پاکستان اور بھارت کے بیشتر علاقے ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور سندھ کے شہر جیکب آباد میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کا امکان ہے۔
پاکستانی محکمہ موسمیات کے 25 اپریل کو جاری نوٹیفکیشن میں ہیٹ ویو سے خبردار کرتے ہوئے 26 اپریل سے دو مئی تک ملک میں گرمی کی شدت میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی۔
محکمہ موسمیات نے مزید کہا کہ خشک اور گرم موسم کے باعث پانی کے ذخائر، کھڑی فصلیں اور سبزیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔
ساتھ ہی عوام الناس کو ہدایت کی گئی کہ وہ سورج کی روشنی میں براہ راست جانے سے گریز کریں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ ’اس سال انتہائی درجہ حرارت کی وجہ سے ملک میں صحت عامہ اور زراعت کو سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
پاکستان میں 2015 میں آنے والی شدید ہیٹ ویو کے نتیجے میں 1200 سے زائد افراد چل بسے تھے۔ اسی طرح 2010 کے بعد سے بھارت میں بھی چھ ہزار 500 سے زیادہ افراد ہیٹ ویو کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔
پاکستانی محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ اس سال مارچ کا مہینہ 1961 کے بعد گرم ترین مارچ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح بھارت میں بھی رواں برس مارچ کا مہینہ گذشتہ 122 سالوں میں سب سے زیادہ گرم ریکارڈ کیا گیا تھا۔
دی انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کئی بھارتی ریاستیں شدید گرمی کے باعث بجلی کی طویل بندش کا سامنا کر رہی ہیں جہاں درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا ہے۔
بھارتی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بڑے حصوں کو متاثر کرنے والی ہیٹ ویو میں مزید اضافہ ہونے والا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریاستی حکومتوں کے سربراہوں کو ایک آن لائن کانفرنس کے دوران بتایا: ’ملک میں درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور معمول سے بہت پہلے بڑھ رہا ہے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی رہائشی 30 سالہ خاتون سومیا مہرا نے بتایا: ’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ میں نے اپریل میں اتنا خطرناک موسم دیکھا ہے۔ ہم اس موسم کے لیے مئی اور اس سے آگے کے مہینوں میں تیار ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’آج ہم اس لیے باہر نکلے ہیں کیونکہ ہماری شادی کی سالگرہ ہے ورنہ میں گھر سے نہیں نکلتی۔ میں نے اپنے بچوں کو باہر کھیلنے کے لیے بھیجنا بند کردیا ہے۔‘
اگرچہ کوئلہ اور کانوں کے مرکزی بھارتی وزیر نے عوامی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے‘ اور ملک میں ’کوئلے کا کافی ذخیرہ‘ موجود ہے۔
تاہم بجلی کی طلب بڑھنے کے امکانات کے ساتھ یہ خدشات بھی ہیں کہ تھرمل پاور پلانٹس کو کوئلے کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور ریاست مہاراشٹر نے رپورٹ کیا ہے کہ ان کے پاس صرف دو دن کے لیے کوئلے کے ذخائر ہیں۔