کمالہ خان، وہ کردار اور وہ کہانی جس نے پوری دنیا میں پاکستان کی تصویر و تعبیر ہر لحاظ سے بدل کر ہی رکھ دی ہے، اس وقت تہلکہ مچائے ہوئے ہے۔
دنیا کی پہلی مسلم سپر ہیروئین اور ایشیا کا پہلا کامک اپنی تمام تر ثقافتی رعنائیوں کے ساتھ اپنے فینز کو جکڑے ہوئے ہے۔ اس کی اگلی دو اقساط کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔
چھ اقساط پہ مشتمل اس سیریز میں پاکستانی ہدایت کار کے طور پہ شرمین عبید چنائے اور اداکاری میں ثمینہ احمد، مہوش حیات، فواد خان، نمرہ بچا اور سیریز کی ہیروئین ایمان ولانی نے اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔
اس کے علاوہ بالی وڈ اور امریکہ سے بھی کاسٹ کو شامل کیا گیا ہے۔ یوں یہ گلوبل ولیج کی عمدہ مثال بنتی ہے لیکن اس کا اصل مرکز پہلی بار ایشیا اور پاکستان ہے۔ گرچہ تقسیم ہند کے واقعات میں لاہور کے ریلوے سٹیشن کی بات ہوتی ہے لیکن فلم میں کراچی کو مرکز بنایا گیا، شاید اس لیے کہ ایک بڑی آبادی کراچی جا کے آباد ہوئی تھی۔
کہانی جو ایک کینڈین نژاد پاکستانی ٹین ایجر لڑکی کی ہے، جس کا خاندان تقسیم ہند کے وقت پاکستان آیا تھا۔ بعد میں کمالہ کی فیملی کینیڈا آکر آباد ہو گئی۔
کمالہ اور اس کا بھائی عامر رہتے تو کینیڈا میں ہیں مگر ان کے ہاں اپنے روایتی رسم و رواج پاکستان کی طرح والدین کے کنٹرول میں ہی ہیں جو کمالہ کی پریشانی کا باعث اس لیے بھی ہیں کہ سکول میں ان خاندانی پابندیوں کی وجہ سے اسے کئی جگہ دشواری پیش آ تی ہے، لیکن وہ یہ بات اپنے والدین کو نہیں سمجھا سکتی کہ تہذیب کا فرق اسے کیسے نفسیاتی طور پہ پریشان کر رہا ہے کہ وہ خود کو اس ماحول میں اکیلا اور کم تر محسوس کرتی ہے، کمزور محسوس کر تی ہے۔
وہ پڑھائی میں بھی بہت اچھی نہیں ہے۔ اس نے بس اپنی ایک خیالی دنیا بسائی ہوئی ہے جس میں رہتی ہے۔ اپنا یو ٹیوب چینل بنایا ہوا ہے، جس میں نئے تجربات میں اپنی دنیا بسائے رکھتی ہے۔
کیپٹن مارول کی فین!
لاشعوری طور پہ ہم جس کے فین ہوتے ہیں، اس جیسا بننا چاہتا ہےکمالہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
ایک فیسٹیول Avengerconہونا ہے اور کمالہ اس میں شرکت کرنا چاہتی ہے، جس کے لیے اس نے خود کیپٹن مارول جیسا لباس اپنے دوست برونو کے ساتھ مل کر بنوایا ہے لیکن اس کی ماں اسے یہ لباس پہننے اور فیسٹیول میں جانے کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ لباس تنگ ہے اور فیسٹیول رات کو ہے۔
وہ برہم ہو کر کہتی ہے: ’اگر عامر بھائی نے جانا ہوتا تو اجازت مل جاتی لیکن مجھے نہیں مل سکتی۔‘
عامر کی شادی ہو نے والی ہے۔ وہ اپنی بہن کے احساسات کو سمجھ رہا ہے۔ وہ والدین سے بات کرتا ہے، وہ مان بھی جاتے ہیں لیکن اس کی ماں کی شرط ہوتی ہے کہ اس کے والد ساتھ جائیں گے اور وہ کمالہ اور اس کے والد کا لباس دکھاتی ہے کہ وہ یہ پہن کر جائیں گے۔
کمالہ کہتی ہے کہ یوں تو سب اس کو معیوب نظروں سے دیکھیں گے، مذاق اڑئیں گے۔ یہ سکول کے بچوں کا پروگرام ہے اور وہ اپنے دوست برونو کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔
برونو اور کمالہ کلاس فیلو بھی ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار اور دوست بھی ہیں۔ برونو ایک سفید فام لڑکا ہے۔
جب کچھ نہیں بن پاتا تو وہ ایک پلان کرتے ہیں کہ کمالہ اپنے کمرے کے پچھلے دروازے سے نکل کر آئے گی اور وہ دونوں بس سے اس فیسٹیول میں جائیں گے کیونکہ ڈرائیونگ ٹیسٹ میں تو وہ فیل ہو گئی ہے لیکن جب وہ کراچی کی سڑکوں پہ لوڈنگ ٹرک چلاتی ہے، وہ بھی کافی دلچسپ سین ہے۔
وہ فیسٹیول کے لیے تیار ہو تی ہے اور جاتے ہوئے ایشین گرل کے ٹچ کے لیے وہ کڑا جو اس کی نانی نے پاکستان سے پارسل کیا تھا اور اس کی ماں نے اسے سٹور میں رکھ دیا تھا کہ وہ غیر اہم سی چیز ہے، وہ بھی پہن لیتی ہے۔ جب وہ کڑا جس کے لیے انگریزی کا لفظ بینگل ہی استعمال ہوا ہے، پہنتی ہے تو اسے محسوس ہوتا ہےکہ کوئی خاص طاقت اس میں سرائیت کرگئی ہے۔ وہ برونو سے پوچھتی ہے لیکن وہ انکار کر دیتا ہے کہ اسے احساس نہیں ہو سکا۔
وہ دونوں اس فیسٹیول میں پہنچتے ہیں۔ وہاں اس کی کلاس فیلو ذوئی بھی کیپٹن مارول جیسا لباس ہی پہن کر آتی ہے۔ ذوئی کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ انٹرنیٹ پر فین ہیں۔ وہاں بھی وہ منفرد لگ رہی ہوتی ہے۔ اعتماد کا ایک اپنا حسن ہے جو ذوئی میں دکھائی دیتا ہے۔
کمالہ میں یہ حسن پہلی بار اپنی طاقت کا مثبت استعمال کرکے، ذوئی کی جان بچا کے دکھائی دیتا ہے۔
کمالہ جب اپنی پرفارمنس دینے آتی ہے تو اسے اپنی توانائیاں کنٹرول کرنا نہیں آ رہی ہوتیں لیکن وہ یہ بات سمجھ جاتی ہے۔ ذوئی کو اس توانائی کی مدد سے حادثے سے بچا بھی لیتی ہے لیکن اس کی شناخت نہیں ہو پاتی، بس وہ ’نائٹ لائٹ‘ سے شناخت کی جانے لگتی ہے،کیونکہ اس کا چہرہ چھپا ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیمج کنٹرول والے اس کی تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اسی دوران اس کے بھائی کی شادی ہے۔ شادی کی شاپنگ اور شادی کا دن، عید کا تہوار سب اس دوران دکھائے جاتے ہیں۔
ایشین گیت اور رقص بھی آتے ہیں جو اس معاشرے کا بھرپور عکس پیش کرتے ہیں۔کمالہ کی ایک پارٹی میں کامران سے ملاقات بھی ہوتی ہے اور کامران اس کا کرش بن جاتا ہے۔ یوں ایک چھپی ہوئی سی تکون محبت کی کہانی کمالہ، برونو اور کامران کے درمیان شروع ہو تی ہے۔
اس کی سب سے حسین بات یہ ہے کہ اس ہلکی سی رقابت نما محبت میں کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔
یہ معصوم محبت کی، اَن دیکھے نئے جذبو ں سے متعارف ہونے کی عمر ہے، جس کو کہانی سے الگ نہیں کیا گیا۔
عید کے تہوار اور بھائی کی شادی پہ کمالہ اپنی طاقت کا استعمال کر کے ایک بچے کو بچاتی ہے۔ عامر کی شادی پہ کامران کی والدہ کے نامناسب رویے سے محفل کو بد مزا ہونے سے بچاتی ہے۔ وہ اپنی طاقت کا استعمال دنیا میں بھلائی کے لیے کرنا چاہتی ہے۔
ذوئی کو ڈیمج کنٹرول والے کمالہ کے دھوکے میں پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ کہانی چونکہ جادوئی سی ہے اور روشنی کی طاقت کی بنیاد پہ ہے تو بہت تیز چل رہی ہے۔
برونو اپنے مشاہدے اور تحقیق کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے بتاتا بھی ہے کہ یہ طاقتیں اس کے اپنے اندر ہیں، سب کچھ ہاتھ کے کڑے کی وجہ سے نہیں ہے۔
کہانی اتنی تیز روی میں بھی دلچسپی و تجسس کو کم نہیں ہو نے دے رہی بلکہ بڑھا رہی ہے۔
کمالہ کو اندازہ تو ہو گیا ہے کہ اس دھاتی کڑے کا اس کی نانی اور خاندان والوں کےساتھ کچھ وراثتی معمہ ہے۔ وہ اس کھوج میں نانی سے ملنے اپنی ماں کے ساتھ کراچی آتی ہے جہاں بہت سے منطقی واقعات کے ساتھ آخر کار وہ ولید تک پہنچ جاتی ہے۔
ولید کا کردار بالی وڈ اداکار فرحان اختر ادا کر رہے ہیں۔ولید اسی روشنی کی مخلوق کا ایک رکن ہے۔ وہ کمالہ خان کو اس میں موجود طاقت کو کنٹرول کرنا سکھاتا ہے اور ایک حادثے میں مارا جاتا ہے۔
کردار بہت تیزی سے آتے ہیں اور بہت جلدی سے منظر سے چلے بھی جاتے ہیں، لیکن ایک ایک لمحہ تاریخ کے ہر پل کی بصری نشاندہی کر رہا ہو تا ہے بلکہ جو کپڑے پہنے گئے ہیں، ان پہ بنے امیجز ماضی کے کامکس کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
کراچی میں چوتھی قسط گزری ہے۔ اسے اپنی نانی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انسان نہیں بلکہ وہ سب جن ہیں، وہ خلائی مخلوق ہیں۔ یہ تصور بھی کامک میں یوں پہلی بار آیا ہے، جس میں جن کا روایتی ایشیائی تصور بدل دیا گیا ہے۔
جن، جس کے پاس انسان سے زیادہ طاقت ہے، جو خود کو کسی بھی روپ میں بدل سکتا ہے۔
اس کی نانی بتاتی ہیں کہ جب پاکستان بنا تو وہ اپنے والد سے جدا ہو گئیں تھیں، پھر کسی خاص طاقت کی وجہ سے ان سے مل گئیں۔ یہ واقعہ ایک ریل کے درد ناک منظر کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔کمالہ ریل کا منظر پہلے ہی دیکھ چکی ہوتی ہے۔
نانی اپنی والدہ کا قصہ بھی سناتی ہیں، جو کمالہ کی پڑ نانی ہیں۔ گویا کہانی سفر کرتی تقیسم ہند سے ہوتے ہوئے برطانوی راج تک آتی ہے۔ بدھا کا مجسمہ بھی ایک دوسرا کڑا تلاش کرتے دکھائی دیتا ہے۔
ایک ایک منظر اور ایک ایک شے کا لنک ایک دوسرے سے اتنی مہارت سے جوڑے رکھنے کے لیے ایک بہت بڑی ٹیم نے کام کیا ہے۔ پانچ چھ مصنفین ہیں جن کی قیادت ’بیشا کے علی‘ کر رہی ہیں۔ یونہی اس سیریز کو پروڈیوسرز کی ایک پوری ٹیم نے پروڈیوس کیا ہے۔
موسیقی اس سیریز میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پہلی قسط سے چوتھی تک مرحلہ وار پاکستان کے پہلے پاپ گیت ’کوکو کورینا‘ سے کوک سٹوڈیو تک کا کمال انتخاب ملتا ہے۔ مسرت نذیر، نازیہ حسن، سجاد علی گویا کوئی عہد ایسا نہیں جس کی نمائندگی نہ ہو ئی ہو۔کوئی انداز موسیقی نہیں جس کی پذیرائی نہ ہو ئی ہو۔ اس کا سہرا ’کارپ مین‘ کو جاتا ہے جو سیریز کو میوزیکل سیریز بھی بناتا ہے۔
بالی وڈ کی فلموں کے گیت اور فلموں پہ مکالمے ملتے ہیں۔
چار اقساط میں ایشیائی موسیقی کے تمام سنہری ادوار کو یوں پیش کر دینا قابل تحسین تو ہے ہی، اس نے پوری دنیا میں پاکستان کا آرٹ کے حوالے سے ایک بہت حسین و وسیع کینوس بنا دیا ہے۔ جو کوئی بھی دیکھنے والا بھلا نہیں سکتا۔
بنیادی زبان انگریزی ہے لیکن ایشیائی تہذیب کی نمائندگی ہے، اس لیے اردو، ہندی اور پنجابی کے الفاظ بھی سکرپٹ میں استعمال ہوئے ہیں، جو بہت لطف دیتے ہیں۔
ایک علامتی سی نشانی بھی محسوس ہو ئی ہے جب تقسیم ہند کے وقت سے اس طاقت کو ریل گاڑی اور ایک بچی کے باپ سے بچھڑ جانے اور ملنے سے جوڑا گیا ہے۔ مہاجرین طاقت ساتھ لے کے آ رہے تھے اور نجمہ کی صورت شر واپس اپنے سیارے پہ جانا چاہتا ہے، جس کی مدد کمالہ کا کڑا کر سکتا ہے۔
دوم پاکستانی ملک میں رہیں یا بیرون ملک کمالہ کی صورت میں یہ نوجوان اپنی طاقت ساتھ لیے پھرتے ہیں کہ ڈزنی پلس کے پلیٹ فارم سے جب ایشیائی و مسلم کہانی اور ہیرو چنا جاتا ہے تو پاکستان کی سر زمین اور ایک لڑکی کا انتخاب ہوتا ہے۔
کمالہ بذات خود ایشیائی و غیر ایشیائی مسلم ٹین ایجر بچیوں کی پوری نفسیات کی نمائندہ ہے۔ اس پوری نسل کی نمائندہ ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آ رہی۔
کہانی کو ففتھ جینریشن وار کے طور پہ بھی دیکھیں تو اپنے تمام در وا کرتی ہے۔
ابھی کہانی نے سفر کرنا ہے۔ ہم بھی کریں گے!
لیکن اس ایک سیریز نے پاکستان کے حوالے سے، مسلمانوں کے حوالے سے اور مسلم خواتین کے حوالے سے دنیا کی سوچ کو بدل دینے پہ مجبور کر دیا ہے۔
مسلم و ایشیائی لڑکی کا ایک بہت ہی نکھرا ہوا، طاقت ور، روشن، ذہین حسین ، وسعت سے بھرا، منفرد تصور تصویر کر دیا ہے۔جس پہ بات ہو رہی ہے۔
کمالہ کی طاقت کا تاثر ’نور‘ یعنی روشنی سے جوڑا گیا ہے۔
ہاتھ میں کڑے یعنی زیور کو طاقت بنا دیا ہے، طاقت کا تعلق روشنی سے جوڑ دیا ہے، روشنی جو ایک خلا سے دوسرے میں سفر کرسکتی ہے۔ دوسرے خلا کی مخلوق بھی روشنی کی مخلوق بتائی گئی ہے۔ اسے آگ یا آسمانی بجلی سے نہیں جوڑا گیا۔
روشنی کے لیے اس کا سب سے لطیف لفظ نور استعمال ہوا ہے۔ روشنی جس کی رفتار سب سے تیز ہے۔
اسی طرح کہانی کی رفتار بہت تیز ہے۔ یہ ایک اور مسلم تصور وقت سے برکت ختم ہونے کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔
مس مارول چوتھی قسط تک نائٹ لائٹ ہیں۔ ابھی اس کی اصل شناخت کسی پہ واضح نہیں ہوئی سوائے کامران، برونو اور ناکیہ کے کوئی نہیں جانتا کہ مارول اور نائٹ لائٹ ایک ہی کردار ہے۔
نائٹ لائٹ میں بھی روشنی کی لطیف صورت چاندنی اور ستارے ہی ہیں۔
تو پھر ابھی تک آپ گھر کیوں بیٹھے ہیں؟ فلم تو سینما میں لگی ہو ئی ہے۔
اگلی دونوں اقساط اس ہفتے ریلیز ہو رہی ہیں۔ آیئے مل کر پاکستان اور مسلم ورلڈ کی ایک خوبصورت اور منفرد تصویر دیکھتے ہیں۔