آپ آخری بار کب ہنسے تھے؟ کسی مضحکہ خیز لمحے کی بے جان ہنسی یا گلے سے ابھرنے والی کِھی کِھی نہیں بلکہ ایک چھچھورا قسم کا بھرپور قہقہ جس میں ہنستے ہنستے آپ دہرے ہو جائیں اور پھیپھڑوں کی ہوا ارتعاش انگیز لہروں کی میں بدل جائے؟
نامور ارتقائی ماہر نفسیات رابن ڈنبر کے مطابق ہنسی ان سوالات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔
زوردار قہقہ لگاتے ہوئے آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ پر کنٹرول کھو چکے ہیں کیونکہ ایک طرح سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک قدیم ارتقائی جذبہ آپ کے نظام تنفس پر غالب آ چکا ہوتا ہے، یہ آپ کے ڈایافرام اور پسلیوں کے درمیان کے پٹھوں کو اتنی سختی سے نچوڑتا ہے کہ آپ کے پھیپھڑوں اور لیرنکس کے ذریعے ہوا انتہائی تیزی رفتاری اور شدت سے نکلتی ہے، اگر آپ جان بوجھ کر ایسا کرنے کی کوشش کریں تو اسے دہرا نہیں سکیں گے۔
بات کرنا تو درکنار آپ بمشکل سانس لے سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک لمحے کے لیے آپ کو ڈر لگتا ہے کہ مر ہی نہ جائیں۔ جیسے ہی آپ اپنی سانسیں بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں آپ کو ایک دھچکا لگتا ہے، اب آپ کے ارد گرد موجود لوگ بھی قہقہے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ حقیقی قہقہ انتہائی متعدی چیز ہے۔
اور یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ آپ کا جسم اینڈورفنز اور خوشی کے دیگر ہارمونز سے بھر چکا ہے جو قہقہے سے سنبھلنے کے کافی وقت بعد تک آپ کا مزاج خوشگوار رکھے گا۔
دوسروں کے ساتھ طوفانی قہقہ بانٹنے کے مواقع بہت کم میسر آتے ہیں اور یہی چیز اسے بہت یادگار بناتی ہے۔ ممکنہ طور پر آپ اس یاد کو طویل عرصے تک نہیں بھلا پائیں گے۔ جو ساتھی اس تجربے میں آپ کے ساتھ شریک رہے آپ کم سے کم ان پر بھروسہ ضرور کرتے ہیں لیکن اس بات کا امکان کہیں زیادہ ہے کہ آپ واقعی ان کے دلدادہ ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ارتقائی نفسیات کے اعزازی پروفیسر ڈنبر کے مطابق قہقہے کی ایک کمال کی خوبی یہ ہے کہ یہ نئے سماجی بندھنوں کو مضبوط کرتا اور موجودہ تعلقات کو گہرا کرتا ہے۔
پروفیسر ڈنبر اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ ہمارے اور عظیم بندروں کے درمیان ہنسنے کا یہ غیر ارادی جذبہ مشترکہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد کے آپس میں بات کر سکنے کی صلاحیت سے پہلے یہ ایک سماجی تعلقات کے رویے کے طور پر ابھرا تھا۔
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’اگر کوئی ہنسنا شروع کردے تو اس کے ساتھ شامل نہ ہونا بہت مشکل ہے۔ اس میں کسی ایسی چیز کی تمام خصوصیات ہیں جو بہت قدیم دور سے چلی آتی ہو اور یہ ایسی چیز نہیں جسے جان بوجھ کر میں شعوری طور پر کرنا پڑے۔‘
پروفیسر ڈنبر کی شاید مشہور ترین شناخت ان کا 150 نمبر والا مشہور نظریہ ہے۔ پرائی میٹس کے گروہ اپنا دائرہ اپنی نوع کے مخصوص سائز کی حد میں رکھنے کے عادی تھے کیونکہ جب اس نکتے کی خلاف ورزی کی جاتی تو وسیع گروہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور چھوٹے حریف گروہوں میں تقسیم ہو جاتا۔ ڈنبر نے پرائی میٹس کے دماغ کے سائز اور ان کے سماجی گروہوں کے اوسط سائز کے درمیان ایک مضبوط تعلق دریافت کیا ہے۔
مثال کے طور پر گوریلا اور چمپینزی اوسطاً 20 یا 30 ارکان پر مشتمل گروہ کی شکل میں رہتے ہیں۔ اوسط انسانی دماغ کے حجم کی مدد سے انہوں نے اندازہ لگایا ہے کہ جدید انسانوں کا ’ڈنبر نمبر‘ 150 ہے۔
جن افراد کے ساتھ ہم مستحکم سماجی تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں اگر ان کی تعداد کی کوئی ذہنی حد ہے تو اس سے نہ صرف یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ کیوں 150 ایک سیکنڈری سکول کے سالانہ گروپ، فوجی رجمنٹ یا ایک دیہی برادری کے لیے بہترین سائز محسوس ہوتا ہے بلکہ یہ بھی کہ انسانی زندگی میں ہنسی کیسے شامل ہوئی؟
پرائی میٹس دیکھ بھال کے ذریعے اپنے سماجی بندھن اور اتحاد قائم کرتے تھے۔ لیکن دیکھ بھال ایک وقت اور محنت طلب عمل ہے جو صرف ایک سے ایک کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے قدیم ہومینن آبا و اجداد نے تقریباً 2.5 ملین سال پہلے بہت بڑا دماغ تیار کر لیا تھا جب انہوں نے بڑے گروہوں کی صورت میں رہنا شروع کیا اور ممکنہ طور پر تب ان کا سماجی ڈھانچہ زیادہ پیچیدہ تھا۔
پروفیسر ڈنبر کا خیال ہے کہ اس وقت دن میں اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ محض جسمانی دیکھ بھال کے ذریعے تعلقات کو برقرار رکھا جا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پری میٹ دن کے وقت کا 20 فیصد دیکھ بھال میں صرف کرتے تھے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ بھی 50 کی گنجائش بنتی ہے۔ سماجی گروہوں کے سائز اس سے زیادہ نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ آپ کسی اور طریقے سے تعلقات کا مسئلہ حل نہ کریں۔‘
پروفیسر ڈنبر کا خیال ہے کہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے قہقہ ارتقائی عمل سے ہم آہنگ ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہنسنا اینڈورفِن کو متحرک کرتا ہے جو کہ دیکھ بھال کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے ردعمل جیسا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی قہقہے کا اس قدر غیر معمولی طور پر بلند ہونا شاید اس سے بھی زیادہ اہم اشارہ رکھتا ہے۔
ان کے بقول ’ہنسی بہت قدیم بندروں اور بن مانس (ape) کے رویے سے آئی، بالخصوص مختلف آوازیں نکالنا جو میل جول پسند بندروں اور عظیم بن مانسوں میں بہت عام ہے۔ افریقی عظیم بن مانس ایسی آوازیں نکالتے ہیں جنہیں بغیر کسی مشکل کے بطور ہنسی شناخت کیا جا سکتا ہے۔ سانس لینے اور خارج کرنے کے درمیان ان کی ہنسی نما آواز یکے بعد دیگرے نکلتی ہے جس کے سبب اس کی ساؤنڈ کم ہو جاتی ہے۔ انسانی ہنسی بنیادی طور پر ایسی ہی ہے لیکن ہم نے سانس لینے کا حصہ ترک کر دیا ہے۔ ہماری ہنسی محض سانس باہر نکالنے کا ایک سلسلہ ہے جو پھیپھڑوں کو خالی کر دیتا ہے تاکہ ہم جو شور پیدا کرتے ہیں وہ سہی طرح بلند ہو۔‘
بلند آہنگ انسانی ہنسی دراصل بیک وقت کئی ساتھیوں کے ’ایک ساتھ ہم آواز ہو کر‘ لگانے کے لیے وجود میں آئی۔ امکان ہے کہ ہنسی کے ساتھ شامل ہو کر اس کی شدت کئی گنا بڑھنے کے اثرات نے ’ورچوئل گرومنگ‘ کو فروغ دیا ہو گا اور یوں وسیع تر گروہوں کے درمیان ہم آہنگی میں معاون ثابت ہوئی ہو گی۔
وقت کے ساتھ ساتھ جب ہمارے دماغ دھیرے دھیرے پیچیدہ ہوتے گئے تو وہ کہیں زیادہ لطیف آوازیں نکالنے کے قابل ہو گئے اور یہی چیز آگے چل کی زبان کی معاون بنی۔ لیکن زبان سے بہت پہلے ہمارے دماغوں نے ہمیں مصنوعی طور پر سماجی بندھنوں کی تشکیل کا عمل تیز کرنے کے طریقے کے طور پر دوسروں کی ہنسی میں شریک ہونے کی طرف دھکیلا ہو گا اور اس کا براہ راست نتیجہ ایک نوع اور انفرادی طور پر ہمارے زندہ رہنے کے امکانات میں بہتری کی صورت میں نکلا ہو گا۔ قریبی تعاون پر مبنی اتحاد کے بغیر شکار اور بچوں کی دیکھ بھال کی صلاحیت ناممکن ہوتی۔
پروفیسر ڈنبر بتاتے ہیں کہ ہنسی کی دو قسمیں ہیں۔ بے ارادہ چہرے پر پھوٹ پڑنے والی نام نہاد Duchenne ہنسی جس میں آنکھوں کے گرد جلد سکڑ جاتی ہے۔ مگر دوسری قسم وہ شائستہ ہنسی ہے جو ہماری روزمرہ کی بات چیت میں حاوی نظر آتی ہے، جو شعوری طور پر ہمارے اختیار میں ہوتی ہے اور اس کے بارے میں کم و بیش یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ زبان کے ساتھ ہی بہت بعد میں ابھرنا شروع ہوئی۔
یہ شائستہ ہنسی ایک ایسا معمول کا طرز عمل ہے جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا ہے کہ ہم یہ کر رہے ہیں، ہماری تقریباً ہر گفتگو شائستہ ہنسی کے وقفوں سے بھری ہوتی ہے جو بعض اوقات ہمارے صاف کہے گئے الفاظ کے مقابلے میں زیادہ واضح مفہوم کا اظہار کرتی ہے۔ ہم یہ ظاہر کرنے کے لیے قہقہے لگاتے ہیں کہ ہم ایک مذاق کو پہچانتے ہیں یا اتفاق یا حوصلہ افزائی ظاہر کرنے کے لیے ہنستے ہیں۔ بعض اوقات ہم صرف یہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ ہم کسی کی مذاق کرنے کی کوشش کو سراہتے ہیں۔ اگر آپ خاموشی سے اس قسم کی ہنسی کو شعوری طور پر سنیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ اتنی زیادہ کہ آپ اس کے سماجی بندھن قائم رکھنے کی اہمیت کو صرف اس وقت سمجھتے ہیں جب یہ موجود نہ ہو۔
پروفیسر ڈنبر کہتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ ایسی گفتگو جس میں ہنسی شامل نہ ہو وہ جاری رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔‘ یونیورسٹی آف میری لینڈ میں نیورو سائنٹسٹ اور سائیکالوجی کے پروفیسر آنجہانی رابرٹ پرووائن سڑک کے کنارے ہونے والی سیکڑوں گفتگوئیں ریکارڈ کیں اور اس سلسلے کو انہوں نے ’فٹ پاتھ نیورو سائنس‘ کے طور پر بیان کیا۔ پرووائن اس نتیجے پر پہنچے کہ قہقہ بنیادی طور پر ایک سماجی عمل ہے جس کا مقصد اپنی بات دوسروں تک پہنچانا ہے اور اکثر اس کا مزاح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ریکارڈ شدہ گفتگو کو نقل کرتے وقت پرووائن کی ٹیم نے مشاہدہ کیا کہ 99.9 فیصد وقت جب بھی قہقہ آیا وہ بات چیت کا بنیادی حصہ تھا اور بہت ہی کم ہوا کہ وہ گفتگو پر اوور لیپ ہوا ہو۔ ہنسی کے یہ نام نہاد ’اوقاف کا اثر‘ ہماری تقریباً ہر عمومی گفتگو کا حصہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ایک وجدانی شعور ہے کہ ہنسی ہماری روزمرہ کی بات چیت میں کہاں فٹ بیٹھتی ہے۔
سوفی سکاٹ یونیورسٹی کالج لندن میں کاگنیٹیو نیورو سائنس کی پروفیسر ہیں اور پرووائن کے نتائج سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہنسنا بنیادی طور پر ایک سماجی رویہ ہے اور شاید سب سے اہم سماجی ہنر جو ہم سیکھتے ہیں۔’
نیورو امیجنگ سکینز سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر بالغ انسان ہنسی کی دونوں قسموں میں فرق کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ پروفیسر سکاٹ کہتی ہیں کہ ’جب ہم (حقیقی) ہنسی سنتے ہیں تو دماغ میں سماعت سے متعلق ایک مخصوص حصہ واضح طور پر روشن ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب بھی ہم (ابلاغ کرنے والی شائستہ ہنسی) سنتے ہیں تو دماغ کا وہ حصہ جو سمجھنے یا کسی اور کی سوچ تک پہنچنے میں مہارت رکھتا ہے وہ متحرک ہو جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ بہت چھوٹے بچے ہنسی کی طرف متوجہ ہوتے اور اس میں شامل ہونے کے لیے بے چین ہوتے ہیں لیکن نیورو امیجنگ اسکینز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اکثر ہنسی کی دو اقسام کے درمیان فرق کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ بظاہر یہ صلاحیت دھیرے دھیرے جوانی میں آ کر بہتر ہو جاتی ہے لیکن ہم اپنی زندگی کی تیسری دہائی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے ہی مکمل پراعتماد طریقے سے ہنسی کا یہ فرق واضح کر سکتے ہیں۔
بچپن کے اختتام پر ہمیں اندازہ ہونا شروع ہوتا ہے کہ قہقہ ایک پوشیدہ معنی والی زبان ہے جو واضح طور پر سمجھ میں نہیں آنے دیتی کہ ہمارے ساتھی اصل میں کیا سوچ اور محسوس کر رہے ہیں۔ پروفیسر سکاٹ کا کہنا ہے کہ ’گویا اس کا ہلکی پھلکی مزے دار چیز کے طور پر اختتام شروع ہو جاتا ہے، ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت پروان چڑھتے ہی ہمارا دماغ ان سے ہم آہنگ ہونے کا ہنر سیکھنے لگتا ہے۔‘
بڑے پیچیدہ سماجی گروہوں میں رہنا ذہنی طور پر ایک مشکل امر ہے۔ پروفیسر ڈنبر کا خیال ہے کہ ہمارے دماغ دراصل ان مشکلات کو پورا کرنے کے لیے ایک ارتقائی موافقت کا اظہار ہیں۔ کیوں کہ بڑھے گروہوں میں رہتے ہوئے ہمیں یاد رکھنے، اشتراک کرنے اور بدلتے ہوئے اتحادیوں کی خبر رکھنے کے لیے نفسیاتی طور پر زیادہ پیچیدہ دماغوں کی ضرورت تھی۔
وہ کہتے ہیں (انسان) کائنات کی سب سے زیادہ پیچیدہ چیز ہیں۔ ہمارے دماغوں کو یہ جاننے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور ہمارے دماغوں کو یہ ہنر سیکھنے میں کافی وقت لگتا ہے۔‘
ہنسی فوسلز کی صورت میں نہیں ڈھلتی لیکن آثار قدیمہ کا ریکارڈ اس مفروضے کی حمایت کر سکتا ہے کہ لطیف سماجی رویوں کو ڈی کوڈ کرنے کا طریقہ سیکھنا انسانی ترقی میں ایک اہم مرحلہ ہے۔
زمانہ قدیم کے ملنے والے دانتوں کے فوسلز میں موجود نمو کی لکیریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ابتدائی ہومینز میں جوانی سے پہلے پرورش ویسے ہی سست ہو جاتی تھی جیسے جدید انسانی شیر خوار بچوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے بچے چھ یا سات سال تک ایک ہی شرح سے بڑے ہوتے ہیں، پھر یہ سلسلہ کئی سال سست روی کا شکار رہتا ہے اور اچانک بلوغت کے وقت رفتار پکڑ لیتا ہے۔‘
پروفیسر ڈنبر کہتے ہیں ’زیادہ تر ممالیہ بلوغت سے گزرتے ہی مؤثر سوجھ بوجھ کے مالک ہو جاتے ہیں لیکن سماجی طور پر زیادہ میل جول کے شوقین بندر اور عظیم بن مانس بلوغت کے بعد مؤثر سوجھ بوجھ تک پہنچنے سے پہلے ایک طویل وقت لیتے ہیں۔ یقیناً انسانوں میں یہ ایک بہت کمال کی خوبی ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ سماجی مہارتیں سیکھنے کی بدولت ہے۔‘
ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بچپن اور بلوغت کے درمیان سست رفتار پرورش کا دور نہ ہو تو بچوں کے پاس ’کھیلنے‘ اور دوستی اور سماجی ربط استوار کرنے کی وہ مہارتیں سیکھنے کو وقت ہی نہ ملا ہوتا جو پختہ عمری میں ان کی بقا کے لیے کلیدی ثابت ہوئیں۔
یہ نظریہ انفرادی اور مختلف انواع کی وسیع بقا سمیت دونوں کی وضاحت کرنے کے لیے کچھ راستہ فراہم کرتا ہے۔ زیادہ تر ممالیہ کے برعکس انسانی شیر خوار بچے اپنی عمر کے غیر متناسب حصے تک نہایت کمزور ہوتے ہیں۔ قریبی تعاون پر مبنی اتحاد بنانے کی صلاحیت کے بغیر جو والدین کو بچوں کی دیکھ بھال کا اجتماعی موقع فراہم کرتا ہے، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ایسی محتاج اولاد اُس مقام تک زندہ رہے جہاں وہ خود والدین بن جائے۔
ارتقائی نقطہ نظر سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ (حقیقی) قہقہ بہت سکون آور ہے کیونکہ یہ سب ٹھیک ہونے اور قریبی ماحول میں خطرہ نہ ہونے کی نشان دہی کرتا ہے سو آپ آزادی سے کھیل سکتے ہیں۔ پروفیسر سکاٹ بتاتی ہیں کہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ صرف ہنسی کی توقع ہی انسان کی نبض کی رفتار کو کم کرنے، تناؤ کو کم کرنے اور ایڈرینالین اور کورٹیسول کی سطح کو کم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہنسی دل کے مریضوں کے لیے بہتر نتائج دینے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہنسی واقعی بہترین دوا ہے تو یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ ہمیں ایسا کرنے کے لیے دوسرے لوگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
لافنگ یوگا ورکشاپس اس چیز کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ایک نیا رجحان ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کسی دوسرے کے بغیر اپنے آپ ہنسنے کا ہنر سیکھنا اپنی دیکھ بھال کا ایک انمول ہتھیار ہے۔ ورکشاپس جان بوجھ کر اس امید پر پیٹ کی ہنسی کو فروغ دینے کے لیے مزے دار جسمانی حرکات اور سانس لینے کی مشقوں کا ایک سلسلہ استعمال کرتی ہیں کہ یہ ویسے ہی جسمانی اور نفسیاتی فوائد فراہم کرے گا جو ’حقیقی‘ ہنسی سے مخصوص ہیں۔
لیکن یہ ایسی ورکشاپس کا سماجی پہلو ہے جس کا حقیقی اثر پڑنے کا امکان ہے۔ پرووائن نے ثابت کیا کہ جب آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو اکسائے جانے پر آپ کے بلند آواز میں ہنسنے کا امکان 30 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جب آپ اکیلے ہوتے ہیں تو آپ غیر ارادی طور پر ہنس سکتے ہیں لیکن پرووائن کے نتائج کے مطابق ایسی ہنسی کم و بیش ہمیشہ ٹی وی یا دیگر میڈیا سے شروع ہوتی ہے جو تب حقیقی لوگوں کے متبادل کے طور پر کام کرتے ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کے روزناموں کا تجزیہ کرتے ہوئے جو حقیقی تنہائی میں ہرمیٹک طرز زندگی گزار رہے تھے پرووائن نے دیکھا کہ ان کی زندگیوں سے قہقہ ختم ہو کر رہ گیا تھا۔
پروفیسر ڈنبر اپنے مرحوم ساتھی کے نتائج سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہنسی بطور سماجی جانور ہماری شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے بغیر ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کی صلاحیت میں کمی پاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم فطری طور پر ایسے لوگوں کی طرف راغب ہوتے ہیں جو ہمیں ہنساتے ہیں اور مزاح نگاروں کو مقبول ثقافت میں بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ہنسی کے دیکھ بھال سے جڑے متعدی اثر کو دیکھنے کے لیے بہترین جگہ کامیڈی کے چھوٹے چھوٹے مقامات ہیں. وہ کہتے ہیں ’ایسا لگتا ہے کہ سامعین بیک وقت ہنس رہے ہیں، لیکن اگر آپ مزید قریب سے دیکھیں تو ہنسی کمرے میں چاروں اطراف لہروں کی صورت میں پھیل رہی ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کی میکسیکن لہر میں سفر کرتی ہے اور آپ کی ہنسی دراصل آپ کے ساتھ بیٹھے لوگوں کی ہنسی سے شروع ہوتی ہے۔‘
© The Independent