’سالگرہ‘ کا لفظ عام طور پر خوشگوار اور یادگار لمحات کے متعلق بولا جاتا ہے۔ لیکن اگست کی 15 تاریخ کو افغانستان پر طالبان کے کنٹرول اور اقتدار کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے اور یہ میرے وطن کے لیے ایسا موقع نہیں جس سے مسرت کے جذبات وابستہ ہوں۔
حال ہی میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن UNAMA نے ’افغانستان میں انسانی حقوق‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کی ملکی صورت حال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
اس میں شہری ہلاکتوں، خواتین کے حقوق، آزادی اظہار پر پابندیوں، ماروائے عدالت قتل اور نسلی اقلیتوں پر ظلم و ستم کو نمایاں کیا گیا لیکن یہ رپورٹ پریشان کن ہونے کے باوجود چونکا دینی والی نہیں۔ میڈیا پر کڑی سنسر شپ اور صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی کے رویے کے سبب طالبان کے خلاف شواہد اکٹھے کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے سو بہت کم چیزیں رپورٹ کی جا سکی ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے ’انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے‘ اقدامات کیے اور سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں طالبان کے سامنے کئی سفارشات رکھی گئی ہیں کیونکہ افغان حکومت عالمی سطح پر اپنی ساکھ بہتر کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے لیکن افغانیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
مسلح تشدد میں بحیثیت مجموعی نمایاں کمی کے باوجود اگست 2021 اور جون 2022 کے درمیان افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے 2106 شہری متاثرین (700 ہلاکتیں، 1406 زخمی) ریکارڈ کیے۔ ان میں سے اکثریت کی وجہ مسلح گروہ داعش خراسان کے نسلی اور مذہبی اقلیتی برادریوں پر کیے گئے حملے تھے۔ مذکورہ متاثرین میں سے بیشتر افراد کو ان کی عبادت گاہوں، سکولوں یا روز مرہ زندگی کے کام کاج کی جگہوں پر نشانہ بنایا گیا۔
قائم مقام سیکریٹری جنرل برائے افغانستان کے خصوصی نمائندے مارکس پوٹزیل کے مطابق ’20 سال کے مسلح تصادم کے بعد تمام افغانوں کے لیے امن سے گزر بسر کرنے اور از سر نو زندگی تشکیل دے پانے کا کام ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ ہماری نگرانی سے پتہ چلتا ہے کہ 15 اگست کے بعد سے سکیورٹی کی بہتر صورت حال کے باوجود افغانستان کے لوگ خاص طور پر خواتین اور لڑکیاں اپنے انسانی حقوق کی مکمل فراہمی سے محروم ہیں۔‘
خواتین کے خلاف مہم
افغانستان زیر تسلط ہے۔ بہت سی رپورٹوں نے طالبان کی طرف سے ہزارہ آبادی کی جبری نقل مکانی اور منظم نسل کشی، ٹارگٹڈ تشدد اور 600 تاجک یرغمالیوں کے اجتماعی قتل کے عینی شاہدین، وادیِ پنج شیر میں انسانیت سوز جرائم، معدنی دولت والی پٹی کی کان کنی اور خواتین کے خلاف مہم کا ذکر کیا ہے۔
طالبان اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیج دیتے ہیں لیکن دوسری طرف لڑکیوں کے سیکنڈری سکول تقریباً ایک سال سے پابندیوں کی زد میں ہیں۔
خواتین کو حجاب یا برقع پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے، پارکوں میں صنفی بنیادوں پر تفریق ہے اور حال ہی میں خواتین کو وزارت خزانہ کی ملازمتوں سے ان کے مرد رشتہ داروں کے حق میں برطرف کر دیا گیا۔
رواں برس مئی کے ابتدائی ایام میں طالبان کی وزارت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نے اعلان کیا: ’تمام معزز خواتین کے لیے حجاب پہننا ضروری ہے‘ یا سر پر سکارف لیں۔ وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مطابق: ’عورت کے جسم کو ڈھانپنے والا کوئی بھی لباس حجاب سمجھا جائے گا بشرطیکہ وہ اتنا چست یا باریک نہ ہو کہ جسمانی اعضا کا پتہ چلے،‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ چادوری (نیلے رنگ کا افغانی برقع) ’سب سے بہتر برقع‘ ہے۔
حکم عدولی کی صورت میں سزا کا ذکر بھی مفصل انداز میں کیا گیا کہ مجرم خواتین کے مرد سر پرستوں کو وارننگ کے بعد سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا جائے گا۔ وزارت کے بیان کے مطابق: ’اگر کوئی عورت بغیر حجاب پکڑی گئی تو اس کے محرم کو متنبہ کیا جائے گا۔ دوسری بار سرپرست کو طلب کر لیا جائے گا اور بار بار پیشیوں کے بعد معاملہ نہ سلجھا تو اس کے سرپرست کو تین دن کے لیے قید کر لیا جائے گا۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں افغان خواتین کی صورت حال کو ’سست رو موت‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ وزارت امور برائے خواتین کے خاتمے سمیت اپنے اقدامات کی وجہ سے طالبان حکومت صنفی نسل پرستی کا نظام بن کر ابھری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان نے مردوں کو داڑھی بڑھانے، اسے نہ تراشنے اور مقامی لباس پہننے یا نتائج کا سامنا کرنے کی بھی احکامات جاری کیے ہیں۔
دیگر افسوس ناک واقعات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ افغان طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے لاکھوں افغان بے گھر ہو چکے ہیں۔ جون میں آنے والے ایک طاقتور زلزلے میں ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی۔
افغانستان سے تمام عسکری دستوں کے انخلا کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے دوحہ معاہدے کی بھی دھجیاں اڑا دی گئیں کیونکہ دہشت گرد گروہ پھر سے طالبان کے تحت اپنی صف بندی کر رہے ہیں۔
غیر ملکی مداخلت
1996 اور 2001 کے درمیان صرف تین ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا: پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ اگرچہ کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن امریکہ اور اس کے پاکستان اور عرب کی خلیجی ریاستوں جیسے شریک کاروں نے افغانستان کو غیر مستحکم کیا ہے۔
افغانستان میں پائے جانے والے زیادہ تر عدم استحکام اور بدعنوانی کا تعلق 1950 اور 1960 کے عشروں میں امریکہ اور سوویت یونین کی یہاں کے بنیادی ڈھانچے میں شمولیت سے جڑا ہے جو آج بھی اسے پریشان کر رہا ہے۔ ملک کی پوری معیشت بیرونی امداد پر منحصر ہو کر رہ گئی ہے۔
گذشتہ برس اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم نے نہ صرف طالبان کا دفاع کیا بلکہ دعویٰ کیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ’موجودہ حکومت کو مضبوط کرنا‘ اور ’افغانستان میں عوام کی بہتری کے لیے اسے مستحکم کرنا ہے۔‘
اس کا انحصار طالبان کے وعدوں پر تھا کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کریں گے، ایک جامع حکومت قائم کریں گے، سابق سرکاری ملازمین کو عام معافی دیں گے اور ملک کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔ تقریباً ایک سال بعد ان میں سے کوئی بھی وعدہ پورا ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔
افغانستان میں پاکستان مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں جس میں پاکستانی حکام کی افغانستان میں کئی بار کی آمد و رفت اور طالبان کی حمایت کی مذمت کی گئی ہے۔
پاکستان کو کوئلے کی رعایتی فروخت کا افغانوں کی طرف سے عوامی احتجاج کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ قطر کے بھی طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور دونوں کے درمیان سیکورٹی معاہدہ ممکن ہے۔ چین نے طالبان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کو وسعت دی ہے۔
پناہ گزین کے ساتھ ظالمانہ سلوک
افغان پناہ گزین کا بحران پریشان کن ہے۔ ایران نے ہزاروں افغان پناہ گزین کو ملک بدر کیا اور انہیں عوامی و حکومتی سطح پر دونوں طرح سے ناروا سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری طرف ترکی نے بھی 10 ہزار پناہ گزین کو زبردستی ملک سے نکال باہر کیا۔
بیلجیئم نے سیکنڑوں افغان پناہ گزین کے سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں جس سے ان کی ملک بدری کے خدشات مزید گہرے ہو گئے، کیونکہ وہاں کے حکام افغانستان کو ان کے لیے محفوظ سمجھتے ہیں۔
یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے جگہ بنانے کی خاطر جرمنی نے 24 گھنٹوں کے اندر اندر افغان پناہ گزینوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا۔
کینیڈا نے افغان پناہ گزین کی تعداد 40 ہزار تک محدود کر دی جبکہ دوسری طرف یوکرین کے پناہ گزینوں کے لیے کوئی حد نہیں اور حکومت نے یوکرینیوں کو سکیورٹی کے حوالے سے چند خصوصی رعایتیں بھی دے ڈالی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اگست 2021 سے ساڑھے چھ لاکھ سے زائد افغانوں کو ہمسایہ ممالک سے ملک بدر یا واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے۔ یہ چیز بہت سے لوگوں کے لیے طالبان حکومت میں باعث تشویش اور ان کی زندگیوں کے لیے خطرناک ہے۔
اب 2023 کے نیشنل ڈیفینس آتھرائزیشن ایکٹ کی منظوری کے بعد امریکی محکمہ دفاع کے ذرائع کے ہاتھوں افغانستان کو فراہم کی جانے والی امریکہ کی انسانی امداد ختم ہو گئی ہے۔ جب تک طالبان کی حکومت ہے دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران مزید گہرا ہوتا رہے گا۔
افغانستان کے باشندے مسلسل حقوق انسانی سے محروم کیے جا رہے ہیں، جنگ کی عدم موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں امن ہے۔ طالبان کو اچھا بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے وہ مردانہ حاکمیت کے علمبردار دہشت گرد ہیں۔
مزاحمتی قوتیں اس ناجائز حکومت کے خلاف لڑ رہی ہیں جو کسی بھی طرح افغانوں کی نمائندہ نہیں، لیکن باقی دنیا کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر چھپی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی مصنفہ فردوسہ آصفی کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔