار اموات ہوئیں۔
سائنسی ماہرین کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث آنے والے اس سیلاب سے سندھ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کے باعث شمالی سندھ کے متعدد اضلاع بشمول جیکب آباد زیر آب آگئے۔
دنیا بھر میں قدرتی آفات کے باعث تباہ ہو جانے والے گھروں کی ازسر نو تعمیر کرنے کے لیے کئی عالمی تنظیموں کے اتحاد ’گلوبل شیلٹر کلسٹر‘ کے اعدادو شمار کے مطابق 2010 کے سیلاب کے باعث صرف جیکب آباد ضلع میں ایک لاکھ 45 ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔
بڑے شہروں میں عام طور پر سیمنٹ کے بلاکس سے گھر بنائے جاتے ہیں مگر دیہات میں اب بھی مٹی کی بنی اینٹ کو پکا کر گھر بنائے جاتے ہیں۔
اسی وجہ سے سیلاب سے اتنی بڑی تعداد میں تباہ ہونے والے گھروں اور وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ضلعے میں بڑی تعداد میں اینٹوں کے بھٹے قائم ہوگئے۔
جیکب آباد شہر سے متعصل اربیلو رند گاؤں کے رہائشی شاہ نواز رند 2010 تک ٹریکٹر ڈرائیور تھے مگر سیلاب کے بعد جب عالمی اداروں نے سیلاب متاثریں کے لیے گھر بنانے شروع کیے تو اینٹوں کی مانگ میں اضافہ ہوگیا، یوں شاہ نواز رند نے اینٹوں کا ایک بھٹا کھول لیا اور آج وہ دو بھٹوں کے مالک ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ نواز رند نے بتایا: ’جب اینٹوں کی مانگ میں اضافہ ہوا تو صرف جیکب آباد ضلع میں 100 سے زائد اینٹوں کے بھٹے بن گئے تھے۔ مگر 2016 کے بعد جب عالمی اداروں نے سیلاب متاثرین کے امداد بند کردی تو کئی بھٹے بند ہوگئے۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس کے باوجود آج بھی جیکب آباد میں اینٹوں کے 70 بھٹے موجود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگر ایک بھٹے پر 70 مزدور بھی کام کرتے ہیں تو جیکب آباد میں پانچ ہزار افراد اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوری کرتے ہیں۔ جیکب آباد میں چاول کی کاشت اور چاول کو صاف کرنے والے کارخانوں کے بعد سب سے زیادہ مزدوری اینٹوں کے بھٹوں پر ملتی ہے۔‘
عبدالمالک عرف پپو نامی مزدور شاہ نواز رند کے ایک بھٹے پر مٹی کی اینٹ بنانے کی مزدوری کرتے ہیں۔ انہیں مٹی کو گوندھنے کے بعد گوندھی مٹی کو سانچے میں ڈال کر ایک ہزار اینٹیں بنانے کی مزدوری کے سات سو روپے ملتے ہیں۔
عبدالمالک عرف پپو کہتے ہیں: ’ہمیں بھٹہ مالک کی جانب سے کوئی روک ٹوک نہیں، ہم جب چاہیں کام کریں، جب چاہیں، چھٹی کریں، مگر جتنی اینٹ بنائیں گے، اجرت اس حساب سے ملے گی۔ اس لیے شدید گرمی کے باوجود ہمیں جلتے ہوئے بھٹے کے قریب کام کرنا پڑتا ہے۔‘
جیکب آباد کی شدید گرمی کو مدنظر رکھتے ہوئے عبدالمالک عرف پپو اور ان کے ساتھیوں نے کام کی جگہ کے نزدیک ایک گڑھا کھود کر پانی سے بھر لیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں: ’ہمیں اجرت کے لیے ہر صورت میں اینٹ بنانے کا کام کرنا پڑتا ہے۔ ہم دوپہر میں دو گھنٹے چھٹی کرتے ہیں، مگر جلد ہی کام پر واپس آنا پڑتا ہے۔ مگر یہاں تو گرمی صبح 10 بجے سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ اس لیے جب گرمی ناقابل برداشت ہوجاتی ہے تو پانی سے بھرے گڑھے میں ڈبکی لگا کر دوبارہ 10 سے 15 منٹ کام کرتے ہیں، پھر کپڑوں سمیت ڈبکی لگاتے ہیں۔‘
انہیں مزدوری کی پانچ سے سات سو روپے دیہاڑی ملتی۔ شدید گرمی کے موسم میں دوپہر میں کبھی کبھی وہ 60 روپے کی برف خرید کر شام تک ٹھنڈا پانی پیتے ہیں، ورنہ ہینڈ پمپ کے پانی پر گزارہ کرتے ہیں۔
صرف جیکب آباد شہر میں برف کے 16 کارخانے
جیکب آباد میں موسم سرما کے دوران امیر ہو یا غریب، سب کے لیے کارخانے میں بنی برف ہی واحد سہارا ہے۔
غریب لوگ فریج نہیں لے سکتے کہ وہ اس میں برف جمائیں یا پانی ٹھنڈا کریں جب کہ فریج کے مالکان کو بھی اس کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں۔ شہر میں طویل دورانیے کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث وہ بھی کارخانے سے بنی برف لینے پر مجبور ہیں۔
برف کی بڑھتی مانگ کے بعد جیکب آباد میں متعدد برف بنانے کے کارخانے کھل گئے ہیں اور ان کارخانوں کے مالکان نے تنظیم بھی بنالی ہے۔
جیکب آباد آئس فیکٹری ایسوسی ایشن کے سیکریٹری اطلاعات اور شکارپور روڈ کے نزدیک واقع سندھو آئس فیکٹری کے مینیجر غلام یاسین کے مطابق جیکب آباد میں گذشتہ 10، 12 سالوں کے دوران موسم گرما کے دوران برف کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اب صرف جیکب آباد شہر میں برف بنانے کے 16 کارخانے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ان کارخانوں میں سے کچھ کی گنجائش ایک دن میں 55 سے 60 کلوگرام وزن والے 600 سے 700 برف کے سل یا بلاک بنانے کی ہے، جیسے ہماری اس سندھو آئس فیکٹری کی گنجائش ایک دن میں 350 بلاک بنانے کی ہے۔‘
ان کے بقول جیکب آباد کے برف کے کارخانوں کی ایک دن میں برف کی 15 سے 16 ہزار بلاک بنانے کی گنجائش ہے، مگر بجلی نہ ہونے کے باعث صرف سات سے آٹھ ہزار بلاک ہی بن سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا: ’موسم گرما کے دوران جن دنوں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان دنوں شہر میں ایک دن میں برف کی مانگ 55 سے 60 کلوگرام والے 16 ہزار بلاک تک پہنچ جاتی ہے، اس لیے اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے سکھر اور شکارپور سے برف منگوائی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ 300 کلومیٹر سے زائد فاصلے پر واقع کوئٹہ شہر سے بھی برف لائی جاتی ہے۔‘
جیکب آباد کے باسیوں کی اکثریت روزگار کے لیے مزدوری پر انحصار کرتی ہے۔ اور اس خطے میں مزدور کو یا تو سخت گرمی میں تپتی دھوپ کے ساتھ کھلے آسمان تلے مزدوری کرنی پڑتی ہے یا پھر تپتی بھٹی کے نزدیک کام کرکے دیہاڑی کمانی پڑتی ہے۔
جیکب آباد میں مزدوری کے لیے سب سے بڑی صنعت چاول کی فصل ہے اور مزدوروں کی اکثریت چاول کی فصل سے جڑی ہے۔ یہ چاول کی کاشت کے لیے زمین کی تیاری، چاول کی پنیری کی تیاری، بوائی کے بعد فصل کی رکھوالی، پکنے پر فصل کی کٹائی کے بعد چاول صاف کرنے تک سب کام سخت گرمی میں سرانجام دیے جاتے ہیں۔
جیکب آباد کی زمین پتھریلی ہے جس میں بڑی مقدار میں نمک کے ساتھ سیم و تھور بھی ہے، جس کے باعث یہ انتہائی سخت زمین سمجھی جاتی ہے۔ اس زمین کو چاول کی کاشت کے لیے سخت گرم موسم میں تیار کرنا ایک بڑا چیلینج سمجھا جاتا ہے، جس کے بعد کسان یا دیہاڑی دار مزدور چاول کی پنیری لگاتے ہیں۔
پنیری کی بوائی اکثر خواتین کرتی ہیں۔ مگر بوائی کے بعد چاول کی فصل کی نگرانی کرنا، کھاد اور کیڑے مار ادویات دینا بھی بڑا چلینج ہوتا ہے کیونکہ چاول کی فصل میں ہر وقت پانی بھرا ہوتا ہے جو گرمی کے باعث گرم ہوجاتا ہے اور اس گرم پانی میں چلنا کسان کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
یہاں تمام کسان اور کھلے آسمان تلے کام کرنے والے مزدور صبح جلد کام شروع کرتے ہیں اور 11 بجے سے پہلے کام بند کردیتے ہیں۔ پھر شام کو چار بجے کے بعد دوبارہ کام شروع کرتے ہیںں۔
فصل پکنے پر چاول کی کٹائی اور چاول کی فصل کی گڈیاں باندھنا بھی سخت کام ہوتا ہے۔ کہیں تھریشر چلایا جاتا ہے تو کہیں، تنکے سے چاول نکالنے کے لیے گڈی کو ہاتھوں سے کسی لکڑی پر کوٹ کوٹ کر چاول نکالنا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ سخت گرمی کے باوجود چاول کی فصل کی باقیات یا چاول کی مڈھی کو آگ لگانے کے بعد اس علاقے میں گرمی کی شدت کا جو حال ہوتا ہے وہ صرف وہاں کے مکین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ چاول کی فصل کا لمبا نرم تیلا، جس سے چاول نکالا جاتا ہے، وہ پھلوں کی پیکینگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے پھلوں کو کراچی کی مارکیٹ تک لے جانے میں اس نرم تیلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیکب آباد میں سخت گرمی کے باوجود آپ کو جگہ جگہ مزدور چاولوں کے تیلے ٹرک پر لوڈ کرتے نظر آئیں گے۔
اس کے بعد چاول کی فصل والی صنعت سے جڑی بڑی مزدوری والا کام چاول کو صاف کرنے والے کارخانے ہیں، جہاں چاول کے دانے پر چڑھے سخت پرت یا چھلکے کو ہٹانے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے کسی ہال میں بڑی کڑہائی میں ابلتے پانی میں چاولوں کو ڈالتے ہیں، جس کے بعد گرم چاولوں کو نکال کر زمین پر پھیلایا جاتا ہے۔
یہ بھٹی نما کام ہوتا ہے جس میں کام کرنے والے مزدوروں کو اکثر اجرت بھی نہیں دی جاتی۔
جیکب آباد میں 2005 سے غیر سرکاری تنظیم ’کمیونٹی ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن‘ چلانے والے سماجی رہنما جان اوڈھانو کے مطابق جیکب آباد ضلع میں پانچ سو سے چھ سو ایسے کارخانے ہیں جہاں چاول کی دھان کو صاف کرکے چاول نکالے جاتے ہیں اور ان کارخانوں میں چھ سے سات ہزار مزدور کام کرتے ہیں۔
گدھے سے چلتا پنکھا، ’غریبوں کی ایجاد‘
جیکب آباد شہر سے باہر چنڈ گڑھی نامے گاؤں کے رہائشی محمد مراد نے گھر کے آنگن میں گدھے سے چلنے والا پنکھا لگایا ہوا ہے۔
ایک لمبی بانس نما گھومنے والی لکڑی کے اوپر ایک اور لکڑی باندھ کر اس میں رلی یا چادر لٹکا دی جاتی ہے، اور درمیان والی لکڑی کے ساتھ ایک گدھا باندھا دیا جاتا ہے، جس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر کولہو کے بیل کے طرح گول گھمایا جاتا ہے، جس سے چادر بندھی لکڑی گھومنے لگتی ہے اور کچھ ہوا لگنے لگتی ہے۔
محمد مراد کہتے ہیں: ’رات کو ہم تین چارپائیاں اس پنکھے کے نیچے رکھ کر سوتے ہیں۔ انتہائی حبس والے ماحول میں یہ پنکھا کسی غنیمت سے کم نہیں۔ سولر پینل انتہائی مہنگا ہے۔ بیٹری سے ایک پنکھا چلانے کے لیے کم از کم 20 ہزار روپے چاہیے۔ اس لیے غریبوں نے یہ گدھا پنکھا ایجاد کیا ہے جس سے گزارا ہوجاتا ہے۔‘
شدید گرمی کے باوجود پانی کی قلت
شہریوں کو شکایت ہے کہ گرمی کے باوجود سرکار کی جانب سے پینے کا پانی فراہم نہیں کیا جارہا۔ شہر میں بڑے پیمانے پر پلاسٹک کے نیلے ڈبے اٹھائے گدھا گاڑیاں دیکھی جاسکتی ہیں، جن پر مختلف مقامات سے پانی بھر کر لایا جاتا ہے اور بیچا جاتا ہے۔ اس پانی کے معیار پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔
کچھ عرصہ قبل یو ایس ایڈ نے شہریوں کو پانی کی فراہمی کے لیے ایک مکمل جدید واٹر سپلائی سکیم تعمیر کروائی اور ٹینکر بھی ضلع انتظامیہ کو دیے مگر سکیم نہ شروع ہوسکی اور واٹر ٹینکر بھی ناکارہ ہوگیا ہے۔
صفائی کے انتظام میں بھی خامیاں ہیں۔ یو ایس ایڈ نے 2019 میں 18.8 کروڑ روپے کی مالیت کی کچرا اٹھانے والی گاڑیاں، ڈسٹ بن اور دیگر سامان جیکب آباد ضلعی انتظامیہ کو دیا تاکہ شہر سے کچرا اٹھایا جاسکے۔ مگر یہ سامان استعمال نہ ہو سکا اور یہ مقامی میونسپل کمیٹی کی دفتر میں پڑا پڑا زنگ آلود ہو رہا ہے۔
اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے ضلعی انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے ڈپٹی کمشنر جیکب آباد ڈاکٹر حفیظ سیال سے بار بار رابطہ کیا اور انہیں واٹس ایپ پر بھی میسج بھیجے گئے مگر اس خبر کے فائل ہونے تک ان کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔
’دنیا کی گرم ترین جگہوں میں ایک‘
سماجی رہنما جان اوڈھانو کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ چند دہائیوں سے جیکب آباد میں درجہ حرارت ’ناقابل برداشت‘ ہوجانے کے بعد جیکب آباد کے 30 فیصد شہری موسم گرما میں دیگر شہروں کو نقل مکانی کر جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہ لوگ گرمیوں کے دوران چھ ماہ کے لیے نقل مکانی کرکے دیگر شہروں میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کوئٹہ، کچھ جامشورو، حیدرآباد اور کراچی منتقل ہوجاتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کے پاس ٹھہرتے ہیں، تو کچھ لوگوں نے ان شہروں میں مستقل گھر لینے کے ساتھ وہاں کاروبار بھی شروع کردیا ہے۔‘
محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی میں جیکب آباد کو ’دنیا کے گرم ترین‘ شہر کا خطاب دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بلوچستان کے شہر تربت، امریکہ کی ڈیتھ ویلی اور مصر کے عزیزیہ میں درجہ حرارت 54 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ ہونے کے بعد جیکب آباد کا ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔
انہوں نے بتایا: ’مگر اس کے باوجود جیکب آباد پاکستان کا گرم ترین اور دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ خط استوا سے نزدیک ہونے کے علاوہ موسمی تبدیلی اور علاقے میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی اس شہر کے گرم ہونے کے بڑے سبب ہیں۔‘
جیکب آباد کے شہریوں کو گرمی سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جیکب آباد کی گرمی کے متعلق جاری کردہ ’ان لوایبل فار ہیومنز‘ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ حکومت جیکب آباد کے لوگوں کو شدید گرمی سے بچانے کے لیے بجلی اور خاص طور پر متبادیل توانائی فراہم کرنے کے ساتھ لیبر قوانین پر عمل درآمد کرائے اور کام لینے والوں لوگوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ مزدوروں کو کام میں وقفہ دینے کے ساتھ ان کے لیے سائے اور پانی کا بندوبست بھی کریں۔
اس کے علاوہ عوام کو ہیٹ ویو اور موسمی تبدیلی کے باعث آنے والے موسمیاتی واقعات کے متعلق پیشگی وارننگ کا انتظام کیا جائے، جس میں عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ وہ خود کو کیسے محفوظ رکھ سکیں۔