ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ایک ایسے مصری فرعون کا مقبرہ دریافت کیا ہے، جس کی شناخت ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی۔ اس فرعون کی آج سے تقریباً 3600 سال قبل اس وقت حکمرانی قائم تھی، جب خطے میں سیاسی عدم استحکام پایا جاتا تھا۔
مصری وزارتِ سیاحت و نوادرات کے مطابق یہ شاہی مقبرہ زمین کی سطح سے تقریباً سات میٹر گہرائی میں واقع ہے اور اسے ابیڈوس کے قدیم ’ماؤنٹ انوبس‘ قبرستان میں دریافت کیا گیا ہے۔
یہ دریافت شاہی مقبروں کی تعمیر کے حوالے سے نئی شہادت فراہم کرتی ہے، خاص طور پر ابیڈوس کے قبرستان میں۔
ابیڈوس قدیم مصر کے سب سے پرانے شہروں میں سے ایک ہے، جس کا تعلق ’ابیڈوس ڈائنسٹی‘ سے ہے۔ یہ ان بادشاہوں کی ایک سلسلہ وار حکمرانی تھی، جو 1700 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح کے درمیان بالائی مصر پر حکومت کرتے تھے۔
پراسرار فرعون کا یہ مقبرہ ایک چونے پتھر کی تدفین گاہ (برئیل چیمبر) پر مشتمل ہے، جس پر کچی اینٹوں کے محرابی ڈھانچے تعمیر کیے گئے تھے، جن کی اونچائی تقریباً پانچ میٹر تک پہنچتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو تدفین گاہ کے داخلی راستے کے دونوں طرف دھندلے نقوش بھی ملے ہیں۔ ان میں ایک نقشہ دیویوں ’آئسس‘ اور ’نیفتھِس‘ کا ہے، جبکہ دوسرا زرد رنگ کی تحریری پٹیوں پر مشتمل ہے، جن پر بادشاہ کا نام ہیروگلیف رسم الخط میں لکھا گیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقبرے کی بچ جانے والی تزئین و آرائش اور تحریریں ان فن پاروں اور نقوش سے مشابہت رکھتی ہیں جو بادشاہ سینیب کائے (King Senebkay) کے مقبرے سے ملے تھے۔
مصری نوادرات کے شعبے کے سربراہ محمد عبدالبدیع نے کہا کہ حال ہی میں دریافت شدہ یہ مقبرہ ان تمام مقابر سے کہیں بڑا دکھائی دیتا ہے، جو پہلے ابیڈوس ڈائنسٹی سے منسوب کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس پراسرار مقبرے کے مالک کا نام تاحال طے نہیں کیا جا سکا، لیکن یہ یقیناً ان بادشاہوں میں سے ایک کا ہے، جنہوں نے سینیب کائے سے پہلے حکومت کی تھی۔
اس نئی دریافت سے چند روز قبل ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ایک اور مصری فرعون ’تھوٹموس دوم‘ کا شاہی مدفن دریافت کیا تھا۔
اسی حالیہ کھدائی کے دوران، ابیڈوس کے شمال میں واقع گاؤں ’باناویت‘ میں رومن دور کی ایک مٹی کے برتن بنانے والی ورکشاپ بھی دریافت ہوئی۔
وزارت نے بتایا کہ ابتدائی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ورکشاپ بازنطینی دور میں استعمال کی گئی اور بعد میں ساتویں صدی عیسوی میں قبرستان کے طور پر استعمال ہونے لگی، اور ممکن ہے کہ اس کا استعمال چودہویں صدی تک جاری رہا ہو۔
باناویت کے مقام پر ملنے والے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جگہ قدیم مصری خطے کو مٹی کے برتنوں اور شیشے کی اشیا فراہم کرنے والی سب سے بڑی فیکٹریوں میں سے ایک تھی۔
کھدائی کے دوران وہاں کئی بڑی بھٹیاں، برتنوں کو ذخیرہ کرنے کی جگہیں اور 32 ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑے بھی ملے، جو ڈیموٹک اور یونانی رسم الخط میں تحریروں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
ماہرین کے مطابق یہ برتنوں کے ٹکڑے، جنہیں اوسٹراکا کہا جاتا ہے، اُس دور کے تجارتی لین دین اور ٹیکس کی ادائیگی کے طریقہ کار کی تفصیلات پر مشتمل ہیں۔
باناویت میں کئی تدفین کے مقامات بھی دریافت ہوئے، جن میں کچی اینٹوں کے مقبرے شامل ہیں جن میں ڈھانچے اور ممیاں موجود تھیں۔ ماہرین کے مطابق، یہ غالباً خاندانی قبریں تھیں۔
ان میں سے ایک میں ایک سوئے ہوئے بچے کی ممی شامل تھی، جس نے رنگین کپڑے کی ٹوپی پہن رکھی تھی جبکہ ایک اور قبر میں ایک 30 سالہ خاتون کی کھوپڑی ملی۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے اس مقام پر گندم کی جڑیں اور قدیم پودوں کے بیجوں کے آثار بھی دریافت کیے، جن میں ڈوم پام اور جو شامل ہیں۔
© The Independent