جذبات کا اثر نہ صرف افراد پر ہوتا ہے بلکہ یہ پوری سوسائٹی کے لیے تبدیلی کا باعث ہوتے ہیں، لیکن تاریخ کی کتابوں میں عام طور پر بڑے بڑے واقعات اور جنگوں کا احوال تو تفصیل سے درج ہوتا ہے، انسانی جذبات کی نمائندگی پر توجہ نہیں دی جاتی۔
لیکن اب صورتِ حال بدل رہی ہے اور جدید مورخ تاریخ کے اہم واقعات کے پیچھے کارفرما خوف، حسد، غم اور غصے جیسے انسانی جذبات کی عکاسی بھی کر رہے ہیں۔
انسان فطرتاً جذباتی ہوتا ہے، لیکن اس کے جذبات کا اظہار اس کا سماجی رتبہ کرتا ہے۔ جو اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے اور جو نچلے طبقے سے نسبت رکھتے ہیں ان کے جذباتی بیانیے میں فرق ہوتا ہے۔ یعنی امیر اور غریب دونوں ایک ہی جذبے سے متاثر کیوں نہ ہوں ان کے رویوں میں ہمیں صاف فرق نظر آتا ہے۔
لیکن کچھ جذبات ایسے ہیں جو دونوں میں مشترک ہوتے ہیں، مثلاً ڈر یا خوف کا جذبہ۔ اس کی کئی قِسمیں ہوتی ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں سبھی کو موت کا خوف ہوتا ہے۔ روزِ حشر اور جہنم کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ پیگن مذہب کے ماننے والوں میں یہ ڈر نہیں ہوتا، مثلاً مصریوں میں یہ عقیدہ تھا کہ دوسری زندگی میں بھی ایسی ہی دنیا ہو گی جیسی کہ موجودہ ہے۔
ڈر اور خوف ایسی سوسائٹی میں بھی ہوتا ہے جو اعلیٰ اور ادنیٰ میں تقسیم ہو۔ کمزور طاقتور سے ڈرتا ہے، اور اگر سیاسی نظام امرانہ ہو تو عوام اس کے ظلم و ستم سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ میکاولی نے اپنی کتاب ’دا پرنس‘ میں لکھا ہے کہ حکمران کو سخت ظالم ہونا چاہیے، خلاف ورزی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہیے، تاکہ لوگ ڈر اور خوف سے اس کے وفادار رہیں۔
میکیاولی کا ہیرو سیزارے بورژوا تھا۔ اس کی پالیسی یہ تھی کہ خود ظلم کرنے کی بجائے اپنے کسی وزیر سے لوگوں کو قتل بھی کراتا تھا، اور اذیت بھی دلواتا تھا۔ جب وہ بدنام ہو جاتا تھا تو اسے قتل کروا کر اس کی لاش کو بازار کے ایک چوک میں رکھوا دیتا تھا تا کہ لوگ اس کے انصاف سے ڈر جائیں۔
حکمران بھی ڈر اور خوف کی حالت میں رہتے تھے کہ کہیں ان کے خلاف سازش نہ ہو جائے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے محافظوں سے بھی ڈرتے تھے۔
ایران کا ایک بادشاہ سازش کے ڈر سے اپنی خواب گاہ مسلسل بدلتا رہتا تھا، یہاں تک کہ کسی رات کو وہ اپنے خادم کے کمرے میں جا کر خاموشی سے سو جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سازش کا یہ خوف تقریباً ہر حکمران کو رہا ہے۔ عباسی خاندان کو اقتدار میں لانے والا ابومسلم خراسانی تھا، لیکن جب عباسی خلیفہ ابوعباس السفاح اقتدار میں آ گیا تو اس نے دھوکے سے ابومسلم کو بلا کر قتل کروا دیا۔ اس کی وجہ حسد اور خوف تھا۔ سفاح کو ڈر تھا کہ ابومسلم کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اس کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
ہارون الرشید نے بھی جعفر برمکی کو قتل کروایا اور اس کے باپ یحییٰ کو قید کر کے پورے خاندان کو برباد کر دیا۔ اس کی وجہ بھی حسد بتائی جاتی ہے۔ برمکی خاندان دولت اور شان و شوکت اور علم پروری میں بادشاہ سے بھی آگے بڑھ گیا تھا جو بادشاہ کو منظور نہیں تھا۔
جب کسی سوسائٹی میں مذہبی، سیاسی اور سماجی طور پر ڈر اور خوف پھیل جائے تو لوگوں میں بےحسی اور مایوسی چھا جاتی ہے۔ ان کی صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں اور انھیں ہر وقت خطرات کا سامنا رہتا ہے، جس کی وجہ سے خوشی اور مسرت کے لمحات ختم ہو جاتے ہیں۔
دوسرا اہم جذبہ افراد میں غصے کا ہوتا ہے۔ جب غصہ آتا ہے تو انسان اپنے ہوش و حواس کھو دیتا ہے۔ غصے کی حالت میں جو بھی فیصلے کیے جاتے ہیں وہ تباہ کن ہوتے ہیں۔
مثلاً جب سکندر نے ایران فتح کیا تو اس نے بہت سی ایرانی دربار کی رسومات کو اختیار کر لیا۔ اس پر اس کے ایک بچپن کے ساتھی نے اعتراض کیا کہ وہ ان رسومات پر عمل نہیں کرے گا۔ یہ بات اس نے شراب کی ایک محفل میں کہی۔ اسکندر کو اس پر سخت غصہ آیا۔ اس نے ایک محافظ کی تلوار لے کر اپنے دوست کے پیٹ میں گھونپ دی جس سے وہ فوری طور پر ہلاک ہو گیا۔
جب سکندر کو ذرا ہوش آیا اور اسے احساس ہوا کہ اس نے کیا کر دیا ہے۔ تو وہ اپنے دوست کی موت پر خوب رویا۔
تاریخ میں ایسے واقعات سے اٹی ہوئی ہے، جو غصے کے عالم میں لوگوں سے جلد بازی میں ہوئے، اور بعد میں وہ اس پر پشیمان بھی ہوئے۔ لیکن ایسے واقعات بھی ہیں کہ جب حکمرانوں نے غصے پر قابو پایا اور فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
مثلاً مغل بادشاہ اکبر کی ایک مثال ہے۔ ابوالفضل جب دکن سے واپس آ رہا تھا تو اسد بیگ نامی شخص اس کے ہمراہ تھا۔ ابوالفضل نے اس کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا اور خود آگے روانہ ہوا۔ ابوالفضل کو بندیلا کے راجہ نے قتل کیا تو اکبر کو اسد بیگ پر سخت غصہ آیا کہ وہ کیوں پیچھے رہ گیا۔ اس نے غصے میں کہا کہ وہ اسد بیگ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گا۔ لیکن جب اسے احساس ہوا کہ اسد بیگ ابوالفضل کی مرضی سے پیچھے رہا تھا تو اسے اس نے معاف کر دیا۔
ہمیں حکمرانوں اور امرا کی زندگیوں میں یہ تاریخی جذباتی واقعات اس لیے مِلتے ہیں کہ یہ تاریخ میں محفوظ ہیں جب کہ عام لوگوں کے غم و غصے کا اظہار ہمیں اس وقت ملتا ہے جب وہ کوئی مظاہرہ کرتے ہیں یا جلوس نکال کر نعرے لگاتے ہیں۔ یہ ان کے غم وغصے کی علامت ہے، جس کا اظہار موجودہ زمانے میں میڈیا میں بھی ہو جاتا ہے۔
جذبات کی ایک اور قِسم اچانک کسی حادثے یا واقعے کی صورت میں افراد پر ہوتی ہے۔ یہاں ہم پھر حکمرانوں سے متعلق واقعات کو بیان کریں گے۔
جب سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد سلطان (خان شہید) کو منگولوں نے قتل کیا اور اس کی اطلاع بلبن کو پہنچی تو اس نے اس صدمے کو دربار میں خاموشی سے برداشت کیا اور اپنے غم کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔ لیکن جب وہ اپنے محل میں اکیلا ہوا تو بیٹے کے غم میں خوب رویا۔
یہ بھی اشرافیہ اور عام لوگوں میں ایک فرق ہے کہ اشرافیہ پبلک کے سامنے اپنی کمزوری کا اظہار نہیں کرتی، جب کہ عام لوگ صدمے کی حالت میں سب کے سامنے روتے بھی ہیں اور اپنے دل کا حال بھی بیان کرتے ہیں۔
دوسرا بڑا واقعہ اکبر بادشاہ کا ہے۔ ابوالفضل کے قتل کی خبر مغل روایت کے مطابق اس کے وکیل نے اپنے دونوں ہاتھ سفید رومال میں لپیٹ کر اکبر کے سامنے کھڑے ہو کر سنائی۔ اکبر ابوالفضل کے قتل کی خبر سن کر سخت افسردہ ہوا اور دردناک انداز میں کہا، ’شیخو تم نے یہ کیا کیا!‘ کہا جاتا ہے کہ اس نے تین دن تک کھانا بھی نہیں کھایا۔
ایک اور اہم جذبہ عزت کا ہوتا ہے جس کی خاطر لوگ اپنی جان بھی دے دیتے ہیں۔ جب ٹرائے کی جنگ میں ہیکٹر کی بیوی نے اس سے کہا کہ تمہیں ایکلیز سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہم یہاں قلعے میں محفوظ ہیں اور اگر تم اس سے مقابلے میں مارے گئے تو یونانی قلعے پر قبضہ کر کے مجھے کینز بنا لیں گے، اور تمہارے بیٹے کو قتل کر دیں گے۔ اس پر ہیکٹر نے کہا کہ یہ عزت کا سوال ہے۔ وہ ایکلیز سے لڑا اور مارا گیا۔
یورپ میں ایک عرصے تک ڈوئل کا رواج تھا جو عزت کے نام پر لڑی جاتی تھی۔ روس کا مشہور شاعر الیگزینڈر پوشکِن ایک ایسے ہی ڈوئل میں مارا گیا تھا۔
جذبات کی ایک اور قِسم شرم و حیا تھی۔
قدیم اٹلی کے بادشاہ نے بروٹس کی غیرموجودگی میں اس کی بیوی سے ریپ کیا۔ جب اس کا شوہر واپس آیا تو اس کی بیوی نے سارا واقعہ سنایا اور پھر خنجر مار کر خودکشی کر لی۔ بروٹس نے اپنی بیوی کی لاش کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور عہد کیا کہ روم پر اب کوئی بادشاہ حکومت نہیں کرے گا۔
رومیوں نے مِل کر بادشاہ کو شِکست دی اور روم کو رپبلک بنانے کا اعلان کر دیا۔ بروٹس جو سیزر کو قتل کرنے والوں میں سے تھا۔ اس کا تعلق اسی خاندان سے تھا۔
جذبات کی فہرست تو بہت لمبی ہے جس میں جلن، حسد، رقابت، محبت، دشمنی، نفرت اور تعصب وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب انسانی فطرت کا حصہ ہیں، اور زندگی کے ہر عمل میں کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہو کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔