پاکستانی ہدایت کار مسعود پرویز نے جب 1977 میں نئی فلم ’انسان‘ بنانے کا فیصلہ کیا تو وہ روایتی کہانیوں سے ہٹ کر موسیقی میں بھی تجربات کرنے کے خواہش مند تھے۔
مسعود پرویز کو پاکستانی فلم نگری کے کہنہ مشق اور غیر معمولی ہدایت کار تصور کیا جاتا تھا۔ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ دیگر ہدایت کاروں کے مقابلے میں فلم کے ایک ایک پہلو پر مہینوں غور کرتے، کوشش ہوتی کہ تمام تر فنی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ خوبرو اور پرکشش ہونے کی وجہ سے ابتدا میں ان کے دل میں ہیرو بننے کے ارمان تھے، لیکن بہت جلد انہیں اندازہ ہوگیا ان کی جگہ کیمرے کے آگے نہیں پیچھے ہی بہتر رہے گی۔
مختلف ہدایت کاروں کے معاون رہ کر ہدایت کاری کی اونچ نیچ میں مہارت حاصل کی۔ شہرت اور کامرانی کا در تو اس وقت کھلا جب 1956میں میوزیکل فلم ’انتظار‘ بنائی۔ نور جہاں اور سنتوش کمار کی یہ تخلیق سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ جس نے مسعود پرویزکے لیے بہترین ہدایت کار ہونے کی منزل اور آسان کردی۔
ہدایت کار مسعود پرویز پھر رکے نہیں، بلکہ ایک کے بعد کامیابی کی سیڑھیوں کو عبور کرتے رہے۔ کوئل، مرز ا جٹ اور ہیر رانجھا ان فلموں میں شمار ہوتی ہیں، جنہوں نے سنیما گھروں میں کھڑکی توڑ کاروبار کیا۔ اسی طرح زہرعشق، جھومر، سرحد اور نجمہ بھی فلم بینوں کو سنیما گھروں میں بار بار لے آئیں۔
مسعود پرویز کی ان فلموں کا اگر آپ جائزہ لیں تو جہاں ان کی منظر کشی میں ان کی تمام تر صلاحیتیں مثالی ملیں گی وہیں ان فلموں کے گیت بھی، جو اپنے دور کے مقبول ترین رہے اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ آج بھی انہیں سنیں تومسحورکن احساس سے انگ انگ سرشار ہو جاتا ہے۔
جیسے ’انتظار‘ کے ’چھن چھن ناچوں گی، یا پھر ’او جانے والے رے، اسی طرح فلم ’کوئل‘ کا دل کا دیا جلایا، یا پھر ’مہکی فضائیں‘ یا ’رم جھم پڑے پھوار، یا پھر ’نجمہ‘ کا ’چلے ٹھنڈی ہوا چھم چھم‘ یا پھر ’زہر عشق‘ کا ’پل پل جھوموں، جھوم کے گاؤں‘ ہو۔ پھر کون فراموش کرسکتا ہے ’ہیر رانجھا‘ کے نغمات کو، جن کو سننے کے بعد پیار و عشق کی ایک حسین وادی میں کھو جانے کا من خود بخود چاہتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہدایت کار مسعود پرویز کے ساتھ کام کرنے والے نغمہ نگار اور موسیقاراس بات سے بخوبی واقف رہے ہیں کہ وہ موسیقی کی خاصی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ جبھی تو ان کی فلم کے گانے دل و دماغ کو ترو تازگی دے جاتے۔
مسعود پرویز کی فلم ’انسان‘ کی کہانی انگریز وں کے خلاف جدوجہد کے گرد گھومتی تھی۔ پس منظر سرحد ی علاقہ یعنی موجودہ خیبرپختونخوا رکھا گیا۔ موضوع مزاحمتی تحریک کے ساتھ ساتھ دو قبائل کی غلط فہمی پر مبنی دشمنی بھی تھا، جن کے درمیان آگ اور خون کے آتش فشاں پھٹنے کے دوران پریمی جوڑے میں پیار کے دیپ بھی جلتے ہیں۔
فلم میں جہاں شاہد اور بدرمنیر تھے، وہیں ہیروئن کے طور پر بابرہ شریف جلوہ گر ہوئیں جن کی جوڑی اس زمانے میں شاہد کے ساتھ ہٹ جا رہی تھی۔ دیگر ستاروں میں کمال ایرانی جبکہ الیاس کاشمیری اور افضال احمد بطور مہمان اداکار نظر آئے۔
مسعود پرویز کی لکھی ہوئی کہانی پر مکالمات نزہت رانا نے لکھے۔ ہدایت کار کے دل میں بس یہ ارمان مچل رہے تھے کہ وہ اپنی فلم کو کچھ ایسا بنائیں کہ سب ان کی گذشتہ فلموں کو بھول کر بس اسے ہی یاد رکھیں، یہ وہ دور تھا جب پاکستانی ہدایت کار نت نئے تجربات کرنے سے گھبراتے نہیں تھے۔ جبھی اس دور میں کئی لاجواب تخلیقات پردہ سیمیں پر سجتی رہتیں۔
مسعود پرویز کو اپنی ہدایت کاری پر تو یقین تھا اسی لیے انہوں نے ارادہ کیا کہ اس بار موسیقی میں کچھ نئے گل کھلاتے ہیں۔ جبھی انہوں نے فلم میں شامل گانوں کو مختلف موسیقاروں سے تیار کرانے کی ٹھان لی۔ فلم ساز محمد اسلم چوہدری کو آئیڈیا بتایا گیا تو انہوں نے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اب مسعود پرویز نے فلم نگری کے اس وقت کے چوٹی کے سات موسیقاروں سے رابطے کیے اور ان پر واضح کردیا کہ وہ ان سے صرف ایک ہی گیت ہی ریکارڈ کرائیں گے، لہٰذا ان گیتوں میں اپنی زندگی کا نچوڑ ڈال دیں۔ مسعود پرویز نے ’انسان‘ کے موسیقاروں کے لیے خواجہ خورشید انور، ماسٹر عنایت حسین، اے حمید، کمال احمد، ناشاد، نذر علی اور صفدر حسین کا انتخاب کیا۔ شاعری کے لیے قتیل شفائی، تسلیم فاضلی، مسرور انور، سعید گیلانی اور فیاض ہاشمی کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ بھی اپنا کمال دکھائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سات موسیقاروں کی دھنوں پر کوئی الگ الگ گلوکار نہیں تھے بلکہ یہ سارے گانے صر ف اور صرف ایک گلوکارہ مہناز نے گائے۔ ہر موسیقار نے اپنے مخصوص سٹائل کے ساتھ ان گانوں کو تیار کیا، یعنی ہر گیت ایک دوسرے سے مختلف تھا اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ گلوکارہ مہناز نے ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا۔
ہدایت کار مسعود پرویز کی ’انسان‘ جب 21 اکتوبر1977 کو سنیما گھروں کی زینت بنی تو فلم کے ابتدا میں ہی ’کاسٹ کریڈٹ‘ سکرین پر جلوہ افروز ہوئے، دلچسپ امر یہ رہا کہ ستاروں کے نام کے بعد ہر گانے کا مکھڑا اردو زبان میں جہاں سکرین پر لکھا ہوا نظر آیا، وہیں اس کو تیار کرنے والے موسیقار کا نام بھی جھلمایا۔ شاعر اور موسیقار تو ہر سکینڈ میں بدلتے رہے نہ بدلا تو گلوکارہ مہناز کا نام۔
یہاں ایک بات بھی قابل دید ہے کہ مسعود پرویز نے بیک گراؤنڈ میوزک کے لیے وزیر افضل اور ڈانس میوزک ترتیب دینے کے لیے وجاہت عطرے کو چنا۔ایک اعتبار سے ’انسان‘ نو موسیقاروں کی کاوش تھی۔ اس قدر منفردیت اور غیر معمولی محنت کے باوجود یہ فلم ’انسان‘ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔
مسعود پرویز کو اس فلم کی ناکامی کا بہت زیادہ افسوس ہوا، اگلے برس انہوں نے ایک اور تاریخی فلم ’حیدر علی‘ اور پھر ’خاک و خون‘ بنائیں لیکن یہ بھی اوسط درجے کا کاروبار کر پائیں اور پھر وہ دھیرے دھیرے شوبزنس کی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔
مگر آج بھی جب ’انسان‘ کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کے سات موسیقاروں کے ست رنگی گانوں کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس طرح ہدایت کار مسعود پرویز حیات نہیں ویسے ہی ’انسان‘ کے ساتوں موسیقار، گلوکارہ مہناز اور نہ ہی رومانی نغموں کا گلستان کا تحفہ دینے والے نغمہ نگار بھی نہیں رہے۔