اپنی بیٹیوں کو پڑھائیں ان کو ان کے قدموں پہ کھڑا کریں، اس سے پہلے کہ کوئی ان کے اور آپ کے قدم اکھاڑ دے۔
لکھنا ہمیں کچھ اور تھا، ایک بہت مختلف لڑکی کے کردار اور کہانی پہ، لیکن دل کچھ دن سے ایک ایسی ہی خودکشی کی قیاس آرائیوں والی داستان میں لٹکا ہوا ہے، لہٰذا گزرتے ہوئے ٹی وی پہ اس لڑکی کی خودکشی کے منظر نے ہمیں روک لیا اور ہم ٹھہر گئے کہ دوسروں کو بھی روک سکیں: خدارا ہوش کے ناخن لیجیے، بیٹیوں کے رشتے کرتے ہوئے پہلی ہی چھٹی حس کی دستک پہ رک جائیں، مت سوچیں کہ دنیا کیا کہے گی۔ عزت اور بد نامی کا خواب دل سے نکال دیں۔
لڑکے والوں سے بلیک میل ہوتے ہوتے مڈل کلاس نے لڑکے پیدا کرنے والوں کو مافیا بنا دیا ہے۔
اولاد رب کی تقسیم ہے اس کی وجہ سے خود کو کمتر کیوں سمجھتے ہیں؟ یہ ڈر یہ خوف کہ بیٹی کا گھر بسا رہے دنیا کچھ نہ کہے۔ اس کو اپنی بیٹیوں کے دلوں میں بھی مت ڈالیں، انہیں اعتماد دیں اور ان کی بات پہ یقین کریں۔
ان کو بار بار سسرال واپس جا کر گھر بسانے کا مشورہ دیتے ہوئے سوچ لیں جو مرد اور ساس جسمانی اذیت دیتے ہیں وہ آپ کی بیٹی کو جان سے مار بھی سکتے ہیں۔
جیسا اس ڈرامے میں ہوا ہے۔
کہانی بہت سست روی کا شکار سہی مگر آپ کو آگاہ کر رہی ہے کہ ہر خودکشی، خودکشی نہیں ہوتی، قتل بھی ہو سکتا ہے اور ایسے قتل میں والدین اور دنیا والے سب شامل ہوتے ہیں۔ دنیا کیا کہے گی وہ سولی ہے جس پہ والدین اپنی زندہ بیٹی کو خود چڑھا رہے ہیں۔
’نیہر‘ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس میں گندے مندے سماج کی میلی کچیلی تصویر پیش کی گئی ہے جسے دیکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔
داماد صاحب کا پیشہ ہے کہ نئے سے نئے شہر میں جا کر بسنا اور وہاں اپنا کھیل رچا کر اگلے شہر نکل جانا۔
مظہر کی ماں خوش حال مڈل کلاس کی لڑکی کے گھر والوں کو میٹھی زبان اور دکھاوے سے اپنے بیٹے کی کمال چالاکی سے شادی کرواتی ہے۔
گاڑی کی ڈیمانڈ سے شروع ہوئی کہانی لاکھوں کی طلب تک جاتی ہے۔ لوٹ لاٹ کے یہ گھرانہ لڑکی کو جان سے قبر تک بہت صفائی کے ساتھ لے جاتا ہے اور پھر نئے شہر جا بستا ہے۔ اپنی پرانی کہانی دہرانے کو۔
ایسی کہانیاں پڑھتے دیکھتے ہمیشہ عورت اتنی مظلوم دکھائی جاتی ہے کہ افسوس ہوتا ہے والدین اس سے سستے میں بیٹی اپنے گھر میں پال سکتے ہیں جتنا مہنگا یہ داماد خرید لیتے ہیں اور اپنا خون تک اس پہ شاور و نچھاوڑ کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے بیٹی کے نصیب۔
ہر جگہ نصیب کی بات درست نہیں ہوتی، جیسے اس ڈرامے میں رشتے کے شروع سے ساس محترمہ کی فرمائشیں نشانی تھیں کہ وہ لالچی اور نامناسب گھرانا ہے، لیکن اب رشتہ جڑ چکا تھا اور دنیا کے ڈر سے کہانی کو 20 ہفتے تک کھینچا ہوا ہے، جیسے زندگی برسوں تک اس سولی پہ چڑھی رہتی ہے۔
کومل کی بہن اور اس کا موموں زاد عدیل کہتا رہا کہ رشتہ ختم کر دیں۔ والد صاحب ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمیں رک کر کبھی کبھی اپنے بچوں کی بات بھی سن لیتی چاہیے۔ وہ اتنے بھی کم عقل نہیں ہوتے، اگر وہ مشکل خود اٹھانے کا کہہ رہے ہیں تو بہت شان اور وقار سے والدین کا سر بلند بھی کریں گے۔
ایک داماد جب کروڑوں میں تولا جاتا ہے تو دوسرے کی خود بخود آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ موازنہ شروع ہوتا ہے اور والدین بوجھ تلے دبتے جاتے ہیں۔ یہاں بھی دوسرا پھوپھی زاد داماد یہی بوجھ ماموں کے گھرانے پہ ہے۔
عدیل ارم کے ساتھ شادی کے وقت جو ڈیمانڈ رکھ رہا ہے وہ المیے کو کم تو کرتا ہے مکافات بھی دکھاتا ہے، مگر تین چار گھرانے مسلسل ان رشتوں کی آگ میں قیامت ہو جائیں گے۔ زندگی اس کا نام تو نہیں ہوتی۔
اور ہر ڈرامے میں منفی کردار پھوپھی جان کا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اجی اس کو بھی ذہن کی مٹی سے کھرچ دیں۔ دل صاف کرنے کی کوشش کریں نئے رشتوں کی نئی بنت کریں جن میں کڑواہٹ نفرت نہ بنے، بس نمک تک رہے۔
ابھی تک ڈراموں میں اکثریت یہی دیکھا ہے یہ وہ پھوپھیاں ہیں جو جوانی میں بیوہ ہو گئیں اور ان کے بھائی عمر بھر ان کا گھر پالتے رہے۔ ان کا گھر دوبارہ نہ بسانے کی نفسیات سے جو زہر دھیرے دھیرے اندر اکٹھے ہوتے ہیں جو عزت نفس مجروح ہوئی ہوتی ہے۔ کہیں نہ کہیں جب وہ نکاس کا رستہ بناتی ہے تو انہیں بھائیوں کے گھر وہ رستے نکل آتے ہیں۔
ایک اکیلی کہانی کبھی سفر نہیں کر رہی ہوتی اس کے پیچھے اس کا ان دیکھا ماضی بھی ہوتا ہے۔
اس ڈرامے کی سب سے اچھی بات دو بہنوں کا اعتماد میں فرق، ایک نکمے شوہر کی وجہ سے جاب کر لیتی ہے اور گھر خود چلانے کا ذمہ اٹھا لیتی ہے۔ دوسری نامساعد حالات سے لڑتے اپنے جسم میں موجود دوسری جان سمیت جان کی بازی ہار جاتی ہے، کیونکہ وہ تو لڑکا مافیا آنٹی گھرانے میں پھنس چکی ہے اور والدین و سماج کا دباؤ اس پہ بہت زیادہ ہے۔
پھوپھی اماں کی بیٹی ارم اور مظہر کی بہن جیسی نفسیاتی مریض لڑکیوں کی تربیت کی بجائے ان کی مائیں مزید ان کے فسادی مشوروں پہ عمل کرتی اپنے ہی گھروں میں دوزخ بنا رہی ہوتی ہیں۔
چند برس پہلے ہمیں بھی شاید یہ کردار فیک لگا کرتے تھے کہ جیسے سماج میں موجود ہی نہیں ہوتے، لیکن جناب وقت سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔ بعض اوقات کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور کے پیچھے کی کہانی تک بہت ہمت سے آنکھیں، دل، دماغ کھول کے کام لینا پڑتا ہے۔
بڑے اور مشکل فیصلے وقت پہ نہ کرنے سے بڑے اور ناقابل فراموش صدمے اٹھانے پڑ جاتا ہے۔
کبھی کبھی جان بوجھ کے وقتی زخم سہنا، کسی میت کو اٹھانے سے بچا لیتا ہے۔
ڈرامے میں ایک بات بار بار سنائی دیتی ہے: تمہارے والد بہت سخت تھے۔ یہ ایک نسل کا المیہ ہے۔ جس نے ایک جنریشن گیپ کو جنم دیا ہے۔ اسی لیے نرم مزاجی کو ہر رشتے ہر تعلق میں فوقیت دی گئی ہے۔ نرم مزاجی بہت سے مسائل کا قدرتی حل ہے۔
سختی، اپنے کیے فیصلوں سے نہ ٹلنا، زبان دے دینا اور اس پہ ڈھٹائی سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ غلطی ہو سکتی ہے قائم رہنا یا رسم رواج کی پھانسی پہ لٹکے رہنا، سختی کے زمر ے میں آنے والا ہر فعل وقت گزرنے کے ساتھ آپ پہ سخت آزمائش لاتا ہے۔
ڈرامے کا کام صرف سکرین پہ تصویر کا تیسرا رخ بتانا ہے، دو رخ آپ کے سامنے موجود ہوتے ہی ہیں۔ آپ نے یا ہم نے کون سا زاویہ دیکھنا ہے، یہ ہماری بصیرت اور بصارت کی وسعت پہ ہے۔
ڈراما تو اپنے پہلے سین میں ہی ختم ہو گیا تھا، باقی تو تشریح ہے کہ بیٹی کی لاش والدین تک پہنچتی کیسے ہے۔
یہ افسانے کی تکنیکی بنت ہے۔ ڈرامے میں ’فلیش بیک‘ کہیں گے، لیکن حاصل، نتیجہ خلاصہ، سبق و قصہ۔ مختصر یہی ہے کہ بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے پہلے پچھتا لیں، بعد کا پچھتاوا رستے ویران اور اندھیرے کر دیتا ہے۔
زندہ بیٹی یا مردہ بیٹی یہ آپ کا فیصلہ بن سکتا ہے، اگر تھوڑی سی سمجھ داری اور تھوڑا سا وقت کو ڈھیل دے دیں۔
بزرگ کہتے آئے ہیں جلدی کا فیصلہ شیطان کا فیصلہ ہوتا ہے، لہٰذا فیصلے ٹھنڈے دماغ و دماغ سے اور وقت لیں کر کیا کیجیے، بزرگوں کی باتیں کوئی کلیہ تو نہیں، مگر حکمت کی پھکی ضرور ہیں جو کبھی کبھی نقصان اور صدمے سے بچا لیتی ہیں۔