یہ 1915 کی بات ہے جب ہندوستان میں مقیم کچھ انقلابی افغانستان میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے وہاں پر ہندوستان کی ایک متوازی حکومت بنانے کی منصوبہ بندی کی۔
ان انقلابیوں میں مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا عبید اللہ سندھی اور راجہ مہندر پرتاپ کے نام شامل تھے۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی 7 جولائی 1854کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ انہیں ان کے والدین نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان بھیجا تھا، جہاں انہوں نے ہندوستان کو آزاد کروانے کے لیے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔
اسی زمانے میں ان کی ملاقات جمال الدین افغانی سے بھی ہوئی۔ جلد ہی مولانا برکت اللہ بھوپالی کو ہندوستان سے باہر مختلف ممالک میں اپنے ہی جیسے چند سرفروش اور مل گئے، جن کی مدد سے انہوں نے مختلف ممالک میں ہندوستان کو آزاد کروانے کے لیے متعدد تنظیمیں قائم کردیں۔
ان تنظیموں میں جاپان میں قائم ہونے والی تنظیم The Islamic Fraternity، امریکہ میں قائم ہونے والی غدر پارٹی، جرمنی کی تنظیم برلن انڈین نیشنل پارٹی اور افغانستان کی جلاوطن حکومت موقتہ ہند (Provisional Government of India) کے نام سرفہرست تھے۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی اپنے ساتھیوں کے ساتھ 2 اکتوبر 1915 کو کابل پہنچے۔ 15 اکتوبر 1915 کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے نمائندے کے طور پر مولانا عبید اللہ سندھی بھی کابل پہنچ گئے۔ یہ دونوں رہنما ایک دوسرے سے ناواقف تھے مگر جب ان کی ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ دونوں کے مقاصد یکساں ہیں۔
حکومت موقتہ ہند کے قیام کے لیے مولانا برکت اللہ بھوپالی نے اپنے قدیم دوست سردار نصر اللہ خان سے رابطہ کیا جو اپنے بڑے بھائی امیر حبیب اللہ خان کی حکومت میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھے اور افغانستان کی اصل حکومت بھی وہی چلا رہے تھے۔
سردار نصر اللہ خان انگریزوں کے شدید مخالف تھے چنانچہ انہوں نے مولانا برکت اللہ بھوپالی کے منصوبے کی حوصلہ افزائی کی اور امیر حبیب اللہ خان سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ امیر حبیب اللہ خان اگرچہ انگریز نواز تھے مگر انہوں نے اس انقلابی منصوبے کی تائید کی۔
29 اکتوبر 1915 کو مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا محمود الحسن، راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اور مولانا عبید اللہ سندھی کا ایک خفیہ اجلاس سردار نصراللہ خان کے معتمد خاص عبدالرزاق خان کے مکان پر منعقد ہوا۔
اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ضروری تیاریوں کے بعد بہت جلد افغانستان کی سرزمین پر ہندوستان کی متوازی حکومت یعنی حکومت موقتہ ہند (Provisional Goverment of India) کے قیام کا اعلان کیا جائے گا۔
اس فیصلے کے مطابق یکم دسمبر 1915 کو یہ حکومت قائم کردی گئی۔ ہندوستان کی اس متوازی حکومت میں راجہ مہندر پرتاپ کو تاحیات صدر، مولانا برکت اللہ بھوپالی کو وزیراعظم، مولانا عبیداللہ سندھی کو وزیر داخلہ اور مولوی محمد علی قصوری کو وزیر خارجہ بنایا گیا اور ترکی کے کپتان کاظم بے کو عارضی طور پر وزارت دفاع سونپی گئی۔
ایک اور انقلابی محمد علی کو حکومت کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا مگر جب وہ اپنی دیگر ذمہ داریوں کے لیے ہندوستان بھیج دیے گئے تو ان کی جگہ ظفر حسن جنرل سیکریٹری مقرر کر دیے گئے۔ افغانستان اور جرمنی نے ہندوستان کی اس متوازی حکومت کو فوراً تسلیم کرلیا۔
ہندوستان کی اس متوازی حکومت کا قیام تاریخ کا ایک انمٹ واقعہ ہے، جس سے جدوجہد آزادی کا ایک سنہری دور وابستہ ہے۔
اس جلاوطن حکومت کی سب سے اہم کڑی جنود اللہ (خدائی فوج) کی تشکیل تھا، یہ جنود اللہ مولانا محمود الحسن نے تیار کی تھی اور اس کے کمانڈر عبیداللہ سندھی تھے۔
اس فوج کی تشکیل کا مقصد ایک جانب ترکی کی حکومت کو تقویت پہنچانا تھا اور دوسری طرف ہندوستان پر حملہ کرکے اسے انگریزوں سے آزاد کروانا تھا۔ مولانا محمودالحسن ان دنوں سرزمین حجاز میں مقیم تھے۔ انہوں نے اپنی اس اسکیم کے سلسلے میں دولت عثمانیہ کے وزیر جنگ غازی انور پاشا، وزیر بحریہ جمال پاشا اور گورنر حجاز غالب پاشا کو اعتماد میں لیا اور غالب پاشا کے ایک خط کو جو بعد میں غالب نامہ کے نام سے موسوم ہوا، خفیہ طریقے سے ہندوستان پہنچا دیا۔ ہندوستان سے یہ خط بڑی احتیاط کے ساتھ مولانا عبید اللہ سندھی تک پہنچا دیا گیا۔
ادھر افغانستان میں مولانا عبید اللہ سندھی اگلے مرحلے کے طور پر جنود اللہ کے نام سے مجاہدین کی ایک فوجی تنظیم تشکیل دے چکے تھے، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ 19 فروری 1917کو ہندوستان پر حملہ کرکے ہندوستان کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروالے۔
نو جولائی 1916 کو مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنے منصوبے کی تمام تفصیلات زعفرانی رنگ کے ایک ریشمی رومال پر لکھ کر ایک طالب علم عبدالحق کے ذریعے سندھ کے ایک رہنما شیخ عبدالرحیم کو بھجوائیں تاکہ وہ اسے حجاز میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن تک پہنچا دیں مگر بدقسمتی سے یہ طالب علم عبدالحق راستے میں ملتان میں اپنے آقا خان بہادر حق نواز کے پاس جاپہنچا۔
حق نواز انگریزوں کا نمک خوار تھا۔ اس نے باتوں باتوں میں عبدالحق سے تمام راز اگلوا لیا اور اسے اپنے انگریز آقاؤں تک پہنچا دیا۔انگریزوں نے اس اطلاع پر فوری کارروائی کرکے ریشمی رومال پر قبضہ کرلیا اور یوں ہندوستان کی آزادی کی یہ تحریک وقت آنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔
بتایا جاتا ہے کہ جب انگریزوں کو موقتہ ہند کی اس متوازی حکومت کی تشکیل اور ہندوستان پر حملے کے منصوبے کا علم ہوا تو اس نے امیر افغانستان کو آٹھ کروڑ روپے رشوت دے کر اس حملے سے باز رکھا۔
ادھر مولانا برکت اللہ بھوپالی کوشش کرتے رہے کہ روس، جرمنی یا ترکی کی فوجی مدد سے ہندوستانی سرحدوں پر حملے کیے جائیں مگر وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔
1916 میں انہوں نے زار روس نکولس دوم کو اپنی جدوجہد سے مطلع کیا اور مدد کی خواہش ظاہر کی، مگر زار روس اس وقت خود سیاسی اعتبار سے سخت پریشان تھا، اس لیے حکومت موقتہ ہند کے اکابر کی اس تجویز پر کسی مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی اور راجہ مہندر پرتاپ نے انقلاب روس کے بعد 1919 میں روس کا دورہ بھی کیا اور لینن سے بھی ملاقات کی۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی 1922 تک روس میں ہی قیام پزیر رہے۔ پھر وہ جرمنی چلے گئے جہاں انہوں نے ایک رسالہ بھی نکالا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے برسلز کانفرنس میں شرکت بھی کی۔
1927 میں انہوں نے امریکہ کا سفر کیا، نیویارک پہنچے تو انہیں بیماری نے گھیرلیا۔ وہ کیلیفورنیا چلے گئے جہاں 27 ستمبر 1927 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی اپنے وطن کی آزادی نہیں دیکھ سکے۔ اب حکومت ہند نے ان کی خدمات کے اعتراف میں بھوپال یونیورسٹی کو ان سے موسوم کردیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راجہ مہندر پرتاپ سنگھ روس سے نکلے تو جرمنی اور ترکی چلے گئے۔ انگریز حکومت نے ان کے سر کی قیمت مقرر کردی جس کے بعد انہوں نے ایک طویل عرصہ جاپان میں بسر کیا۔ وہ 9 اگست 1946 کو وطن واپس لوٹے۔ انہیں نوبیل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ 1957 میں لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ 29 اپریل 1979 کو ان کا انتقال ہوگیا۔
تحریک آزادی کے معروف رہنما اور دینی بزرگ مولانا عبید اللہ سندھی 10 مارچ 1872 کو سیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصلی نام بوٹا سنگھ تھا۔ ان کے والد رام سنگھ کا انتقال ان کی پیدائش سے چار ماہ قبل ہوگیا تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ 15 برس کی عمر میں اسلام کی جانب مائل ہوئے۔ اس دوران انہوں نے حافظ محمد لکھوی کی کتاب احوال الآخرۃ، مولانا عبیداللہ کی تحفہ الہند اور سید اسماعیل شہید کی تقویۃ الایمان کا مطالعہ کیا اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔
اعزہ نے تنگ کیا تو وہ سندھ چلے آئے اور یہاں حافظ محمد صدیق بھرچونڈوی کی صحبت میں اسلامی معاشرت ان کے مزاج کا حصہ بن گئی۔ 1888 میں وہ مشہور درس گاہ دارلعلوم دیوبند میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے اور پھر گنگوہ میں مولانا رشید احمد گنگوہی سے صرف و نحو اور فقہ و حدیث کی مختلف کتابیں پڑھیں۔
1890 میں وہ واپس سندھ پہنچے اور درس و حدیث شروع کردیا۔ مولانا سندھی کی تربیت جس ڈھب سے ہوئی تھی اس نے ان کی سوچ کو انقلابی بنادیا اور وہ اپنے وطن کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے کے لیے بے چین رہنے گئے۔
1905 میں وہ شیخ الہند کے حکم پر خفیہ طور پر ہجرت کرکے کابل چلے گئے جہاں انہوں نے تحریک ریشمی رومال کو منظم کیا مگر یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی چنانچہ وہ افغانستان سے روس اور پھر ترکی اور پھر مکہ معظمہ چلے گئے۔
مولانا سندھی 1939 میں وطن واپس لوٹے اور جامعہ ملیہ دہلی میں درس و تدریس کے شغل سے وابستہ ہوگئے۔ ان کے معروف تلامذہ میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی اور خواجہ عبدالحئی فاروقی کے نام قابل ذکر ہیں۔
22 اگست 1944کو مولانا عبید اللہ سندھی خان پور میں وفات پاگئے۔