برطانیہ کے چھوڑے گئے تنازعات جو پاکستان بھارت تناؤ کی وجہ ہیں

ہندوستان سے انگریزوں کی روانگی نے تقسیم کے صدموں سے لے کر کشمیر پر جاری تنازع تک بہت سے حل طلب مسائل چھوڑے ہیں۔ یہ نتائج اب بھی خطے اور اس سے آگے کی سیاست کو تشکیل دیتے ہیں۔

15 اگست 1947 کو برطانوی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے ساتھ بھارت کی پرچم کشائی تقریب میں شریک۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان اور انڈیا کو برطانوی راج سے آزادی حاصل کیے 75 سال پورے ہونے کو ہیں۔ برطانیہ خود تو یہاں سے چلا گیا لیکن اپنے پیچھے دونوں ممالک میں کچھ غیر حل شدہ تنازعات چھوڑ گیا ہے جو ابھی بھی دونوں ہمسایوں کے درمیان تناؤ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

1947 میں برطانیہ جنگوں سے تھک چکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم نے تاج برطانیہ کی فوج اور معیشت کو تباہ کر دیا تھا اور استعمار مخالف تحریکوں نے مختلف خطوں پر مسلط سلطنتوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔

برصغیر پاک و ہند میں برطانیہ کو دو طاقتور تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن یعنی پاکستان کے قیام اور دوسرا آزاد انڈیای جمہوریہ کا مطالبہ تھا۔

برطانیہ نے مصالحت سے عاری دونوں تحریکوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر خطے کو تقسیم کرنے اور پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔

انڈین انڈیپنڈنس (آزادی) ایکٹ کی شرائط کے تحت برصغیر کو باضابطہ طور پر 14 اور 15 اگست 1947 کی نصف شب دو نئے ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

کروڑوں کثیر الثقافت لوگوں کی زمین کو تقسیم کرنا خود تقسیم ہند کے منصوبے سے کہیں زیادہ پیچیدہ عمل تھا۔ اس کے فوراً بعد پھوٹ پڑنے والے بڑے پیمانے پر فسادات سے تقریباً 10 لاکھ افراد ہلاک اور ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے۔

اس تاریخ کا ایک خاصا پیچیدہ حصہ ان خطوں کی قسمت کا فیصلہ تھا جنہیں ’شاہی ریاستیں‘ کہا جاتا ہے اور جنہیں برطانوی راج میں کچھ خود مختاری حاصل تھی۔ یہ مخمصہ اب بھی خطے پر اثر انداز ہو رہا ہے، خاص طور پر جموں و کشمیر پر، جو تب سے تنازعات کا شکار ہے۔

برطانوی دور حکومت میں ہندوستان میں دو اقسام کی ریاستیں تھیں۔ ان میں سے بیشتر ریاستوں پر براہ راست لندن سے حکومت کی جاتی تھی اور دوسری کچھ ’شاہی ریاستیں‘ جو برائے نام اس وقت تک آزاد تھیں جب تک کہ ان کے شاہی حکمران (نواب/مہاراجہ) تاج برطانیہ کی ’برتری‘ کو تسلیم کرتے تھے۔

اس نظریے کی شرائط کے تحت یہ ’شاہی ریاستیں‘ وسیع پیمانے پر اپنے اندرونی معاملات کا انتظام کر سکتی تھیں لیکن انہیں تین اہم پالیسی امور پر برطانیہ سے رجوع کرنا پڑا تھا، جن میں مواصلات، دفاع اور خارجہ امور شامل تھے۔

تقسیم ہند کے وقت تقریباً 562 ایسی خود مختار ریاستیں تھیں جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے انتہائی چھوٹی تھیں۔

جیسے ہی انگریزوں نے ہندوستان سے جانے کی تیاری کی تو آخری برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے حکم صادر کیا کہ شاہی ریاستوں کے نوابوں کے پاس ایک انتخاب کا حق ہے کہ وہ یا تو پاکستان یا پھر انڈیا میں سے کسی ایک میں شامل ہو سکتے ہیں۔ آزادی کا انتخاب ان کے لیے ایک مؤثر طریقے سے مسترد کر دیا گیا۔

مزید برآں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے دو اہم شرائط کا اضافہ کیا، جن کے تحت شاہی ریاستوں کو آبادی کے اکثریتی مذہب اور ان کے جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر انڈیا یا پاکستان کے ساتھ ضم کیا جا سکتا تھا۔

ان شرائط کے مطابق زیادہ تر مسلم ریاستیں پاکستان میں شامل ہوں گی اور دیگر انڈیا میں۔ آخر میں یہ شرط بھی رکھی کہ جو ریاستیں جغرافیائی طور پر دو نئے بننے والے ممالک میں سے کسی ایک کی سرحدوں کے اندر واقع ہیں ان کی آبادی کے اکثریتی مذہب سے قطع نظر، ان کا اس مخصوص ملک میں شامل ہونا ضروری ہے۔

شاہی ریاستوں کے نوابوں کی اکثریت نے اس منصوبے کے بارے میں تحفظات کے باوجود اسے تسلیم کیا کیوں کہ ان کے پاس بہت کم طاقت یا کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا اور انہوں نے انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیا۔

تاہم ان نوابوں میں سے بہت کم تھے جو ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے پیش کردہ شرائط سے اتفاق کرنے سے گریزاں تھے۔

ان میں سے تین خاص طور پر مزاحمت کرنے والے ثابت ہوئے۔ ان میں سے پہلے شمال مغرب میں جموں و کشمیر کے مہاراجہ تھے۔

مہاراجہ ہری سنگھ ایک ہندو حکمران تھا جو مسلمانوں کی اکثریت والے اس پہاڑی خطے پر حکومت کرتا تھا۔ معاملات مزید پیچیدہ اس لیے ہو گئے کیوں کہ یہ ریاست انڈیا اور پاکستان کے درمیان واقع تھی۔

انڈیا، جسے ایک سیکولر ریاست کے طور پر بنایا گیا تھا، وہ کشمیر کو یہ ظاہر کرنے کے لیے شامل کرنا چاہتا تھا کہ ایک مسلم اکثریتی خطہ ایک ہندو اکثریتی ملک میں ترقی کر سکتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان نے خطے کی جغرافیائی قربت اور مسلم اکثریت کی وجہ سے کشمیر کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہری سنگھ دونوں ریاستوں میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ انڈیا میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انڈیا کے اہم قوم پرست رہنما جواہر لال نہرو سوشلسٹ جھکاؤ رکھتے ہیں اور وہ ممکنہ طور پر انہیں اپنی وسیع زمینی جائیدادیں چھوڑنے پر مجبور کر لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں شامل ہونے کے بھی مخالف تھے کیونکہ ان کا مذہب اکثریتی مسلم رعایا سے متصادم تھا۔

پاکستان اور انڈیا کی آزادی کے اعلان کے بعد بھی ہری سنگھ اس بارے میں متزلزل تھے کہ کس ملک میں شامل ہونا ہے۔ اکتوبر 1947 میں جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں قبائلی بغاوت شروع ہوئی۔ جب اس کے فوجیوں نے بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی تو باغیوں کو فوری طور پر پاکستان سے فوجی مدد مل گئی۔

جیسے ہی قبائلی باغی سری نگر کے قریب پہنچے تو ہری سنگھ نے انڈیا سے فوجی مدد کی اپیل کی۔

انڈیا کے پہلے وزیراعظم نہرو نے دو شرائط پر انہیں مدد فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ ہری سنگھ کو ریاست کی سب سے بڑی مقبول اور سیکولر سیاسی جماعت کے انڈیا نواز رہنما شیخ محمد عبداللہ کی حمایت حاصل کرنا ہوگی اور انہیں انڈیا سے الحاق کی دستاویز پر باضابطہ طور پر دستخط کرنا ہوں گے۔

ہری سنگھ کی شرائط پر رضامندی کے بعد انڈیا نے ریاست میں فوج بھیج دی جس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان چار میں سے پہلی باقاعدہ جنگ تھی۔ کشمیر پر مکمل کنٹرول کے لیے سب سے آخری جنگ 1999 میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی۔

دونوں ہی ممالک مکمل کشمیر کی حیثیت پر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ انڈیا پوری ریاست پر دعویٰ کرتا ہے کیونکہ ان کے مطابق یہ قانونی طور پر (ہری سنگھ کی جانب سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کے بعد) اس کا حصہ بن گیا ہے۔ تاہم پاکستان کا تاریخی طور پر یہ نظریہ رہا ہے کہ کشمیر کو ایک ایسے حکمران نے انڈیا کے حوالے کیا جو اس کی اکثریتی مسلم آبادی کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔

درحقیقت دو جوہری طاقتوں کے درمیان یہ تنازع ایک ممکنہ عالمی فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے۔

ایک اور متنازع معاملہ جنوبی ریاست حیدرآباد دکن کا بھی تھا، جس کا مسلمان حکمران انڈیا میں شامل ہونا نہیں چاہتا تھا۔

نہرو نے ابتدا میں اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کی کوشش کی۔ تاہم جب حکمران نظام میر عثمان علی خان نے ان کی درخواستوں کے خلاف مزاحمت کی تو نہرو نے ریاست کے انڈیا میں انضمام کو یقینی بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔

تیسرا مشکل معاملہ جوناگڑھ تھا جو مغربی ہندوستان کی ایک شاہی ریاست تھی۔ جوناگڑھ کے مسلم حکمران نواب محمد مہابت خان بابی سوئم نے ہندو اکثریتی آبادی کے باوجود پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔

اس کے فیصلے سے ناخوش انڈیا کے رہنماؤں نے نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے ریاست پر لشکر کشی کر دی۔

اس فیصلے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے حکومت نے 1948 میں ایک ریفرنڈم کرایا جس میں 90 فیصد سے زیادہ شہریوں نے انڈیا سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا۔

ہندوستان سے انگریزوں کی روانگی نے تقسیم کے صدموں سے لے کر کشمیر پر جاری تنازع تک بہت سے حل طلب مسائل چھوڑے ہیں۔ یہ نتائج اب بھی خطے اور اس سے آگے کی سیاست کو تشکیل دیتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے ’دی کنورسیشن‘ پر چھپی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے چھاپا جا رہا ہے۔ اس کے مصنف سمت گنگولی امریکی کی انڈیانا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ