اسے ’طلائی شاہراہ‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیوں کہ دنیا میں بہت کم ایسی شاہراہیں ہیں، جہاں سے سفر کرتے ہوئے آپ سوا چار سو ارب ڈالر مالیت کے سونے کے پاس سے گزر سکتے ہیں۔
یہ شاہراہ امریکی ریاست کینٹکی میں واقع فورٹ ناکس کے قریب ہے، جو نہ صرف امریکہ کی فوجی چھاؤنی ہے بلکہ مرکزی سونے کا خزانہ بھی ہے، جہاں ملک کے سونے کے ذخائر کا بڑا حصہ محفوظ ہے۔ یہ جگہ اتنی زیادہ محفوظ تصور کی جاتی ہے کہ ’فورٹ ناکس جیسا محفوظ‘ جملہ امریکہ اور دیگر ممالک میں سکیورٹی کے لیے ایک استعارہ بن چکا ہے۔
اب تک صرف ایک شخص ایسا تھا جو اس سونے کو چرانے کے قریب پہنچا اور وہ لیٹویا کا شہری اورک گولڈ فنگر تھا، لیکن وہ بھی کوئی حقیقی شخص نہیں تھا بلکہ ایئن فلیمنگ کے تخیل کی پیداوار تھا، جن کے ناول ’گولڈ فنگر‘ پر بعد میں جیمز بانڈ سیریز کی تیسری فلم بنائی گئی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران فورٹ ناکس میں امریکہ کی تاریخی دستاویزات جیسے کہ ’اعلامیہ آزادی‘، آئین اور بل آف رائٹس کے علاوہ ایک گٹنبرگ بائبل، میگنا کارٹا کی ایک نقل اور ہنگری کے شاہی زیورات محفوظ کیے گئے تھے۔
فورٹ ناکس کا 2017 میں بیرونی افراد نے معائنہ کیا، وہ بھی اُس وقت جب خود اس وقت کے امریکی وزیر خزانہ سٹیو منوچن، کینٹکی کے گورنر میٹ بیون اور دیگر کانگریسی نمائندوں کے ہمراہ وہاں پہنچے۔ یہ افراد 1974 کے بعد پہلے غیر متعلقہ افراد تھے جنہیں اندر جانے کی اجازت ملی۔ ان کی تصاویر بھی بنائی گئیں، جن میں وہ سونے کو ہاتھ میں لیے ہوئے نظر آئے اور وہ بلاشبہ چمکدار اور سونے جیسا ہی دکھائی دے رہا تھا۔
اگرچہ امریکی محکمہ خزانہ اور فیڈرل ریزرو باقاعدگی سے معائنہ کرتے ہیں لیکن گذشتہ 70 سالوں میں کسی نے بھی باضابطہ طور پر اس تاریخی تجوری کے اندر موجود سونے کا تفصیلی تجزیہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ ایک سوال بار بار اٹھا رہے ہیں کہ اگر حقیقت میں وہاں سونا موجود نہ ہو تو؟ محض یہ فرض کر لینا کافی نہیں کہ سونا وہیں ہے، جس کی تصدیق ضروری ہے۔
اگرچہ 330 ارب پاؤنڈ کا سونا بہت بڑی مقدار لگتی ہے لیکن حقیقت میں جہاں یہ رکھا ہے وہ جگہ بہت چھوٹی ہے یعنی تقریباً 40 فٹ کے ساڑھے تین عام کنٹینرز یا ایک اولمپک سوئمنگ پول کے دسویں حصے کے برابر جگہ۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ یہ سونا کہیں غائب ہو گیا ہو؟ یہ سوال کسی انٹرنیٹ سازشی ویب سائٹ کے کسی خیالی مضمون جیسا لگتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے اب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھی ایلون مسک نے اٹھایا ہے۔
صدر ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا: ’ہم نے سینکڑوں ارب ڈالر کی دھوکہ دہی کا پتہ چلایا ہے اور ہم نے ابھی تحقیق کی شروعات کی ہے۔ ہم درحقیقت فورٹ ناکس جا رہے ہیں تاکہ دیکھیں کہ وہاں سونا موجود ہے یا نہیں کیونکہ شاید کسی نے اسے چرا لیا ہو، وہ بھی ٹنوں کے حساب سے۔‘
ایلون مسک نے بھی گذشتہ ماہ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا: ’کون اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ فورٹ ناکس سے سونا نہیں چرایا گیا؟ شاید وہ وہیں ہو یا شاید نہ ہو۔ یہ سونا امریکی عوام کی ملکیت ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آیا یہ اب بھی وہاں موجود ہے یا نہیں۔‘
ٹرمپ اور مسک کے شکوک کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ فورٹ ناکس کے سونے کا کئی دہائیوں سے کوئی آزادانہ آڈٹ نہیں ہوا، جس کے نتیجے میں چار بڑے سازشی نظریات سامنے آئے ہیں۔
پہلا سازشی نظریہ یہ کہتا ہے کہ یہ سونا خفیہ طور پر کسی غیر ملکی ادارے یا نجی بینکوں کو فروخت کر دیا گیا تاکہ امریکہ اپنے قومی قرضے کا کچھ حصہ چھپ کر ادا کر سکے۔
دوسری تھیوری یہ ہے کہ فورٹ ناکس میں کبھی بھی کوئی سونا تھا ہی نہیں اور یہ پوری جگہ عالمی مارکیٹ کو دھوکہ دینے کے لیے محض ایک فریب ہے۔
تیسرے نظریے کے مطابق وہاں کا سونا خالص سونا نہیں بلکہ سونے کی تہہ چڑھائے گئے ٹنگسٹن سے بنی اینٹیں ہیں۔ یہ خیال 2009 میں اس وقت مشہور ہوا جب چین نے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی منڈی میں جعلی سونے کی کچھ اینٹیں گردش کر رہی ہیں، جن میں سے کچھ مبینہ طور پر امریکی ذخائر سے آئی تھیں۔
آخر میں چوتھا سازشی نظریہ، جسے ٹرمپ اور مسک نے آگے بڑھایا، یہ ہے کہ سونا کسی طرح چرایا جا چکا ہے۔
پہلے دو نظریے تو فوراً مسترد کیے جا سکتے ہیں۔ اتنی بڑی مقدار میں سونا خفیہ طور پر بیچنا تقریباً ناممکن ہے چاہے آہستہ آہستہ ہی بیچا جائے۔ مزید برآں 330 ارب پاؤنڈ کا سونا امریکہ کے 28.3 ٹریلین پاؤنڈ کے قومی قرضے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ یہ کل قرضے کا صرف 1.17 فیصد بنتا ہے، اس لیے کسی بھی قسم کی خفیہ فروخت یا دھوکہ دہی کا جواز نہیں بنتا۔
تیسری تھیوری کو دو طریقوں سے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اول، اگرچہ اس ذخیرے کا مکمل آڈٹ نہیں ہوا لیکن 2017 میں ایک آزادانہ معائنہ ضرور ہوا تھا۔ سابق وزیر خزانہ منوچن نے دو ہفتے قبل کہا: ’جب میں نے یہاں کا دورہ کیا تو سونا وہیں موجود تھا۔ امید ہے کسی نے اسے ہلایا نہیں ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اگر صدر ٹرمپ اس کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں تو یہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بدقسمتی سے منوچن کی یہ بات غلط ہے کہ اربوں کا آڈٹ آسانی سے ہو سکتا ہے۔ حقیقت میں اس میں طویل عرصہ اور بھاری لاگت آئے گی، جو آڈٹ کے نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
گولڈ انویسٹمنٹ کمپنی ’جے ایم بیلن‘ کے مطابق اس عمل میں کم از کم 18 ماہ لگیں گے اور تقریباً 44,400 گھنٹوں کا انسانی کام درکار ہوگا۔
اس کمپنی کے مطابق اس آڈٹ کے لیے 20 ماہرین، 18 اعلیٰ معیار کی وزن کرنے والی مشینیں، 18 ایکس رے فلوروسینس سکینر، دو بورنگ ڈرلز، 18 آئٹم کارٹس اور اضافی لائٹنگ درکار ہوگی۔
صرف سکینرز کی قیمت 25 ہزار پاؤنڈ فی کس ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک مہنگا منصوبہ ہوگا جبکہ ٹرمپ اور مسک حکومتی اخراجات کم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کا واحد متبادل یہ ہوگا کہ جزوی آڈٹ کیا جائے اور صرف کچھ رینڈم سونے کی سلاخوں کا تجزیہ کیا جائے۔
جہاں تک ٹرمپ کے اس دعوے کی بات ہے کہ سونا چرایا جا سکتا ہے تو اگر ایسا ہوا ہے تو یہ نہ صرف صدی کی سب سے بڑی بلکہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی چوری ہوگی۔ تاہم حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔
فورٹ ناکس کی سکیورٹی کی تفصیلات خفیہ رکھی گئی ہیں لیکن جو معلومات دستیاب ہیں، ان کے مطابق وہاں مقامی فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ امریکی منٹ پولیس کی انتہائی تربیت یافتہ فورس تعینات ہے۔ گودام میں 13 الگ الگ مہر بند کمپارٹمنٹس ہیں، جن تک پہنچنے کے لیے 20 ٹن وزنی دروازے کو توڑنا ہوگا۔
مختصر یہ کہ ٹرمپ اور مسک کے دیگر بیانات کی طرح فورٹ ناکس میں سونے کی عدم موجودگی کا نظریہ بھی محض بے بنیاد افواہ ہے، لیکن اگر انہیں وہاں کے گوداموں کا دورہ کروایا جائے تو کون جانتا ہے کہ کیا وہ اسے کبھی تسلیم بھی کریں گے؟
© The Independent