’تم بوسکی پہنتے ہو؟ وہ کپڑا تو میں نے آج تک خریدا بھی نہیں!‘
یہ مانگنے والے سے ایک حیرت زدہ سیٹھ کا سوال تھا۔
جواب ملا کہ بھئی ’میں تو پہنتا ہوں، تمہیں نصیب نہیں تو میرا کیا قصور ہے؟‘
نصیب ۔۔۔
اس عید پہ غور کیجے گا کہ آپ کو نصیب کیا کچھ ہوا اور آپ نے اسے برتنے میں، ہنڈانے میں، کتنے کھلے دل سے کام لیا۔
وہ سیٹھ اداکار تسلیم عباس تھے، یوٹیوب پہ دیکھ رہا تھا، فقیر سے ان کا یہ مکالمہ ہوا تو ہنسی چھوڑ کے میں سوچنے لگ گیا کہ یار جیسے یہ سیٹھ ہے، اتنا پیسے والا ہے لیکن اپنی زندگی پہ، اپنی حالت پر کچھ خرچ نہیں کرتا ایسے ہی ہم سب بھی کہیں نہ کہیں حالات کے رونے روتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جو کچھ ہاتھ میں ہے، وہ بھی تو ہمارا ہے، پہلے اس سے لطف اندوز کیوں نہ ہوا جائے؟
زندگی سے گلے شکوے کبھی ختم نہیں ہو سکتے لیکن جیسے یہ عید کا دن ہے ۔۔۔ کم از کم اس دن ہم سب لوگ اگر صرف اس لیے اپنا موڈ اچھا رکھ لیں کہ ایک اور عید ہمیں اچھی صحت اور بغیر کسی بڑے نقصان کے مل گئی، تو کیا حرج ہے؟
عید کے دن 80 فیصد مرد نماز سے آئیں گے اور کرتا ہینگر پہ ٹانگ کے دوبارہ لیٹ جائیں گے، بات کریں تو جواب نہیں ملے گا۔ خواتین نے دوپہر تک کھانوں کا بندوبست کرنا ہو گا، سہ پہر کے آس پاس وہ تیار ہوں گی، رات کو ملنے ملانے ہوں گے اور بس ۔۔۔ پھر اگلا دن، وہی دن جو ہر روز ہوتا ہے۔ یہ سب مگر اتنی سہولت سے ہوتا نہیں ہے جیسے میں نے کہہ دیا۔
پریشر ۔۔۔ تیوہار اب ایک پریشر میں بدل چکے ہیں۔ مجھے ایک مہینے کی ایکسٹرا تنخواہ چاہیے تاکہ عید کے خرچے پورے ہو سکیں، میرا موڈ اس وجہ سے خراب ہو گا۔ گھر میں خواتین کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہو گا کہ عید کی صبح بھی ناشتہ بنانا ہے، پھر کھانے پکائیں، مہمانوں کی تواضع کو بھی کچھ رکھیں، وہ غریب اس چکر میں ہلکان ہو جائیں گی، پھر تیار ہونا ہے، سوشل میڈیا پہ تصویریں ڈالنا ہیں، مرد ہوں یا عورت ہم سب کو دنیا کے سامنے یہ ڈرامہ پیش کرنا ہے کہ ’ہماری عید سب سے بہترین تھی۔‘
اب دیکھیے، وہی فقیر والی بات ذہن میں رکھیں کہ ’تمہیں نصیب نہیں تو میرا کیا قصور ہے؟‘
یہاں فقیر ہمارے بچے ہیں۔ انہیں خوش ہونے کے لیے بہانہ چاہیے ہوتا ہے، اب ہم کو اگر عید نصیب نہیں بھی رہ گئی تو انہوں نے تو کچھ نئیں کیا نا یار! جیسی اچھی یادیں ہمارے پاس عید کے دن کی ہیں، کیا ان کے پاس ہوں گی آپ کے خیال میں؟
نہیں ہوں گی! اماں ابا دونوں باؤلے ہوئے وے ہیں، بچہ غریب سہم کر کسی کونے میں گھسا ہو گا یا وہی روز کی طرح موبائل پہ کچھ دیکھنا شروع کر دے گا، اس کے لیے خاص کیا کر دیا ہم نے؟ کپڑے جوتے عیدی، ہر ماں باپ اپنی حیثیت کے مطابق دیتے ہیں، نہیں بھی دیں، مولا حالات بہتر کرے تب دے دیں گے لیکن یار ۔۔۔ عید کو عید تو لگنے دیا جائے ۔۔۔ کہ نہیں؟
سال میں ایک دن ایسا کہ جس میں سب خوش ہوں۔ کوشش کر کے، پلاننگ کر کے، پہلے سے کچھ کام ختم کر کے، تین ماہ پہلے سے اوور ٹائم لگا کے ۔۔۔ کچھ بھی کر کے ہم کوشش نہیں کر سکتے کہ ایک دن ہم واقعی اس طرح منائیں جیسے ہمارے ماں باپ بغیر کچھ سوچے سمجھے قدرتی طور پہ ہمارے لیے مناتے تھے؟
دیکھیں سوشل میڈیا پہ جیسی ہم دکھانا چاہتے ہیں، کیا واقعی اپنے جوہر میں ایک عین ویسی ہی عید ہم منا بھی سکتے ہیں؟ اپنے لیے نہ سہی بچوں کے لیے، ان کے لیے تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی کتنی بڑی ہوتی ہیں!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر ہاتھ پاؤں ٹھیک چل رہے ہیں، نوکری یا کاروبار موجود ہے، گھر والے سلامت ہیں، ساتھ ہیں، نہیں بھی آس پاس مگر رابطے میں ہیں، کوئی بڑی پریشانی آپ کو نہیں آئی ہوئی تو جیسے گورے خوشی کا عالمی دن مناتے ہیں ویسے عید کو ہم اپنی خوشی کا ایک دن قرار کیوں نہیں دے سکتے؟
زبردستی کوئی نہیں، مولا آپ کو روزانہ ڈھیروں خوشیاں دے لیکن یار، میں دس پندرہ سال سے نوٹ کر رہا ہوں کہ عیدیں ہمیں اپنے پریشر میں دباتی جا رہی ہیں اور بجائے خوش ہونے کے، اس دن ہمارے موڈ زیادہ خراب ہوتے ہیں ۔۔۔ حالانکہ وجہ بہرحال اتنی بڑی نہیں، خاندان میں شادی یا موت پہ اس سے زیادہ خرچہ ہوتا ہے، کام بھی کئی گنا زیادہ کرنا پڑتا ہے تو ایک دن طے شدہ اگر آ ہی گیا ہے تو اسے ٹھیک طبیعت سے منانے میں کیا حرج ہے؟
ہماری ان حرکتوں کی وجہ سے ہم ایک پیچیدہ نئی نسل تیار کر رہے ہیں جسے چوبیس گھنٹے اس بات کا پریشر ہے کہ ان کے اماں ابا ٹینشن میں ہیں، عید پر بھی ہیں ۔۔۔۔ کیا ان کا حق نہیں کہ ہمارے مر جانے کے بعد وہ اگر عیدیں منائیں تو انہیں اتنا یاد ہو کہ باپ سارا دن تیار خوشی خوشی لوگوں سے ملتا تھا، ہمیں ملاتا تھا، ممی جلدی جلدی کام نمٹا کے ہمیں اچھے کپڑے پہناتی تھیں، ہم پہ چیختی نہیں تھیں، ہمارے دوست ملنے آتے تھے، ہمیں اپنی پسند کے کھانے ملتے تھے، عیدی ملتی تھی، اس دن ہماری ہر جائز بات مانی جاتی تھی ۔۔۔
جیسے میرا نام میری پہچان ہے ویسے ہی میرا تیوہار بھی میری شناخت ہے ۔۔۔ میں چاہوں گا کہ اسے اس کے اصل ایسنس میں باقی رکھوں ۔۔۔ بات سمجھنے کی ہے، سمجھ آ گئی تو آپ بھی یقیناً یہی چاہیں گے ۔۔۔ باقی وہی نصیب والی بات ۔۔۔ جو کچھ نصیب ہے، پاس ہے، ساتھ ہے، موجود ہے، اسے تو انجوائے کر لیں، اس کا فائدہ تو اٹھا لیں، گھر والوں کو بھی خوش ہونے دیں، بچوں کو بھی یادگار عید دیں ۔۔۔ ورنہ بس جسے نصیب ہی نہیں تو کوئی تیسرا کتنا سر مار لے گا؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔