سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ ہم بچپن کے ابتدائی سالوں کی یادیں کیوں یاد نہیں رکھ پاتے، حالانکہ ان سالوں میں ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
محققین طویل عرصے سے یہ مانتے رہے ہیں کہ ہم ان ابتدائی تجربات کو اس لیے یاد نہیں رکھتے کیونکہ دماغ کا وہ حصہ جو یادداشت محفوظ کرنے کا ذمہ دار ہے — جسے ہپوکیمپس (hippocampus) کہا جاتا ہے — وہ نوجوانی تک مکمل نہیں ہوتا، اور اس وجہ سے وہ ہماری ابتدائی عمر کی یادوں کو محفوظ نہیں کر سکتا۔
لیکن اب ییل یونیورسٹی (Yale) کے محققین نے پایا ہے کہ یہ بات درست نہیں، اور وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان یادوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔
اس تحقیق میں، جو سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے، محققین نے چار ماہ سے لے کر دو سال کی عمر تک کے 26 بچوں کو ایک نئی شکل، شے یا منظر کی تصویر دکھائی، اور بعد میں ان کے یاد رکھنے کی صلاحیت کا مشاہدہ کیا۔
ان بچوں کو بعد میں کئی اور تصاویر دکھائی گئیں، پھر ایک موقعے پر ایک ایسی تصویر جو وہ پہلے دیکھ چکے تھے، اس کے ساتھ ایک نئی تصویر رکھی گئی۔
پروفیسر نک ٹرک-براؤن نے، جو اس مطالعے کے سینیئر مصنف ہیں، کہا کہ ’جب بچوں نے کوئی چیز پہلے صرف ایک بار دیکھی ہو، تو ہم توقع کرتے ہیں کہ جب وہ اسے دوبارہ دیکھتے ہیں تو وہ اس پر زیادہ دیر تک نگاہ ڈالیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر بچہ پرانی دیکھی گئی تصویر کو نئی تصویر کے مقابلے میں زیادہ دیر تک دیکھتا ہے، تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اسے پہچانتا ہے، یعنی اس کے لیے وہ تصویر مانوس ہے۔‘
محققین نے فنکشنل میگنیٹک ریزونینس امیجنگ (fMRI) کے ذریعے بچوں کے ہپوکیمپس کی سرگرمی کو اس وقت ناپا جب وہ تصاویر دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ جتنا زیادہ ہپوکیمپس متحرک ہوتا تھا جب بچہ نئی تصویر کو دیکھ رہا ہوتا، اتنی ہی دیر تک وہ بعد میں اس تصویر کو دوبارہ دیکھنے پر بھی نگاہ مرکوز رکھتا۔
اگرچہ یہ مظاہرہ تمام بچوں میں دیکھا گیا، لیکن بارہ ماہ سے زیادہ عمر کے بچوں میں دماغی سرگرمی سب سے زیادہ تھی، جس سے یہ تجویز ہوتا ہے کہ ہپوکیمپس وقت کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور یادداشت کی معاونت کے لیے بہتر ہوتا ہے۔
ییل کی ٹیم کی ایک پچھلی تحقیق نے یہ ظاہر کیا تھا کہ تین ماہ کے بچوں میں بھی یادداشت کی ایک قسم موجود ہوتی ہے جسے ’ سٹیٹسٹیکل لرننگ‘ کہا جاتا ہے۔
جبکہ ایپی سوڈک میموری مخصوص واقعات سے متعلق ہوتی ہے، سٹیٹسٹیکل لرننگ میں مختلف تجربات سے پیٹرنز یا نمونوں کو پہچاننے کی صلاحیت شامل ہوتی ہے، جیسے کہ کوئی جگہ کیسی نظر آتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروفیسر ٹرک-براؤن کا خیال ہے کہ ایپی سوڈک میموری ممکنہ طور پر ایک سال یا اس کے بعد کے عرصے میں ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہتری کی یہ ترتیب بچوں کی ضرورتوں کے مطابق سمجھ میں آتی ہے۔
انہوں نے کہا: ’سٹیٹسٹیکل لرننگ ہمارے اردگرد کی دنیا کے ڈھانچے کو سمجھنے کا عمل ہے۔ یہ زبان، بصارت، تصورات اور مزید کے ارتقا کے لیے اہم ہے۔ لہٰذا یہ سمجھ آتا ہے کہ ایپی سوڈک میموری سے پہلے سٹیٹسٹیکل لرننگ آتی ہے۔‘
تاہم، یہ تازہ ترین تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایپی سوڈک میموریز کو ہپوکیمپس ابتدائی عمر میں ہی انکوڈ کر سکتا ہے، اس سے کہیں پہلے جب ہم بطور بالغ اپنی پہلی یادوں کو یاد کر سکتے ہیں۔
یہ بات اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ آخر ان یادوں کا کیا ہوتا ہے؟
پروفیسر ٹرک-براؤن کے مطابق ایک امکان یہ ہو سکتا ہے کہ یہ یادیں طویل مدتی سٹوریج میں تبدیل نہیں ہوتیں۔
تاہم، انہوں نے ایک نظریہ بھی پیش کیا ہے کہ یہ یادیں انکوڈنگ کے بعد بھی برقرار رہتی ہیں — ہم صرف ان تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔
جاری تحقیق میں، پروفیسر ٹرک-براؤن کی ٹیم یہ جانچ رہی ہے کہ آیا شیر خوار، نوخیز اور چھوٹے بچے اُن ہوم ویڈیوز کو یاد رکھ سکتے ہیں جو ان کے اپنے نکتہ نظر سے لی گئی ہوں۔
ابتدائی پائلٹ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ یادیں پری سکول کی عمر تک موجود رہ سکتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ دھندلا جاتی ہیں۔
© The Independent