چیونٹیوں کے جبڑے کی نقل روبوٹس کی گرفت بہتر بنا سکتی ہے: تحقیق

محققین کو معلوم ہوا ہے کہ چیونٹیوں کے بالوں والے جبڑوں کی نقل کرتے ہوئے روبوٹس کو اشیا اٹھانے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔

چیونٹیوں کے منہ سے متاثر ’بال دار گرفت‘ کا ایک نمونہ تیار اور آزمائش کے مرحلے سے گزر چکا ہے (پکسا بے)

محققین کو معلوم ہوا ہے کہ چیونٹیوں کے بالوں والے جبڑوں کی نقل کرتے ہوئے روبوٹس کو اشیا اٹھانے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔

ایڈنبرا یونیورسٹی کی ٹیم کے مطابق چیونٹیوں کے منہ کی ساخت پر مبنی ’بالوں والا پنجے‘ کا ابتدائی نمونہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا ہے اور اس کے نتائج ’بہت عمدہ‘ ثابت ہوئے ہیں۔

تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے نتیجے میں موجودہ روبوٹک ہینڈلنگ سسٹمز کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، وہ بھی بغیر کسی بڑی پیچیدگی یا زیادہ لاگت کے۔

اس سے قبل روبوٹک ہینڈلنگ سسٹمز کی تیاری میں زیادہ توجہ انسانی ہاتھ کی نقل پر دی جاتی رہی ہے اور اُنہیں مشین لرننگ جیسی جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جاتا رہا ہے۔

نیا دو جبڑوں والا متوازی پلیٹ گرپر تھرموپلاسٹک پولی یوریتھین سے بنے ہوئے چار قطاروں پر مشتمل ’بالوں‘ سے لیس ہے، جو وی کی شکل میں لگے ہوئے ہیں تاکہ یہ گول اشیا کو بہتر طریقے سے پکڑ سکے، خاص طور پر اُن چیزوں کو جنہیں تھامنا مشکل ہو۔

گھریلو استعمال کی عام اشیا جیسے کپ اور جارز پر کیے گئے تجربات سے ظاہر ہوا کہ ان ’بالوں‘ کے اضافے سے پروٹوٹائپ گرپر کی گرفت کی کامیابی کی شرح 64 فیصد سے بڑھ کر 90 فیصد ہو گئی۔

یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ پنجہ ماحول کی صفائی، دکانوں، تعمیرات، زراعت اور دیگر صنعتوں کے ساتھ ساتھ گھریلو استعمال میں بھی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

اس تحقیق کی بنیاد بننے والے منصوبے کی مالی معاونت یو کے ریسرچ اینڈ انویشن انجینیئرنگ اینڈ فزیکل سائنسز ریسرچ کونسل  (ای پی ایس آر سی) نے فراہم کی۔

ایڈنبرا یونیورسٹی کی پروفیسر باربرا ویب نے، جو اس تحقیق کی سربراہی کر رہی ہیں، کہا: ’ہم نے چیونٹیوں کی اس مہارت اور نرمی سے جس سے وہ چیزیں اٹھاتی ہیں، متاثر ہو کر جو پروٹوٹائپ بنایا ہے وہ محض پہلا قدم ہے۔‘

’ہم نے چیونٹیوں کی بہت طاقت ور فلم بنائی اور ان کے بیج اور دیگر اشیا اٹھانے کے عمل کو مرحلہ وار اور ٹھیک ٹھیک انداز میں تھری ڈی میں دوبارہ تخلیق کیا۔ یہ وہ چیز ہے جس پر ماضی میں بہت کم تحقیق کی گئی۔‘

’اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ان کی اینٹینے، اگلی ٹانگیں اور جبڑے مل کر چیزوں کو محسوس کرتے ہیں، سنبھالتے ہیں، پکڑتے ہیں اور حرکت دیتے ہیں۔‘

’مثال کے طور پر، ہم نے دریافت کیا کہ چیونٹیاں اشیا کو درست مقام پر لانے کے لیے اپنی اگلی ٹانگوں پر کس قدر انحصار کرتی ہیں۔‘

’یہ تحقیق ہماری ٹیکنالوجی کی آئندہ ترقی میں مدد دے گی۔‘

ای پی ایس آر سی  کی ایگزیکٹیو چیئرپرسن پروفیسر شارلٹ ڈین نے کہا کہ ’یہ جدید روبوٹک گرپر، جو چیونٹیوں کی غیر معمولی طاقت اور اثر انگیزی سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا، اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح جدید ترین انجینیئرنگ تحقیق حقیقی دنیا میں فائدہ دے سکتی ہے۔‘

’قدرتی دنیا کی نقل کرتے ہوئے یہ نئی ایجاد دکانوں پر اشیا کی فروخت، ماحولیاتی خدمات اور دیگر شعبوں میں پیداوار اور کارکردگی کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

یہ پانچ سالہ منصوبہ ستمبر 2021 میں شروع ہوا اور اسے ای پی ایس آر سی کی جانب سے 17 لاکھ پاؤنڈ کا فنڈ دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق