20 نومبر، 1969 کو کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں قومی مسجد (جسے بعد ازاں فیصل مسجد کا نام دیا گیا) کے نقشے کا بین الاقوامی مقابلہ ترکی کے معروف ماہرِ تعمیر ویدت دلوکے نے جیت لیا۔
جیوری نے متفقہ طور پر ویدت دلوکے کے نقشے کو اول قرار دیا جنہوں نے 90 ہزار روپے کا پہلا انعام بھی جیتا۔
ترکی ہی کے دو ماہرینِ تعمیر سنگیز عزیر اور نہات بندوال کے نقشے بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن کے مستحق قرار دیے گئے۔ ان دونوں کو بالترتیب 30 ہزار اور 20 ہزار روپے کا نقد انعام دیا گیا۔
1965 کے لگ بھگ حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا تھا کہ اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں ایک ایسی مسجد تعمیر کی جائے جو نہ صرف اسلام آباد کے بلند ترین مقام پر تعمیر ہونے کے باعث پورے اسلام آباد کا مرکز نگاہ ہو بلکہ پاکستان کی شناخت بن جائے۔
اس مسجد کے ڈیزائن کے لیے ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کروایا گیا، جس کا اہتمام سی ڈی اے اور ادارہ تعمیرات پاکستان نے بین الاقوامی انجمن ماہرین تعمیرات کی نگرانی میں کیا گیا اور اس میں صرف مسلمان ماہرین کو حصہ لینے کی دعوت دی گئی۔
مقابلے میں 17 ممالک سے47 نقشے موصول ہوئے۔ ان ملکوں میں پاکستان کے علاوہ ترکی، مصر، سعودی عرب، انڈونیشیا، ایران، ملائیشیا، افغانستان، شام، لیبیا، مراکش، عراق اور یوگوسلاویہ شامل تھے۔
ان نقشوں کی جانچ پڑتال کے لیے جیوری کا اجلاس 17 نومبر، 1969 کو شروع ہوا۔
جیوری میں پاکستان، ترکی اور لبنان کے آرکیٹکٹس شامل تھے جب کہ سی ڈی اے کے چیئرمین جنرل کے ایم شیخ اس جیوری کے صدر تھے۔
1966 میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل بن عبدالعزیز پاکستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے مسجد کی تعمیر پر ہونے والے مصارف کا بڑا حصہ اٹھانے کی پیش کش کی جسے حکومت پاکستان نے خوش دلی سے قبول کر لیا۔
اخبار ڈیلی ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق مسجد پر کل ساڑھے چار کروڑ ڈالر خرچ آیا جس میں سے ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا حصہ پاکستانی حکومت نے ڈالا، جب کہ دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر سعودی عرب نے فراہم کیے۔
یہی وجہ تھی کہ جب 1975 میں ان کے قتل کے بعد حکومت پاکستان نے 28 نومبر، 1975 کو اس مسجد کو ان سے موسوم کرنے کا اعلان کر دیا۔
12 اکتوبر، 1976 کو شاہ فیصل کے جانشین شاہ خالد بن عبدالعزیز نے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کی باقاعدہ تعمیر کا آغاز ہو گیا۔
ترکی کے آرکیٹکٹس دنیا بھر میں اپنے منفرد پروجیکٹس کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔
جس زمانے میں قائداعظم کا مزار زیر تعمیر تھا اس زمانے میں بھی ایک ترک آرکیٹکٹ وصفی ایجیلی نے اس مزار کا خوب صورت ڈیزائن تیار کیا تھا جو بوجوہ منظور نہ ہو سکا۔
1974 میں ایک ترک آرکیٹکٹ سیداد حکی ایلدم نے انقرہ میں پاکستان کے سفارت خانے کا ڈیزائن تیار کیا۔
1984 میں دو ترک آرکیٹکٹس ایچ اوزبے اور ٹی بیزبگ نے کراچی میں آواری ٹاور کا ڈیزائن بنایا۔
فیصل مسجد کا ڈیزائن نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں پہلے سے موجود تمام مساجد سے بالکل مختلف تھا۔
اس کا بنیادی خیال ایک وسیع خیمے سے اخذ کیا گیا تھا جس کے چاروں کونوں پر چار بلند و بالا مینار اس مسجد کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ مینار خیمے کو زمین میں گاڑے رکھنے کے لیے لگائی جانے والی میخوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اس ڈیزائن کی تعمیر خاصا مشکل کام تھا مگر پاکستانی تعمیراتی ادارے پاکستان نیشنل کنسٹرکشن کمپنی نے یہ چیلنج قبول کیا۔
10 سال کی شب و روز تعمیر کی بعد دو جون، 1986 مطابق 23 رمضان 1406ہجری کو یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا اور یوں 1965 میں دیکھا گیا خواب دو دہائیوں کے بعد حقیقت کا روپ دھار گیا۔
شاہ فیصل مسجد کا کل رقبہ 46.87 ایکڑ ہے جس میں سے مسجد کے اندرونی ہال کا رقبہ 1.19 ایکڑ ہے۔
ہال میں ایک لاکھ اور ہال سے باہر صحن اور میدان میں مزید دو لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔
1992 میں گینز بک آف ریکارڈ نے فیصل مسجد کو دنیا کی سب سے بڑی مسجد قرار دیا تھا۔
شاہ فیصل مسجد کے آرکیٹکٹ ویدت دلوکے 10 نومبر، 1927 کو ترکی کے شہر ایلازگ میں پیدا ہوئے۔
ایلازگ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ استنبول چلے گئے جہاں انہوں نے 1949 میں استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی سے تعمیرات میں گریجویشن کیا۔
استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ میں کلیمنز ہولز میسٹر اور پال بونیٹز شامل تھے۔
گریجویشن کے بعد انہوں نے ترکی کے منسٹری آف ورکس اور پوسٹ اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ میں خدمات انجام دیں۔
1950 میں وہ پیرس چلے گئے جہاں انہوں نے مشہورِ زمانہ سوربون یونیورسٹی سے اربن اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویشن کے لیے داخلہ لیا مگر اسے مکمل نہ کرسکے۔
تاہم فرانس میں انہیں مشہور آرکیٹکٹ آگستے پیرٹ اور لی کربوزیر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
1954 وہ وطن واپس لوٹے جہاں انہوں نے انقرہ میں اپنی آرکیٹیکچرل فرم قائم کی۔
1964 سے 1968 کے دوران وہ انقرہ چیمبر آف آرکیٹکٹس کے چیئرمین اور ترکش چیمبر آف آرکیٹکٹ کے جنرل سیکریٹری رہے۔
1957 میں انہوں نے انقرہ کی خوجہ تیپے مسجد کا ڈیزائن تیار کیا مگر کچھ مسائل اور تنقید کے باعث ان کا ڈیزائن مسترد کر دیا گیا۔
1969 میں انہوں نے اسلام آباد میں تعمیر ہونے والی قومی مسجد کے ڈیزائن کے بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔
یہ کم و بیش وہی ڈیزائن تھا جو انہوں نے انقرہ کی خوجہ تیپے مسجد کے لیے تیار کیا تھا۔
ویدت دلوکے کے دیگر پروجیکٹس میں اسلامک ڈیولپمنٹ بینک، ریاض، سعودیہ عرب کا نام سرفہرست ہے۔ یہ عمارت 1981 میں تعمیر کی گئی۔
ویدت دلوکے کو عام طور پر شاہ فیصل مسجد کے آرکیٹکٹ کے طور پر ہی جانا جاتا ہے مگر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کی یاد میں تعمیر ہونے والے لاہور کے سمٹ مینار کا ڈیزائن بھی تیار کیا تھا۔
یہ مینار لاہور کے فیصل سکوائر میں پنجاب اسمبلی بلڈنگ‘ واپڈا ہاؤس اور الفلاح بلڈنگ کے عین وسط میں تعمیر کیا گیا۔
سنگ مرمر سے بنا ہوا سمٹ مینار 150 فٹ اونچا اور پانچ مربع فٹ چوڑا ہے۔ مینار کے چاروں طرف سنگ سرخ کی خیمہ نما تختیاں بنی ہوئی ہیں۔
اس سمٹ مینار کا سنگ بنیاد وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے 22 فروری، 1975 کو رکھا تھا اور اس کا افتتاح 22 فروری، 1977 کو ہوا۔
ویدت دلوکے نے پاکستان کے دو اور پروجیکٹس پر بھی کام کیا، جن میں ایوان صدر اسلام آباد کی مسجد اور وزیراعظم ہاؤس کا سیکریٹریٹ شامل ہے۔
ویدت دلوکے کو سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ 1973 میں انہوں نے رپبلکن پیپلز پارٹی کی جانب سے انقرہ کے میئر کے انتخاب میں حصہ لیا اور یہ انتخاب 62 فیصد ووٹوں سے جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔
وہ اس عہدے پر 10 دسمبر، 1973 سے 12 دسمبر، 1977 تک فائز رہے۔
ویدت دلوکے کا کہنا تھا کہ انقرہ ترکی کا نمائندہ ترین شہر ہے جسے ترکی کا شوکیس ہونا چاہیے، چنانچہ ان کے دور میں اس شہر میں ٹریفک جام سمیت بیشتر مسائل حل ہو گئے۔
میئر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعدویدت دلوکے آرکیٹکٹ کی حیثیت سے دوبارہ پریکٹس کرنے لگے۔
21 مارچ، 1991 کو وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک کار میں سفر کر رہے تھے کہ حادثے کا شکار ہو گئے۔
اس حادثے میں وہ، ان کی اہلیہ عائشہ دلوکے اور بیٹا بارس دلوکے بھی چل بسے۔
ویدت دلوکے کو پاکستان اور بانی پاکستان سے بہت عقیدت تھی چنانچہ اپنی میئر شپ کے زمانے میں انہوں نے انقرہ کی ایک اہم سڑک کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب کیا۔
اس اہم سڑک پر جرمنی، افغانستان، سوئیڈن، بھارت، ہنگری اور سابق یوگوسلاویہ کے سفارت خانے قائم ہیں۔
14 اگست، 1987 کو یوم آزادی کے موقعے پر حکومت پاکستان نے بھی انہیں ستارۂ پاکستان کااعزاز عطا کرنے کا اعلان کیا جو انہیں 23 مارچ، 1988 کوایک باوقار تقریب میں پیش کیا گیا۔
(ایڈیٹنگ : ظفر سید)