عموماً راجیش روشن بڑے بھائی راکیش روشن کی بات پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے لیکن اس بار انہیں لگا کہ ان کی بات بےتکی ہے کہ بھلا مسترد شدہ دھنوں میں سے کوئی اچھی دھن نکل سکتی ہے؟
یہ دھنیں تو رد ہوئی ہی اسی لیے تھیں کہ ان میں دم نہیں تھا۔ یہی خیال راجیش روشن کا تھا۔ دونوں عظیم موسیقار روشن کے صاحبزادے تھے۔ ایک نے پہلے اداکاری اور پھر ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا جبکہ راجیش روشن نے والد روشن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موسیقی میں اپنی صلاحیتوں کا امتحان لیا۔ باصلاحیت والد کے غیر معمولی بیٹوں نے اپنے اپنے شعبوں میں خوب نام کما لیا تھا۔
یہ 1994 کا درمیانی عرصہ تھا، جب ہدایت کار راکیش روشن نے فلم ’کرن ارجن‘ کے لیے سلمان خان اور شاہ رخ خان کو منتخب کیا۔ وہ پہلی تخلیق جس میں دو بڑے سٹارز ایک ساتھ سکرین پر جلوہ گر ہونے جا رہے تھے۔ سلمان خان تو اس وقت تک سپر سٹار بن چکے تھے جبکہ یہ تازہ تازہ درجہ شاہ رخ خان کو دو سال پہلے ہی ملا تھا۔
’دیوانہ‘، ’بازی گر‘ اور ’ڈر‘ کی کھڑکی توڑ کامیابیوں نے شاہ رخ خان کے لیے بالی وڈ میں ایک الگ مقام بنا دیا تھا۔ شاہ رخ خان کے ساتھ راکیش روشن ’کنگ انکل‘ میں کام کر چکے تھے اور یہ بات بھی دلچسپی سے کم نہیں کہ شاہ رخ خان نے سکرپٹ پڑھنے کے بعد راکیش روشن پر اس قدر اعتماد کا اظہار کیا کہ کسی قسم کا کوئی اعتراض تک نہیں کیا۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوسرے ہیرو کوئی اوسط درجے کے نہیں۔ شاہ رخ خان کو اتنا پتہ تھا کہ راکیش روشن کسی بھی اداکار کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے۔
ہیروئنز کے لیے جوہی چاؤلہ اور کرشمہ کپور کو پیش کش ہوئی تھیں لیکن دونوں کے انکار کے بعد ممتا کلکرنی اور کاجل کو سائن کیا گیا۔ ممتا کے ہیرو سلمان خان تھے تو اسی طرح کاجل اور شاہ رخ خان کی جوڑی بنائی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں کی ’بازی گر‘ سپر ہٹ ہو چکی تھی جبکہ راکیش روشن کو یہ علم تھا کہ دونوں اُن دنوں ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ میں کام کر رہے ہیں۔
اس فلم کے پروڈکشن ہاؤس یش راج کا نام دیکھ کر ہی راکیش روشن کو یقین تھا کہ اس فلم کی تشہیر کا فائدہ ان کی ’کرن ارجن‘ کو بھی ہو گا۔
ہدایت کار راکیش روشن کی ’کرن ارجن‘ کی کہانی روایتی جڑواں ہیروز اور پچھلے جنم کی تو تھی لیکن تھوڑی بہت جدت اور تبدیلی کے ساتھ۔ اس میں کرن اور ارجن کا ایک بار جنم ہوتا ہے لیکن الگ الگ خاندانوں میں اور پھر دونوں یکجا ہو کر ایک دکھیاری ماں کے ساتھ مل کر ان دشمنوں کو عبرت کا نشان بناتے ہیں، جنہوں نے انہیں گذشتہ جنم میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
فلم میں ماں یعنی راکھی کا ادا کیا ہوا ڈائیلاگ ’میرے کرن ارجن آئیں گے‘ تو آج تک لوگوں کے ذہنوں میں کُھبا ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریش پوری، رنجیت، آصف شیخ اور جونی لیور سمیت فلم کی بڑی سٹار کاسٹ تو تھی لیکن اس کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ راکیش روشن کے بیٹے ریتیک روشن ان کے معاون تھے، جنہوں نے بعد میں اپنے والد کی طرح طے شدہ شعبے کو چھوڑ کر دوسرے میں چھلانگ ماری اور پھر قسمت ایسی مہربان ہوئی کہ وہ بھی ایک ستارہ بن کر واقعی روشن ہوئے۔
اگر یہ کہا جائے کہ سلمان خان کی موجودگی کے باوجود فلم کے اصل ہیرو شاہ رخ خان تصور کیے جا رہے تھے تو غلط نہ ہو گا۔ راکیش کی کوشش تھی کہ سلمان اور شاہ رخ خان کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ سلمان کے برعکس شاہ رخ خان کا کردار شوخ و شنگ تھا، اسی لیے وہ ان پر فلمائے جانے والے ایک گیت کے لیے خاصے پرجوش تھے۔
جب ان کے پاس گانے کی دھن پہنچی تو انہوں نے چھوٹے بھائی راجیش روشن سے بے اختیار کہہ دیا کہ ’یہ کیسی دھن بنائی ہے؟‘ راکیش روشن کو یہ دھن ایک آنکھ نہیں بھائی۔ ان کا خیال تھا کہ ایسی دھن ہو، جو کاجل اور شاہ رخ خان کی اس جوڑی کو اور زیادہ مقبول بنا دے۔
اسی لیے انہوں نے راجیش روشن سے کہا کہ انہیں ایسا گیت چاہیے جو شاہ رخ خان اور کاجل کو نہیں بلکہ فلم کو بھی کامیابی کی منزلیں طے کرنے میں معاون ثابت ہو۔ کئی دنوں کی محنت کے بعد ایک بار پھر راکیش روشن نے بیشتر تیار دھنوں کو مسترد کر دیا۔ دن گزرتے جارہے تھے لیکن مطلب کی دھن مل کر نہیں دے رہی تھی۔
پھر ایک دن راجیش روشن سے کہا گیا کہ وہ ان دھنوں کو ذرا سنائیں، جو کسی نہ کسی مرحلے پر دوسرے ہدایت کاروں اور پروڈیوسرز کو پسند نہ آئی ہوں۔ بھائی کی یہ فرمائش راجیش روشن کو خاصی عجیب لگی۔ بہرحال انہوں نے وہ دھنیں جو رد ہو چکی تھیں اور جنہیں موسیقار عام طور پر پھر بھی سنبھال کر رکھتے تھے، بھائی راکیش روشن کو سنانا شروع کیں۔ تبھی ایک دھن کو سننے کے بعد ہدایت کار نے ’اوکے‘ کا اشارہ کیا۔
راجیش روشن کو خود یاد نہیں آرہا تھا کہ انہوں نے یہ دھن کب اور کس کے لیے بنائی تھی لیکن انہیں حیرت ہوئی کہ راکیش روشن نے اس دھن کو پسند کیا، جو انہیں خود قطعی طور پر اچھی نہیں لگی تھی۔ بہرحال بھائی کا حکم تھا بھلا کیسے کچھ بول سکتے تھے۔ اسی لیے بحث نہ کی لیکن یہ ضرور کہا کہ کوئی اور دھن سن لیں۔
لیکن راکیش روشن کی سوئی تو اسی دھن پر اٹکی ہوئی تھی۔ دل پر پتھر رکھ کر بادل نخواستہ راجیش روشن نے اس دھن پر کام کرنا شروع کیا۔ نغمہ نگار اندیور کو بتایا گیا کہ ہیروئن ہیرو شاہ رخ خان سے ملنے کے بعد واپس جانا چاہتی ہے اور کاجل کو روکنے کے لیے ہیرو لبھاتے ہوئے اسے روکنا چاہتا ہے۔ نغمہ نگار نے چند دنوں کی محنت کے بعد ’جاتی ہوں میں، جلدی ہے کیا‘ لکھ کر راجیش روشن کو تھما دیا۔ جنہوں نے کمار سانو اور الکا یاگنگ کی آواز میں اس مدھر اور چلبلے گانے کو ریکارڈ کیا۔ راکیش روشن کو گیت اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اسی انداز سے اسے خوبصورتی سے عکس بند کیا۔
’کرن ارجن‘ 13 جنوری 1995 کو جب مختلف سiنیما گھروں میں سجی تو اس نے فلم بینوں کو بار بار مجبور کیا کہ اسے دیکھیں۔ کہانی اچھوتی تھی، شاہ رخ خان اور سلمان خان کو ایک ہی فلم میں دیکھنے کا جنون اور تجسس تھا۔ وہیں گیتوں میں ’جاتی ہوں میں‘ نے کئی میوزک چارٹس کی پہلی پوزیشن پر قبضہ جمایا تھا. اگلے سال فلم فیئر ایوارڈز میں ’کرن ارجن‘ کی نو نامزدگیاں ہوئیں۔ ان میں راجیش روشن کی بھی بہترین موسیقار کی نامزدگی ہوئی لیکن وہ ایوارڈ حاصل نہ کر سکے۔
وہ دھن جسے راجیش روشن نے ردی سمجھ کر نظر انداز کیا تھا۔ بھائی کی ’جوہر شناس حس‘ نے اسے بےمثال بنا دیا۔ ’کرن ارجن‘ کو مقبول بنانے میں جہاں دھن اور گلوکاری نے اہم کردار ادا کیا وہیں راکیش روشن نے شوٹ بھی ایسا کیا کہ ہر طرف بس اسی گیت کی واہ واہ ہونے لگی۔ کوریوگرافر جوڑے چنی اور ریکھا پرکاش نے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کیا۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ گانا سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتا ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ راجیش روشن آخری لمحات تک اس گیت کو فلم میں شامل کرانے کے حق میں نہیں تھے۔
اُدھر شاہ رخ خان کی بیگم گوری خان نے جب اس گانے کے رشز دیکھے تو انہوں نے کاجل اور شوہر کے بولڈ مناظر پر خاصا اعتراض کیا تھا اوران کی بھی خواہش تھی کہ اس گانے کے کچھ مناظر کو کاٹ پیٹ کا نشانہ بنایا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔