سات اگست 1948 کو میکلوڈ روڈ پر واقع پربھات سینیما میں پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی جو پنچولی فلمز کے بینر تلے بنی تھی۔
’تیری یاد‘ سے لے کر اب تک تقریباً 26 ہزار فلمیں پاکستان میں بنائی چکی ہیں۔ جہاں تک معیار کا تعلق ہے تو صورت حال اتنی ہی اطمینان بخش ہے جتنی بحیثیت مجموعی ہماری پوری سوسائٹی کی۔
اس سے پہلے کہ فلموں کے معیار اور ٹاپ 10 کا ذکر کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں سینیما کلچر کے عروج و زوال پر مختصر نظر ڈال لی جائے۔
اگرچہ قیام پاکستان سے پہلے لاہور کی فلم انڈسٹری اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ چکی تھی لیکن بٹوارے کی اتھل پتھل نے اسے بری طرح ہلا ڈالا۔ لڑکھڑاتی فلم انڈسٹری میں 1956 کے دوران 11 سپر ہٹ اور چار ہٹ فلموں نے دوبارہ جان ڈالی اور اگلی کئی دہائیوں تک یہ کامیابی سے آگے بڑھتی رہی۔
1960 کی دہائی کو بالعموم سنہرے دور یا پاکستانی فلم انڈسٹری کے عروج کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ہماری ملکی تاریخ میں یہ واحد عشرہ ہے جب فلموں کی مجموعی تعداد ایک ہزار کا ہندسہ عبور کر سکی۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں سینیما گھر قائم تھے اور عوام کے لیے یہ من پسند تفریح کا ذریعہ تھا۔
60 کی دہائی میں وحید مراد، ندیم، محمد علی، زیبا شبنم، منور ظریف اور فردوس کی صورت میں نئے چہرے جبکہ مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا جیسی نئی آوازیں سینیما کا حصہ بنیں جن کے بغیر آج فلم انڈسٹری کا تصور ممکن نہیں۔
پاکستان میں فلم کلچر کے زوال کی پہلی اینٹ 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یہ وہ وقت تھا جب انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس سے پہلے پاکستانی فلم سازوں کو ہر وقت انڈین فلموں کے مقابلے کا چیلنج درپیش تھا۔ حریف میدان سے باہر ہو گیا اس لیے عوام کے سامنے موازنہ کرنے اور پاکستانی فلموں کو مسترد کرنے کا آپشن ہی نہ رہا۔
دوسری طرف وہی فلم ساز جو پہلے بالی وڈ کا مقابلہ کرنے لیے نئے موضوعات اور جاندار کہانیاں لینے کی جدوجہد میں رہتے تھے، اب وہ مسابقتی سمندر سے نکل کر محدود تالاب کے اندر قید ہو گئے۔
مقابلے کے دباؤ سے آزاد ہو کر فلم ساز کم و بیش ایک ہی پالیسی پر گامزن نظر آئے کہ زیادہ سے زیادہ مال بناؤ۔ 1961 سے 1965 تک سالانہ تقریباً 40 فلمیں ریلیز ہوتی رہیں، اگلے پانچ برس میں یہ تعداد تقریباً دگنی ہو گئی مگر معیار بری طرح متاثر ہوا۔ 60 اور 70 کی دہائی اپنی تمام تر رونق کے باوجود معیار کے اعتبار سے قابل فخر ورثہ نہیں چھوڑ سکی۔
انڈیا کے بزنس سرکٹ کے مقابلے میں پاکستان کی مارکیٹ پہلے ہی محدود تھی کہ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے یہ دائرہ مزید سکڑ گیا، لیکن مالی نقصان کے اعتبار سے فلم انڈسٹری کے لیے یہ ویسا جھٹکا نہ تھا جیسا ضیاء الحق کے دور میں سینیما گھروں پر عائد بھاری ٹیکس اور وی سی آر کی اجازت کا فیصلہ ثابت ہوا۔
1965 کی جنگ کے بعد انڈین فلموں پر پابندی لگ گئی تھی، مگر وی سی آر نے وہ پابندی اٹھا دی۔ اب نئی پرانی ہر طرح کی فلمیں وی سی آر کی وساطت سے گھر گھر فراہم ہونے لگیں۔ لوگ جو انڈین فلمیں بھول چکے تھے، ایک بار پھر مقامی فلموں کا تقابل بالی وڈ سے کرنے لگے اور وہ جب جب ایسا کرتے تھے تو اپنا پلڑا ہلکا ہی دکھائی دیتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور وجہ ضیا کے دور کی سینسر شپ بھی ثابت ہوئی اور رفتہ رفتہ ایک طرف فلم بین پاکستانی فلموں سے دور ہوتا چلا گیا تو دوسری جانب ریاستی پالیسیوں سے نالاں سینیما مالکان بھی سینیما گھروں کی بجائے کی جگہ پلازے کھڑے کرنے کو ترجیح دینے لگے۔ بھٹو دور کے بعد اکیسویں صدی کی ابتدا تک ملک بھر میں آٹھ سو سے زائد سینیما گھر بند ہو چکے تھے۔ لاہور کے نشاط، فردوس، رتن، پیراماؤنٹ، ریگل، شمع اور نگار جیسے تاریخی سینیما ہاؤس ماضی کی گرد میں گم ہو گئے۔
گذشتہ دو دہائیوں سے نجی ٹی وی چینلوں کی آمد سے کراچی فلم صنعت کا مرکز بن کر ابھرا جسے نئی لہر یا پاکستان میں سینیما کے احیائے نو سے تعبیر کیا گیا، لیکن باکس آفس پر چند فلموں کی کامیابی کسی بڑی لہر کا روپ نہیں دھار سکی۔ بظاہر پاکستان میں فلم انڈسٹری کا کوئی حال نہیں اور نہ ہی مستقبل ہے۔ البتہ اس کا ماضی ضرور ہے جس پر نظر دوڑانے سے ’عمدہ موسیقی‘ اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
ناقص سکرپٹ، سستی جذباتیت، گھسے پٹے موضوعات، ٹنوں کے حساب سے اوور ایکٹنگ، واہیات مکالمے اور مضحکہ خیز پروڈکشن کو ایک جگہ اکٹھا کر کے سینیما میں پیش کر دیا جائے تو اسے پاکستانی فلم کہتے ہیں۔ البتہ ماضی کی فلموں کی موسیقی اتنی شاندار ہے کہ موجودہ فلموں کے مقابلے میں یہ فرق زمین آسمان جیسا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے موجودہ فلم سازوں نے اس فرق کو کمال مہارت سے ختم کیا، اب موسیقی بھی ویسی ہی بےڈھنگی ہوتی ہے جیسی فلم۔ بہرحال جیسی بھی فلمیں بنیں ان میں ممکنہ طور پر دس بہترین فلموں کا انتخاب پیش خدمت ہے:
10۔ لاکھوں میں ایک (1967)
ہدایت کار: رضا میر
موسیقار: نثار بزمی
ستارے: شمیم آرا، اعجاز، مصطفی قریشی
بمبئی فلم انڈسٹری میں فلم ’ہم لوگ‘ (1951) اور ’فٹ پاتھ‘ (1953) سے ہدایت کار اور ’بیجوباورا‘ سے مکالمہ نویس کے طور پر شہرت پانے والے ضیاء سرحدی کی بطور مصنف یہ آخری فلم تھی جس پر انہوں نے بہت محنت کی۔
بٹوارے کے پس منظر میں ایک ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے کی پریم کہانی ہدایت کار رضا میر نے بہت عمدگی سے پیش کی۔ بہت عرصہ بعد راج کپور نے اسی فلم سے متاثر ہو کر ’حنا‘ بنائی تھی۔
نثار بزمی کے میوزک میں ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ اور ’بڑی مشکل سے ہوا‘ آج بھی امر گیت شمار ہوتے ہیں۔ شمیم آرا کا دبلا پتلا حسن ایک طلسماتی کشش رکھتا ہے۔
9. زندہ لاش (1967)
ہدایت کار: خواجہ سرفراز
موسیقار: تصدق حسین
ستارے: اسد بخاری، حبیب، دیبا
آپ اسے پہلی نظر میں ڈریکولا کی کاپی کہہ سکتے ہیں مگر پاکستانی سینیما کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ غیر معمولی فلم ہے۔
پاکستان میں کتنی ہارر فلمیں بنی ہوں گی؟ یقیناً ان کی تعداد اتنی بھی نہیں کہ انگلیوں پر گنی جا سکیں مگر خواجہ سرفراز کی زندہ لاش نہ صرف تاریخی اعتبار سے بالکل اپنی ٹریٹمنٹ کی وجہ سے بھی خاصے کی چیز ہے۔
موت پر قابو پانے کی خواہش میں ایک پروفیسر خود موت کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ مگر یہ کاش زندہ ہوتی ہے اور پلٹ کر وار کرتی ہے۔
اس فلم کو پانچ عشرے گزر چکے مگر آج بھی دیکھتے ہوئے آپ پر خوف طاری ہو جاتا ہے۔ خواجہ سرفراز کو داد تو بنتی ہے نا!
8۔ نیلا پربت (1969)
ہدایت کار: احمد بشیر
موسیقار: پیا قادر اینڈ اختر حسین
ستارے: محمد علی، آغا طالش، حسنہ
اس فلم کو ریلیز کے لیے سنسر بورڈ نے ’اڈلٹس اونلی‘ سرٹیفکیٹ دیا۔ فلم کی کہانی فرائڈ کی نفسیات کی گرہ کشائی کرتی ہے۔ ایک بوڑھی عمر کا مرد لے پالک بیٹی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
اب آپ خود ہی سوچیے ایسی فلم کا باکس آفس پر کیا حال ہوا ہو گا۔ احمد بشیر کی یہ پہلی اور آخری فلم تھی مگر ایسا تجربہ ان جیسا باغی ہی کر سکتا تھا۔
اگرچہ یہ فلم عام سامعین کے لیے آج بھی بہت گرم ہو گی لیکن اپنی تیکنیک اور موضوع کے اعتبار سے ایسا منفرد تجربہ ہر اچھی فہرست میں شامل ہونا چاہیے۔
7. کرتار سنگھ (1959)
ہدایت کار: سیف الدین سیف
موسیقار: سیلم اقبال
ستارے: علاء الدین، مسرت نذیر، سدھیر، ظریف
بٹوارے کے موضوع پر بنائی گئی پاکستانی فلموں میں یہ غالباً عمدہ ترین فلم ہے۔ سیف الدین سیف کی پنجاب سے جڑت اور ہجرت کا براہ راست تجربہ احساس کی تیز آنچ سے پردے پر جلوہ گر ہوتا ہے۔
وارث لدھیانوی کے گیت اور سلیم اقبال کی موسیقی پنجاب کے فوک کلچر کو انتہائی خوبصورتی سے جذب کرتے ہیں جس کی بہترین مثال ’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ ہے۔ فلم میں عنایت حسین بھٹی اور زبیدہ خانم کی آواز میں امرتا پریتم کی مشہور نظم ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ بھی شامل ہے۔
6۔ نامعلوم افراد (2014)
ہدایت کار: نبیل قریشی
موسیقار: ثانیہ ارشد
ستارے: جاوید شیخ، فہد مصطفی، عروہ حسین
پچھلی دو دہائیوں کے دوران سامنے آنے والی فلموں میں شاید یہ سب سے بھرپور انٹرٹینمنٹ ہے جسے نو کروڑ کے بجٹ سے تیار کیا گیا۔ 140 کروڑ کی کمائی کے ساتھ یہ باکس آفس پر خاصی کامیاب رہی۔
فلم کی کہانی زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے اور مالدار ہونے کا سپنا پورا کرنے کے خواہش مند تین افراد کے گرد گھومتی ہے۔ اس دوران تینوں کے راستے میں آنے والی رکاوٹیں فلم میں دلچسپی کا عنصر برقرار رکھتی ہیں۔
فلم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ زندگی کی تلخیاں پیش کرتے ہوئے یہ اتنی سیاہ نہیں ہوتی کہ مایوسی طاری ہونے لگی۔ ہلکی پھلکی مضحکہ خیز صورتحال دل کی نبضیں ڈوبنے نہیں دیتی۔
5. حیدر علی (1978)
ہدایت کار: مسعود پرویز
موسیقار: خواجہ خورشید انور
ستارے : محمد علی، ممتاز، صبیحہ خانم، نیر سلطانہ
اگرچہ تاریخی فلموں کے اعتبار سے ہدایت کار خلیل قیصر اور ان کی فلموں ’فرنگی‘ اور ’شہید‘ کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے لیکن فنی اعتبار سے مسعود پرویز کی ’حیدر علی‘ کہیں بہتر فلم ہے۔
’حیدر علی‘ باکس آفس پر بری طرح لڑکھڑا گئی تھی کیونکہ ناظرین تاریخی فلموں میں مبالغہ آرائی کے بری طرح عادی ہو چکے تھے۔
خواجہ خورشید انور کی موسیقی ان کے مخصوص سٹائل سے ذرا ہٹ کر تھی۔ موضوع سے وفاداری برتتے ہوئے انہوں نے طبلے کے بجائے پکھاوج کا استعمال کیا اور شاندار دھنیں ترتیب دیں مگر فلم کی طرح میوزک بھی عام لوگوں کے دل نہ جیت سکا۔
4. نیند (1959)
ہدایت کار: حسن طارق
موسیقار: رشید عطرے
ستارے: نور جہاں، اسلم پرویز، طالش، علاء الدین
’شمع اور پروانہ،’ ’دیور بھابھی،‘ ’امراؤ جان ادا،‘ ’بہشت‘ اور ’بہارو پھول برساؤ‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار حسن طارق کی یہ پہلی اور بہترین فلم تھی۔
فلیش بیک کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے فلم میں ایک کوئلہ چننے والی لڑکی کی کہانی دکھائی گئی ہے۔ ایک سیٹھ کی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد وہ لڑکی حاملہ ہو کر بچہ جنتی ہے۔ سیٹھ بچے کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور بچے کی ماں اسے گولی سے اڑا دیتی ہے۔
ریاض شاہد کی کہانی اور مکالمے کسی بھی طرح روایتی یا عامیانہ نہ تھے۔ حیرت ہے اتنی بولڈ اور مختلف فلم سے آغاز کرنے والے حسن طارق بعد میں روایتی اور بے سلیقہ فلموں کی سمت کیوں چلے گئے۔
3. بندش (1980)
ہدایت کار: نذرالاسلام
موسیقار: روبن گھوش
ستارے: شبنم، ندیم، طالش، علاء الدین، طلعت حسین
70 کی دہائی کی مشہور جوڑی شبنم اور ندیم کی سب سے زیادہ مشہور فلم تو ’آئینہ‘ ہے لیکن سینیما سکوپ فوٹوگرافی، آرٹ ڈائریکشن، خوبصورت لوکیشنز اور نسبتاً عمدہ ہدایت کاری کے سبب ہمیں ’بندش‘ زیادہ پسند آئی۔
فلم کا مرکزی خیال ہالی وڈ فلم ’رینڈم ہارویسٹ‘ (1942) سے لیا گیا تھا۔ ایک مالدار نوجوان جو بیرون ملک حادثے کے باعث اپنی یادداشت کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی بیوی اس کی کھوج لگاتے ہوئے اس حد تک پہنچتی ہے مگر آگے ایک اور نوجوان دوشیزہ اپنی محبت کا چراغ جلائے بیٹھی ہے۔ یہاں سے فلم میں ڈرامائی موڑ آتا ہے۔
اس فلم کے دو گیت بہت مشہور ہوئے۔ مہدی حسن اور مہناز کی آواز میں ’دو پیاسے دل ایک ہوئے ہیں ایسے،‘ اور اخلاق احمد کی آواز میں ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من۔‘ مگر آپ نے اگر مہناز کی آواز میں ’تجھے دل سے لگا لوں پلکن میں چھپا لوں‘ نہیں سنا تو آپ انتہائی مدھر گیت سے محروم رہیں گے۔ روبن گھوش کا میوزک مدھرتا کا دریا ہے۔
2. جاگو ہوا سویرا (1958)
ہدایت کار: اے جے کاردار
ستارے: ترپتی مترا، خان عطا الرحمٰن، زرین رکشی
پاکستان میں آرٹ فلموں کی بنیاد رکھنے والی ’جاگو ہوا سویرا‘ کی کہانی، مکالمے اور گیت فیض احمد فیض نے لکھے تھے جبکہ عکس بندی کے لیے مشہور سینیماٹوگرافر والٹر لیزلی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
بنگال کے مچھیروں کی حالت زار اور زندگی کی مشکلات کو پردے پر منتقل کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش ہے لیکن فلم کا مجموعی ردھم بہت آہستہ ہے، جس کے سبب توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
1. ہیر رانجھا (1970)
ہدایت کار: مسعود پرویز
موسیقار: خواجہ خورشید انور
ستارے: فردوس، اعجاز، اجمل، منور ظریف
پاکستان فلم انڈسٹری نے کوئی شاہکار تخلیق کیا تو وہ ہے ’ہیر رانجھا۔‘ ہیر اور رانجھے کی محبت پر اس سے پہلے اور بعد میں، بشمول بالی وڈ، کم و بیش 20 فلمیں بنیں مگر کوئی دوسری فلم اس کی گرد کو بھی نہ چھو سکی۔
پنجاب کا کلچر، فردوس کے روپ میں ہیر کی ٹھاٹھیں مارتی جوانی اور مسعود پرویز کی لاجواب ہدایت کاری نامکمل رہ جاتی اگر اسے خواجہ خورشید انور کی موسیقی، نور جہاں کی آواز اور احمد راہی کے گیتوں کا ساتھ نہ حاصل ہوتا۔
فلم میں 13 گیت ہیں اور سب ایک دوسرے سے بڑھ کر۔ بالخصوص ’سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے‘ فوک گیت کا درجہ حاصل کر گیا۔
آج بھی اگر ہیر کا تصور کیا جائے تو ذہن کے پردے پر فردوس ہی کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے متعدد دوسری فلموں میں کام کیا مگر وہ ہیر کے لیے پیدا ہوئی تھیں اور لگتا ہے کہ ہیر کا کردار بھی انہی کے لیے تخلیق ہوا تھا۔