پاکستان کو پانی کے بحران کا سامنا ہے اور یہ تیزی سے واٹر سٹریسڈ کی درجہ بندی سے نکل کر واٹر سکیئرس درجہ بندی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر شخص کے لیے پانی کی مقدار ایک ہزار کیوبک میٹر سالانہ رہ گئی ہے۔ آسان الفاظ میں پاکستان کے ہر ایک شخص کے لیے جو پانی کی مقدار مہیا ہے اس کو اگر اولمپک سائز سوئمنگ پول میں ڈالا جائے تو وہ آدھا بھی نہیں بھرے گا۔
لیکن عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان شاید واٹر سکیئرس درجہ بندی کی جانب بڑھ نہیں رہا بلکہ پہلے ہی سے اس درجہ بندی میں داخل ہو چکا ہے۔
پاکستان کی پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت زیادہ سے زیادہ تیس روز کی ہے، جب کہ عالمی سطح پر کہا جاتا ہے کہ جس ماحول کا سامنا پاکستان کو ہے ایسے ملک میں پانی کا ذخیرہ کم از کم 1000 روز کا ہونا چاہیے۔
پاکستان کا 92 فیصد حصہ یا تو سیمی ایرڈ یا ایرڈ میں آتا ہے اور پاکستان کی بڑی آبادی زمین کے اوپر اور زیر زمین پانی پر انحصار کرتی ہے۔ لیکن اس پانی کا ایک ہی سورس ہے اور وہ ہے دریا سندھ۔۔ لیکن ساتھ ہی ملک کی 90 فیصد زرعی پروڈکشن ان علاقوں میں ہے جو دریا انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم سے سریاب ہوتی ہے۔ یعنی پاکستان کی فوڈ سکیورٹی انڈس بیسن میں پانی پر منحصر ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی آبادی 1947 سے اب تک چار گنا بڑھ چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2100 تک یہ آبادی بڑھ کر 10 گنا ہو جائے گی۔
پاکستان میں ہر شخص کے لیے کم ہوتا پانی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ سے نہ صرف پاکستان کو پانی کے بحران کا سامنا کرنا ہے بلکہ فوڈ سکیورٹی کا بھی۔ ایسی صورت حال سے پاکستان کو 2025 تک اپر مڈل کلاس اِنکم ملک بنانے کے منصوبے اور دیرینہ امن اور سکیورٹی حاصل کرنے کا ہدف حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔
موسمی تبدیلی ممکنہ طور پر پاکستان کے آبی بحران پر اثر انداز ہو گی لیکن اس طرح نہیں جیسے عام طور پر یہاں کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں عام تاثر ہے کہ دریا سندھ میں پانی کم ہو جائے گا۔ ایسا ہو گا لیکن 2050 تک نہیں کیونکہ گلیشیئر پگھلیں گے اور دریا سندھ میں پانی یا تو اتنا ہی رہے گا یا زیادہ ہو گا۔ لیکن سب سی زیادہ تبدیلی پانی کے بہاؤ میں ہو گی اور یہ تبدیلی ایک سال سے دوسرے سال مختلف ہو گی۔ اور اسی کی وجہ سے پانی کا بحران مزید بڑھے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ساری بحث میں جس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ موسمی تبدیلی سے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات جس میں پانی کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں اضافے کے باعث زرعی شعبے کو مزید پانی درکار ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ تھرمل پاورپرڈکشن پر بھی اثر پڑے گا۔ تھرمل پاور پاکستان میں 65 فیصد انرجی مہیا کرتی ہے۔
پاکستان اور انڈیا میں گذشتہ سال جو درجہ حرارت رہا اس نے تمام قومی اور عالمی ریکارڈ توڑ دیے۔ پاکستان میں مارچ 1961 کے بعد سے سب سے زیادہ گرمی پڑی جبکہ انڈیا کے جنوب مغرب اور وسط انڈیا میں گذشتہ اپریل ایک صدی میں سب سے گرم ترین اپریل کا مہینہ رہا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جاتا ہے تو پاکستان میں کراچی اور انڈیا میں کلکتہ جیسے شہر 2015 جیسی گرمی ہر سال دیکھیں گے۔
پاکستان میں 2015 میں آنے والی شدید ہیٹ ویو کے نتیجے میں 1200 سے زائد افراد چل بسے تھے۔ اسی طرح 2010 کے بعد سے انڈیا میں بھی 6500 سے زیادہ افراد ہیٹ ویو کے باعث جان سے جا چکے ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی بڑی مقدار میں موجود ہے اور دنیا میں صرف 35 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس پاکستان سے زیادہ پانی کے وسائل ہیں، لیکن پانی کے وسائل کو مینیج نہیں کیا جا رہا اور بڑھتی آبادی موجودہ وسائل پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔
ایک طرف پانی کے وسائل کو ہم صحیح طور پر مینیج نہیں کر رہے تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی ناقابل تغیر بارشوں، قحط اور سیلاب کی صورت میں ہمارے موجودہ نظام پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔
پانی کی قلت اب بھی حکومت کے ریڈار پر نہیں آئی ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی مربوط پالیسی یا بیانیہ سامنے نہیں آیا ہے۔ وقت نکلتا جا رہا ہے۔
ملک کی 22 کروڑ عوام 2025 تک شاید 25 کروڑ ہوچکی ہو گی۔ 2025 وہ سال ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مطلق پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ مطلق پانی کی قلت سے صرف پاکستان کے ریگستانی علاقوں میں رہنے والے ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وہ آبادی بھی متاثر ہو گی، جو ملک کے شمالی علاقوں میں رہتی ہیں جہاں 5000 سے زائد گلیشیئرز ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔