صدیوں سے باد و باراں، برفانی تھپیڑوں اور سورج کی نوکیلی کرنوں سے مقابلہ کرنے والا ’لمسہ بدھا‘ جو دراصل تعداد میں تین ہیں، اب اپنا وجود کھو رہے ہیں۔
بھاری بھرکم چٹانوں پر کندہ یہ تاریخی ورثہ عوامی بےاحتیاطی اور حکومتی عدم توجہ اور توڑ پھوڑ کا شکار ہو کر معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے، حالانکہ اگر اس پر توجہ دی جائے تو نہ صرف مقامی و بین الاقوامی سیاحت بلکہ مشرقِ بعید کے مالدار ملکوں سے مذہبی سیاحت کی مد میں بھی خاصی آمدن کی توقع ہے۔
صرف دس سال پہلے یہ نقش خاصی بہتر حالت میں تھے، لیکن اب ان کی حالت یہ ہے کہ مشکل ہی سے نقش و نگار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر یہی حالت رہی اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں یہ انمول ورثہ سرے ہی سے مٹ جائے گا۔
ایک ہزار سال قدیم لمسہ بدھا کے آثار نہ صرف مذہبی، تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ انہیں دیکھ کر ان کے فنکاروں کے اپنے فن پر دسترس کا بھی اندازہ ہوتا ہے جنہوں نے دس صدیاں قبل نہ جانے کن نامساعد حالات میں پرانے اوزاروں کی مدد سے سنگِ خارا کی چٹانوں پر یہ صورتیں کندہ کیں۔
یہ نقوش کہاں واقع ہیں؟
ضلع شگر سکردو سے شمال کی جانب واقع ہے اور وہاں پہنچنے کے لیے دریائے سندھ کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ اب تو جدید پل بن گئے ہیں لیکن 70 کی دہائی تک شگر جانے کے لیے کھرپوچو قلعے کی گھاٹی میں واقع ایک چھوٹے گاؤں چھو میک سے گائے اور بھیڑوں کے چمڑے سے بنی مقامی تیار کردہ رافٹ سے دریائے سندھ پار کیا جاتا تھا۔
دریائے سندھ کو عبور کرتے ہی ایک بڑے ریتلے میدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو آج کل سرفہ رنگا کولڈ ڈیزرٹ کے نام سے مشہور ہے اور جہاں ہر سال جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے۔
اس ریت کے میدان سے شگر جانے کے لیے دو راستے مقبول و معروف ہیں۔ ایک تو وہی چھومک کے پار ریت سے ہوتا ہوا سرفہ رنگا گاؤں اور پھر ’جربہ ژہو‘ یا اندھی جھیل (Blind Lake) کے بعد شگر کے ابتدائی گاؤں لمسہ سے گزرتا ہے۔
دوسرا راستہ سکردو سے مشرق کی طرف جاتے ہوئے تھورگو گاؤں سے بائیں طرف مڑ کر جانے والی سڑک سے شروع ہوتا ہے۔ پھر دریائے سندھ کو ایک آر سی سی پل سے پار کرتے ہی سرفہ رنگا کے ریتلے میدان کا مشرقی حصہ آتا ہے۔ وہیں سے سڑک ایک درمیانے درجے کی پہاڑی سے ہوتی ہوئی لمسہ گاؤں کی طرف اترتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لمسہ گاؤں اب ایک لکیر کی مانند رہ گیا ہے کیونکہ دریائے برالدو کا پانی اس کی زیادہ تر زمین بہا کر لے گیا ہے اور ریت کو پھیلا دیا ہے۔ گاؤں سے اوپر کی جانب پہاڑی سلسلہ ہے اور وہاں ایک بڑے پتھر پر بدھا کے تین نقش کندہ کیے گئے ہیں۔ پہلے دو کھڑے حالت میں ہیں جبکہ ایک نسبتاً چھوٹا روایتی طرز پر یعنی التی پالتی مار کر بیٹھا ہوا بنایا گیا ہے۔
نقش اب ماند پڑ گئے ہیں
امتداد زمانہ کی وجہ سے اب یہ بدھا جو محققین کے مطابق بیٹھا ہوا ’سدھارتھ‘ اور کھڑے دونوں ’بدھی وستوا‘ خراب و خستہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
بدھ مت اشوک کے دور سے کشمیر اور بلتستان و لداخ کی طرف پھیلنا شروع ہوا کیوں کہ اشوک نے اس مذہب کو اختیار کرنے کے بعد اس کی تعلیم و ترویج کے لیے بہت سرگرمی سے کام کیا۔ تاہم کشمیر اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں اور گلگت بلتستان میں کشان دور حکومت میں بدھ مت کو زیادہ فروغ ملا۔ بلتستان میں اب تک معلوم بدھ کے نقوش منٹھل سکردو، پرکوتہ مہدی آباد اور متذکرہ لمسہ شگر میں پائے جاتے ہیں۔
جرمن ماہرین نے گلگت بلتستان کی تاریخ پر سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ ان کے مطابق چوتھی صدی عیسوی سے لے کر نویں صدی عیسوی تک کا دور بدھ مت کا سنہری دور رہا یے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ متذکرہ نقوش ہزار عیسوی کے عہد کے ہیں یعنی تقریباً ایک ہزار سال پرانے ہیں۔
ان تاریخی آثار قدیمہ کی حفاظت اور انہیں سیاحت کے فروغ کے حوالے سے استعمال میں لانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ہے۔ لمسہ بدھا شگر کی حفاظت کے لیے ایک بےڈھنگا سا پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جس میں سمینٹ کی اینٹوں کی بے ترتیب دیوار بنائی گئی تھی جو جگہ جگہ سے اکھڑ کر اب خستہ حالی کا شکار ہے۔
علاوہ ازیں ان کی دیکھ بھال کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کے ہاتھوں تخریب ہو رہی ہے جبکہ قیمتی اشیا ڈھونڈنے والے اس کے اطراف میں کھدائی کر کے اس جگہ کا حلیہ خراب کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں علیحدہ سے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے لمسہ بدھا شگر سمیت درجنوں آرکیالوجیکل سائٹس معدومیت اور اکھاڑ پچھاڑ کی زد میں ہیں۔
بلتستان میں آرکیالوجیکل سائٹس کا خصوصاً چٹانوں پر کندہ کاری پر تحقیقاتی کام بہت کم ہوا ہے۔ جرمن سکالرز اے ایچ فرینکی، کارل جٹ مار، ہیرالڈ ہافمین اور مارٹینا بیمین وغیرہ نے کچھ سائٹس کا تجزیہ و تحلیل کا کام کیا ہے، جبکہ گیراڈ فسمین، وان ہنوبر، ڈاکٹر نیر، ڈاکٹر احمد حسن دانی، سمز ویلیم تھیووالٹ وولمر وغیرہ نے چند تحریرات کی تشریح کی ہے۔
آغا خان کلچرل سروس پاکستان نے کچھ سائٹس کی فہرست بنائی ہے، جبکہ بلتستان کلچر اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن نے ایک سروے کیا ہے لیکن اس کی رپورٹس ابھی زیر طبع ہیں۔
میں اپنے شوق کی خاطر گذشتہ سات آٹھ سالوں سے بلتستان کے چاروں اضلاع کی کئی سائٹس پر جا چکا ہوں اور یہ کام اب بھی جاری ہے اور اس سلسلے میں ایک کتاب تحریر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں۔