تقسیم سے پہلے ہندوستان میں 562 شاہی ریاستیں اور راجواڑے تھے جن پر راجے، مہاراجے اور نواب حکومت کرتے تھے۔ ان ریاستوں کا مجموعی رقبہ اور آبادی پورے ہندوستان کا ایک چوتھائی تھی۔
ان ریاستوں میں 140 مکمل خود مختار تھیں جن میں صرف 20 مسلم ریاستیں تھیں۔ سب سے بڑی ریاست حیدر آباد دکن کی تھی جس کا مجموعی رقبہ برطانیہ کے برابر تھا۔ اس کا بانی اورنگ زیب عالمگیر کا ایک جنرل میر قمر الدین خان تھا جس نے 1707 میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد ریاست کا انتظام سنبھالا اور نظام کا لقب اختیار کیا۔
نظام میر عثمان علی خان نے 1937 میں جب اپنی تاج پوشی کی سلور جوبلی منائی تو اس وقت وہ دنیا کے سب سے امیر ترین فرد کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ یہ اعزاز انہیں ’ٹائم میگزین‘ نے 22 فروری 1937 کے شمارے میں دیا تھا جس کے سرورق پر ان کی تصویر چھاپی گئی تھی۔
نظام کے اثاثوں کے مالیت آج کے پیسوں کے حساب سے 236 ارب ڈالر بنتی ہے۔ سٹینڈرڈ آئل کمپنی امریکہ کے بانی جان ڈی راک فیلر 1930 میں دنیا کے امیر ترین فرد تھے جن کے اثاثوں کی مالیت آج کے حساب سے 29.6 ارب ڈالر تھی۔ فورڈ کمپنی کے بانی ہینری فورڈ 1940 میں دنیا کے امیر ترین فرد تھے، جن کے اثاثوں کی مالیت آج کے حساب سے 200 ارب ڈالر تھی۔
نظام کے اثاثوں کی مالیت کتنی تھی؟
ٹائم میگزین نے اپنے خصوصی شمارے میں لکھا تھا کہ ’1857 کی جنگ ِ آزادی میں شامل نہ ہو کر انہوں نے تاج ِ برطانیہ کے نزدیک ’وفادار اتحادی‘ کا درجہ حاصل کر لیا تھا جس نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ کو 10 کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔ میر عثمان علی نے 1930 سے 1940 کے دوران مختلف ذرائع سے بے شمار دولت کمائی۔
ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے والیوں کے برعکس وہ فضول خرچ بالکل بھی نہیں ہیں۔ ان کے پاس 15 کروڑ ڈالر کے ہیرے جواہرات ہیں۔ 25 کروڑ ڈالر کی سونے کی اینٹیں ہیں۔ ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر ہے۔ یہ کہنا کہ ان کی دولت کی وجہ گولکنڈہ کی ہیرے کی کانیں ہیں درست نہیں کیونکہ گولکنڈہ کی کانوں سے ہیرے اب ختم ہو چکے ہیں۔ جب پورے ہندوستان میں کساد بازاری عروج پر تھی تب بھی نظام کا بجٹ سرپلس میں تھا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔‘
ٹائم میگزین کے مطابق دنیا کا امیر ترین فرد ہونے کے باوجود وہ اتنے کفایت شعار ہیں کہ ایک بار انہوں نے چھ سینٹ کی ایک آئس کریم یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ یہ بہت مہنگی ہے۔ وہ اپنے پرانے کپڑے کاٹ چھانٹ کر اپنے بیٹوں کو پہنا دیتے ہیں۔ وہ اس وقت اپنی رعایا کے کسی فرد سے نہیں ملتے جب تک وہ ان کے لیے کوئی نقد تحفہ ساتھ نہیں لاتا۔ نظام کی سلور جوبلی کے موقعے پر ان کی رعایا نے انہیں 10 لاکھ ڈالر انعام دیا۔‘
انڈین ایکسپریس کے مطابق ’نظام کے اثاثوں کی مالیت آج کے حساب سے 236 ارب ڈالر بنتی ہے۔ ان کے پا س ’یعقوب‘ نامی 185 قیراط کا ایک نایاب ہیرا تھا جو دنیا کا پانچواں مہنگا ترین ہیرا مانا جاتا ہے جس کی مالیت ایک ہزار کروڑ بھارتی روپیہ بتائی جاتی ہے۔ ان کے گیراج میں دنیا کی مہنگی ترین 50 گاڑیاں موجود تھیں جن میں رولز رائس کاریں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک کی باڈی مکمل طور پر چاندی سے بنائی گئی تھی۔
انہوں نے ملکہ الزبتھ کو ان کی شادی کے موقعے پر ایک ہار تحفے میں دیا تھا جس میں 300 ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے حیدر آباد میں عثمانیہ یونیورسٹی، عثمانیہ جنرل ہسپتال، سٹیٹ بنک آف حیدر آباد، بیگم ایئر پورٹ اور حیدر آباد ہائی کورٹ جیسی پر شکوہ عمارات تعمیر کروائیں۔
ریاست میں سیلاب کی روک تھام کے لیے تین بڑے ڈیم بھی بنوائے۔ 1937 کے بجٹ میں بادشاہ جارج پنجم کے میموریل فنڈ کے لیے 65 ہزار ڈالر، حیدر آباد میں مواصلاتی نظام کے لیے 25 ہزار ڈالر، کوئٹہ کے زلزلہ متاثرین کے لیے 12 ہزار ڈالر، رابندر ناتھ ٹیگور کے نام پر قائم اکیڈمی کے لیے نو ہزار ڈالر کی رقم رکھی گئی تھی۔
دنیا کا امیر ترین فرد جو ہندوستان سے باہر کبھی نہیں گیا
ٹائم میگزین نے لکھا کہ ہندوستانی ریاستوں کے والی اور شہزادے عیش پرست واقع ہوئے ہیں جنہیں فرانسیسی خواتین اور انگریزی گھوڑوں کا شوق ہے۔ وہ مونٹی کارلوس جیسی مہنگی جگہوں پر پر تعیش ہوٹلوں میں رہتے ہیں، ہالی وڈ کے دورے کرتے ہیں لیکن نظام ان سے قطعی مختلف ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ دنیا کا امیر ترین شخص کبھی ہندوستان سے باہر نہیں گیا۔ یہ نظام خاندان کی روایت کا حصہ ہے۔
ڈاکٹر سید جمیل الرحمٰن کی کتاب ’تخلیقِ پاکستان اور شاہی ریاستیں‘ میں لکھا ہے کہ دنیا کے امیر ترین شخص ہونے کے باوجود وہ خلفائے راشدین کی طرح سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ عام سادہ لباس پہنتے جو کرتا پاجامہ پر مشتمل ہوتا تھا یا خاص موقعوں پر وہ شیروانی زیب تن کرتے حالانکہ ان کے خادموں کا لباس ان سے قیمتی ہوتا تھا۔
بغیر پھندنے کے ترکی ٹوپی اور سلیم شاہی جوتی جس کی قیمت دس آنے تھی ان کا کل لباس تھا۔ لیکن ان کے چہرے پر شاہانہ جاہ و جلال اتنا تھا کہ لوگ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے تھے۔
انہیں فضول خرچی سے شدید نفرت تھی لیکن ان کی کفایت شعاری صرف ان کی اپنی ذات تک محدود تھی۔ پرانے کپڑے پہننے اور پرانی گاڑی استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کی مملکت کے 14 ضلعوں میں صبح و شام لنگر بٹتا تھا جہاں خلقِ خدا قورمہ اور زردہ کھاتی لیکن ان کے اپنے دستر خوان پر دو کلچوں اور ایک سالن سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ محبِ وطن اس قدر تھے کہ غیر ملکی اشیا کو چھوتے تک نہ تھے اور حیدر آبادی اشیا استعمال کرنے پر زور دیتے تھے۔
حیدر آباد کے چار مینار مارکہ سگریٹ پیتے تھے جس کی ایک ڈبیہ تین پیسے کی آتی تھی۔ گولکنڈہ کی سوپ فیکٹری کا صابن استعمال کرتے۔ وہ روزانہ اپنی ڈاک خود کھولتے جن کے جوابات ان کا سیکرٹری ان کی ہدایات کے مطابق دیتا تھا۔ ریاست حیدر آباد دکن کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب صرف 12.8 فیصد تھا مگر نظام کی ریاست میں تمام شہریوں کو مساوی درجہ حاصل تھا، وہ جہاں مسلمان اداروں، تنظیموں اور افراد کو امداد دینے میں فراخ دل واقع ہوئے تھے، وہاں انہوں نے ہندوؤں کے مندروں اور عیسائیوں کے گرجا گھروں کو بھی لاکھوں روپے کی امداد دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قائد اعظم نے 1916 میں لکھنؤ میں ہونے والے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں نظام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بمبئی کرانیکل میں پڑھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک مسجد کے معاملے پر جھگڑا ہو گیا۔ مسجد ہندوؤں کے علاقے میں تھی۔ نظام نے معاملے کی چھان بین کے لیے دو مسلمانوں اور ایک ہندو پر مشتمل کمیٹی قائم کی جس نے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیا جس پر نظام نے عمل کروایا۔
جب حج کے خطبے میں نظام کا شکریہ ادا کیا گیا
ڈاکٹر سید جمیل الرحمٰن لکھتے ہیں کہ نظام میر عثمان علی ریاست حیدر آباد کو خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم امہ کے لیے ایک مرکز کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے نہ صرف ترکی کے معزول خلیفہ کے لیے خصوصی وظائف جاری کیے بلکہ سعودی عرب کے مقاماتِ مقدسہ کے لیے مالی وسائل بھی فراہم کیے۔
اس کے اعتراف میں 1928 میں حج بیت اللہ کے موقعے پر جلالۃ الملک عبد العزیز بن سعود کے حکم پر نظام دکن کی تعریف حج کے خصوصی خطبہ میں کی گئی اور ان کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی رشتہ داری ترکی کے معزول خلیفہ عبد الماجد ثانی سے ہو جائے جو مسلمانوں کے لیے پوپ کا درجہ رکھتے تھے۔
عبد الماجد ثانی کی اپنی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی ان کی بیٹی دُرِشہوار اور ان کی بھانجی نیلو فر سے نظام کے دونوں بیٹوں کی شادیاں ہوئیں۔ خواجہ حسن نظامی کے بقول ان کے پائے کا علمی و فکری فرمانروا پورے ہندوستان میں نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی آمدنی سے ہندوستان میں علم وادب کی آبیاری کی دیو بند سہارنپور، حمایت اسلام لاہور، انجم اسلام ناگپور، مدرستہ الاسلام بمبئی، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، اسلامیہ کالج پشاور، علی گڑھ یونیورسٹی، دارالمصنفین اعظم گڑھ، ندوۃ العلما، عریبک کالج دہلی غرض ایسا کوئی ادارہ نہیں تھا جس کی دل کھول کر مدد نہ کی ہو۔
ان کی مالی اعانت کا دائرہ بغداد شریف، نجف اشرف ، کربلائے معلیٰ اور دیگر مقاماتِ مقدسہ تک پھیلا ہوا تھا۔ مقامات مقدسہ کی نگہداشت کے لیے سعودی حکومت کو مستقل امداد بھیجی جاتی تھی۔
نظام دکن 24 فروری 1967 کو 80 سال کی عمر میں فوت ہوئے تو ان کی سلطنت سکڑ کر صرف پانچ بوسیدہ محلوں تک محدود رہ گئی تھی۔ جب ان کا جنازہ اٹھا توپورے حیدر آباد میں کہرام مچ گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان کے جنازے میں پانچ لاکھ لوگ شریک ہوئے تھے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔