عید کا ذکر ہو تومہندی، چوڑیاں اور نئے کپڑے لامحالہ ذہن میں آتے ہیں۔
مہندی کو عید یا شادی کے موقعوں اور گرمیوں کے موسم میں خواتین ہاتھ پیروں اور بالوں میں لگا کر ناصرف اس کے رنگ و خوشبو سے محظوظ ہوتی ہیں بلکہ اس کی ٹھنڈک کا بھی ایک اپنا احساس ہوتا ہے۔
وہ اس کے خوشی کے مواقعوں پہ نت نئے ڈیزائنوں سے اپنے ہاتھ پیر سجاتی آ رہی ہیں۔
یوں تو مہندی کے ان گنت برانڈ پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں مل جاتے ہیں، لیکن صوبہ سندھ کی تحصیل ’میہڑ‘ کی مہندی کی کیا ہی بات ہے جو دنیا بھر میں اس کی دھوم ہے۔
خلیجی ممالک ہوں، یورپ، امریکہ ہو یا انڈیا، ’میہڑ‘ کی مہندی کی مانگ اور دستیابی ہر جگہ ہے۔
اس کی خاصیت اور ایکسپورٹ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے میہڑ کے مقامی صحافی ریاض سومرو سے رابطہ کیا تو انہوں نے شہر کی قدیم تاریخ کے حوالے سے بتایا کہ یہ شہر 1848 میں ایک ہندو خاتون ’میہڑ‘ کے نام پہ بسایا گیا۔
میہڑ میں مہندی کا پہلا پودا تقریباً سو سال بعد لگایا گیا، تب سے یہ سلسلہ چل نکلا اور یہ ابتدا ہوئی آج کی مشہور ’سپنا مہندی‘ کے فیکٹری مالک عبدالجبار کے گھرانے سے۔
’سپنا مہندی‘ کے نام سے بنی فیکٹری کے مالک عبدالجبار نے اس کی کہانی کچھ یوں بیان کی۔
’1948 میں بٹوارے کے بعد چچا کو میہڑ میں کسی نے مہندی کا پودا لا کر دیا اور مہندی کے بارے میں بتایا۔
’اس سے قبل سندھ میں، ان کے مطابق، لوگ مہندی سے واقف نہیں تھے اور یوں انہوں نے میہڑ کی زمین میں پہلی بار مہندی کا پودا لگایا‘ اور اس کی افادیت سے بنیاد پڑی ’سپنا‘ مہندی کی۔
صحافی ریاض سومرو کے مطابق ’میہڑ‘ کی مہندی اپنی مٹی کی ایسی خوشبو میں رچی بسی ہوتی ہے کہ لگانے والا کئی دن اس کی خوشبو اور لال رنگ سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
یہ مہندی کیمیکل فری ہوتی ہے لیکن بقول عبدالجبار اس کے بیوپاری وزن میں اس وقت کھوٹ ڈال دیتے ہیں جب اس کے پتوں میں ’نیم اور ٹالی یا شیشم ‘ کے پتے ملا کر پیسا جاتا ہے۔
اس کے پیکٹ پاؤ، آدھا یا ایک کلو کے وزن سے مارکیٹ میں مل جاتے ہیں۔ میہڑ کی اس خاص مہندی کا پودا سال میں سردی اور گرمی کے دوران دو فصلیں دیتا ہے۔
گرمی کی فصل تقریباً فی ایکڑ 30 من ہوتی ہے جب کہ سردیوں میں اس کی فصل فی ایکڑ ڈبل ہو جاتی ہے۔
یاد رہے میہڑ کی مہندی کا بیج ہر فصل میں نہیں لگانا پڑتا بلکہ ایک ہی پودا سالہا سال اس کی خوشبو اور لالی سے بھری مہندی اگاتا رہتا ہے۔
مہندی سندھ میں کپاس کے بعد ایک اہم فصل سمجھی جاتی ہے لیکن حکومت اس پر نہ کوئی سبسڈی دیتی ہے، نہ اس کی فصل کے لیے بجلی کی فراہمی کا کوئی سلسلہ کیا گیا اور نہ اس کی فصل کے حوالے سے کوئی خاص وسائل کاشت کاروں کو فراہم کیے گئے۔
عبدالجبار کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے ان کے پاس 1952 سے اب تک نہ ایکسپورٹ لائسنس ہے اور نہ کوئی وسائل۔
’یہاں سے مہندی پیس کر کراچی میں بیوپاریوں کو فروخت کی جاتی ہے جو اسے ایکسپورٹ کرتے ہیں، میہڑ میں لوکل ایکسپورٹر موجود نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاروبار اور اس سے جڑے مسائل اور کم وسائل اپنی جگہ، لیکن میہڑ اور اس کے اطراف میں تقریباً 150 بیوٹی پارلر اس مہندی سے پارلر آئی خواتین کے ہاتھ سجاتے اور بال رنگتے ہیں۔
میہڑ کی مہندی ’سرخ‘ رنگ کی ہوتی ہے۔ پہلے مہندی کے پتے پتھروں کی بنی چکی پہ پسا کرتے تھے لیکن اب جب ہر جگہ چین کا مال مل رہا ہے تو یہ مہندی بھی چینی ’پن‘ والی چکیوں پہ پسا کرتی ہے۔
مہندی سے سنگھار اور بالوں کا رنگنا اپنی جگہ لیکن میہڑ والوں کے مطابق یہ مہندی ’زخم بھی بھرتی ہے‘۔
کئی برس پہلے اپنے صحافتی سفر میں جب کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری سے آگے ’ریڑھی گوٹھ‘ کی جھینگے چھیلنے والی خواتین سے میں نے وہاں بنی کئی فیکٹریوں میں جا کر انٹرویو کیا تو ان کے زخمی ہاتھوں سے مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔
لیکن ایک نوجوان جھینگے چھیلتی لڑکی نے بڑے اطمینان سے ان زخموں کا مرہم ’مہندی کا لیپ‘ بتایا تھا۔
ریاض سومرو اور عبدالجبار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میہڑ‘ کی مہندی کے رنگ و خوشبو کے علاوہ اس کا جو استعمال ہے وہ یہ کہ اس مہندی کا لیپ پرانے سے پرانا ناسور، زخم اور گھاؤ بھی بھر دیتا ہے۔ ‘
بقول ریاض سومرو: ’اگر کوئی آگ سے جل جائے تو ہم طبی مدد بعد میں دیتے ہیں پہلے جسم کے متاثرہ حصے پہ اپنے میہڑ کی مہندی کا لیپ لگاتے ہیں جس سے جلن رک جاتی ہے، جسم کا وہ حصہ سن ہو جاتا ہے اور یہ شفا صرف پورے سندھ میں میہڑ کی مہندی میں ہی پائی جاتی ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔