فلم ’سندھو جی گونج‘ میں سندھو دریا کے گرد گھومتی چار کہانیاں اور ان سے جڑے کردار سبھی میں سندھو بہتا، ٹھہرتا، تھمتا اور کہیں تھکتا نظر آتا ہے۔
میں نے انڈپینڈنٹ اردو کے لیے فلم پر جب لکھنا چاہا تو فلم ناقد اور ’سندھو جی گونج‘ کے ڈسٹری بیوٹر کامران جاوید نے مختصر دورانیے کے لیے اس کا لنک شیئر کیا۔
سندھو، فلم کے ہر کیمرہ فریم میں بولتا ہے۔ فلم کی کہانی صحافی و لکھاری راہل اعجاز کی ہے جو اس فلم کے ہدایت کار بھی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے انہی سے پوچھا اس فلم کا قصہ ہے کیا اور ایک طویل عرصے بعد سندھی زبان کے سینیما نےکروٹ کیوں کر لی؟ تو راہل نے بڑے دلچسپ اور سادے الفاظ میں بتایا: ’یہ سندھو کی کچہری ہے، سندھو کی باتیں، سندھو سے باتیں اور سندھو سے جڑی اس کے بارے میں باتیں۔‘
راہل نے 2022 کی گرمیوں میں اس خیال پہ لکھنا شروع کیا۔ وہ ذاتی طور پہ خود کو سندھو دریا سے جوڑ کر دیکھتے اور سوچتے دکھائی دیے۔
فلم میں 'انتھولوجی‘ کی طرز پہ پانچ کہانیاں نظر آتی ہیں۔ ان سبھی کہانیوں میں بقول راہل، کہیں نہ کہیں ان کی زندگی کی جھلکیاں بھی ہیں۔
انہوں نے فلم کے کینوس سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ’سندھو دریا ‘ کو صرف آرٹ کے غلاف میں لپیٹ کر تکریم کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی اصلی زندگی میں بھی اس کی تہذیب اور اہمیت کو اجاگر کر کے دیکھنا ہو گا۔
فلم ابھی پاکستان اور عالمی سطح پہ ریلیز نہیں کی گئی، لیکن رواں سال ہی اس کی ملک گیر اور دنیا بھر میں سکریننگ پہ کام چل رہا ہے۔
فلم کے ایگزیکٹیو پروڈیوسر اور شوبز انڈسٹری کے اداکار شمعون عباسی نے کہا ’راہل کہانی کار بھی ہیں اور جنوبی کوریا سے فلم میکنگ پڑھ کے آئے ہیں۔
’راہل نے متوازی سینیما کے پیرائے میں یہ کہانی سندھو دریا کے آس پاس بُنی اور دریا کی قربت اور اس سے جڑے ماحول پہ بات ہونی چاہیے۔‘
اسی وجہ سے شمعون نے فلم میں دلچسپی لی۔ فلم کے کرداروں میں مچھیرے، لٹیرے، ہاری اور لکھاری سبھی ’سندھو‘ کے گرد اپنی زندگیاں کھوج رہے ہیں۔
بقول فلم پروڈیوسر: ’جب سے سینیما ہے، متوازی سینیما یا ان موضوعات پہ بھی بات ہوتی اور فلمیں بنتی رہی ہیں جو کمرشل موضوعات کے لوازمات سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔
’سو اس وقت پاکستانی سینیما انڈسٹری میں علاقائی سینیما کی ایک بار اس لہر نے لکھنے، فلم بنانے اور فلم بینوں سبھی کو ایک نئی کھڑکی کھلی ملی ہے۔‘
پروڈیوسر شمعون عباسی کے مطابق 'سندھو جی گونج‘ ہمارے ماحول میں پھیلی ہوئی ہے، اور ہمیں اس کی بارہا بازگشت 71 منٹ کی اس فلم میں سنائی دیتی ہے۔
فلم کی سبھی کہانیوں سے جڑے اداکاروں نے اپنے کردار کو ہر نئی کہانی سے جوڑ کے بخوبی نبھایا ہے۔
سینیما انڈسٹری میں علاقائی سینیما نے ایک بار پھر کروٹ لی ہے اور متوازی سینیما کے لیے لکھنے، فلم بنانے اور فلم بینوں سبھی کے لیے ایک نیا تجربہ ہو گا۔
فلم کی سبھی کہانیوں سے جڑے اداکاروں نے اپنے کردار کو ہر نئی کہانی سے جوڑ کے بخوبی نبھایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ چہرے کوئی معروف فلمی ستارے نہیں بلکہ منجھے ہوئے نوجوان اداکار ہیں جو فلم کی ’تھیم‘ کے ساتھ لازم ہیں۔
فلم میں میوزک نہیں، بغیر کسی ساز کے ہر کہانی سے جڑے ’بند‘ گائے گئے ہیں جو سندھو کی الٹتی پلٹتی لہروں کے بہاؤ کے سنگ بخوبی سر تال ملاتے ہیں۔
فلم کی ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے جاوید بلند حوصلہ محسوس ہوئے۔ ان کے بقول کمرشل سینیما کے پنپنے کی جدوجہد کے دوران علاقائی زبان میں متوازی سینیما کا ساتھ دینا ان کے لیے دلچسپ اور منافع بخش تجربہ ہو گا۔
پاکستان میں فلمی صنعت ماضی کے مقابلے اس رفتار سے نہیں پنپ رہی جو ڈسٹری بیوٹر برادری کو منافع دے سکے۔
کامران کے مطابق ’سندھو جی گونج‘ کے منصوبے میں شمولیت کی بڑی وجہ ’سٹوڈیو ذہینیت‘ کو فروغ دینا ہے تاکہ ایک فلم کے لکھنے سے اس کے ریلیز ہونے تک ذمہ داری کو بخوبی نبھایا جا سکے۔
فلم کے لکھاری و ہدایت کار، ایگزیکٹیو پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر سے گفتگو کے علاوہ انڈپینڈنٹ اردو نے ٹی وی و فلم اداکارہ اور ہدایت کارہ زیبا بختیار سے بھی رابطہ کیا۔
پاکستان میں فلمی صنعت اور متوازی سینیما کے حوالے سے زیبا کا کہنا ہے کہ ’متوازی سینیما ایک لگژری ہے۔ اس سے کمائی نہیں ہوتی۔ ہاں اگر 10 کمرشل فلمیں باکس آفس پر ہٹ ہوں تو دو آرٹ فلمیں بھی ریلیز کی جا سکتی ہیں۔
’لیکن صرف متوازی سینیما ہی کرنا ہے تو یہ نظریہ بدلنا ہو گا۔ یہ بربادی ہے انڈسٹری کی۔ میں یہ کر کے دیکھ چکی ہوں۔ لیکن اگر کمرشل سینیما چلے گا تبھی متوازی سینیما ٹھہر سکے گا۔
’ایک خاندان کو ایک آرٹسٹ نہیں چلا سکتا۔ اگر کاروبار چل رہا ہے تو ایک خاندان میں ایک آرٹسٹ پیدا ہو سکتا ہے۔‘
یاد رہے فلمی صنعت کی بنیادی ضروریات کو مدنظر رکھنا، اس صنعت کی کامیابی کی پہلی کڑی شرط ہے۔