تعلقات کو بہتر بنانے کے جتنے بھی طریقے ہیں ان میں بے وفائی بالکل بھی سرفہرست نہیں۔ مشہور شخصیات کا اس کی وجہ سے بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ مشہور گلوکارہ بیونسے نے اس کے بارے میں ایک مکمل البم لکھا۔ یہاں تک کہ یہ مسیح کے دس احکامات میں بھی شامل ہے۔ اس سب کے باوجود ’دی وائٹ لوٹس‘ کے دوسرے سیزن میں شو کے سب سے زیادہ پریشان کن تعلقات کو بچانے کی کنجی بظاہر تمام کرداروں کا سب سے بڑا رومانوی گناہ یعنی دھوکہ دہی نظر آتی ہے۔
سسلی میں دھوپ سے نہائے ہوئے لگژری ہوٹل میں چھٹیاں گزارنے والے انتہائی مالدار لوگوں کے بارے میں مائیک وائٹ کے ایوارڈ یافتہ طنزیہ سیزن میں ایسا لگتا ہے کہ خود پسندی میں مبتلا نو دولتی دانشور ہارپر اور ایتھن کے درمیان دھوکہ دہی کے سبب شادی کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ کردار آبری پلازا اور ول شارپ نے ادا کیے ہیں۔
اس کے برعکس جس جوڑے کے ساتھ وہ چھٹیاں منا رہے ہیں، ایتھن کے کالج سے تعلق رکھنے والے شدید جنس زدہ دوست کیمرون (تھیو جیمز) اور اس کی ٹیڈ لاسو سے محبت کرنے والی بیوی ڈیفنی، میگن فاہی سب ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہیں، یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے آپ کو متلی ہونے لگتی ہے۔ اگرچہ یہ سیریز ابھی تک جاری ہے لیکن آثار بتاتے ہیں کہ کیمرون اور ڈیفنی کا رشتہ ’نہ پوچھو، نہ بتاؤ‘ کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ ہارپر اور ایتھن ایمانداری پر فخر کرتے ہیں۔
اگرچہ جب ایتھن ایک سیکس ورکر کو بوسہ دیتا ہے اور پھر اس خیال پر بضد ہو جاتا ہے کہ ہارپر اور کیمرون ایک ساتھ سوئے ہیں تو یہ سب تعلقات بکھرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اپنے شوہر کی بے حسی سے تنگ آ کر بالآخر ہارپر اعتراف کرتی ہے کہ کیمرون نے اسے بوسہ دیا ہے۔ مزید مناظر سے ہمیں یقین ہونے لگتا ہے کہ ایتھن اور ڈیفنی نے بدلہ لینے کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ خود ہی مختصر جنسی تعلق گانٹھ لیا ہو گا۔ تاہم سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ہارپر اور ایتھن کے لیے یہ لامتناہی شک ان کے بیمار تعلقات میں نئی روح پھونک دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کا واحد جنسی منظر سامنے آتا ہے۔
زیادہ تر جوڑوں کے لیے دھوکہ دہی یا بےوفائی تعلق کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی ہے۔ لیکن چند ایک کے لیے جیسا کہ ڈیفنی کہتی ہے یہ ’معاملات کو خوشگوار بنا دیتا‘ ہے۔ کیا ان کی بات صحیح ہو سکتی ہے؟ کیا آپ کی اپنے ساتھی کے ساتھ دھوکہ دہی اتنا کرنٹ پیدا کر سکتی ہے کہ آپ کے موجودہ تعلقات میں نئی روح پھونک دے؟
ایسی چیز کی روایتی ڈھانچے میں بمشکل گنجائش ہے اور یقیناً یہ بات درست ہے کہ چال بازیوں اور جھوٹ پر مبنی تعلق زیادہ تر لوگوں کے لیے کارگر نہیں ہوتا لیکن دھوکہ دہی کے بارے میں سماجی خیالات کو تبدیل کرنا عصری تعلقات کے موضوعات میں تیزی سے عام ہوتا جا رہا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ ریلیشنز تھراپسٹ ایستھر پیریل کی 2017 میں شائع ہونے والی کتاب ’دی سٹیٹ آف افیئرز: ریتھینکنگ انفیڈیلیٹی The State of Affairs: Rethinking Infidelity کو دیکھیے جس نے دھوکہ دہی کے لیے زیادہ ہمدردانہ انداز اختیار کرنے پر زور دیا ہے جو اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ لوگ دھوکہ کیوں دیتے ہیں اور اس اعتراف کی گنجائش پیدا کرتا ہے کہ ’محبت اور ہوس کی پیچیدگیاں اچھے اور برے، مظلوم اور مجرم کے سادہ زمرے میں نہیں آتیں۔‘
اسی کو پھیلا کر بیان کرتے ہوئے پیریل نے جو کہا تھا وہ معروف بات ہے کہ ’خوش رہنے والے لوگ دھوکہ دیتے ہیں۔‘ یہ ماضی میں بھی اور آج بھی ایک اہم نقطہ نظر ہے جو محبت کے بارے میں سکھائی گئی ہر چیز سے الٹ ہے۔ لیکن شاید اس میں کچھ جان ہے۔
تعلقات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنے والے ادارے ریلیٹ سے وابستہ کونسلر ہولی رابرٹس کہتی ہیں کہ ’دھوکہ دہی ایک نہایت بھاری بھرکم لفظ ہے جو اکثر ہماری آرا کو ایسے تقسیم کر دیتا ہے کہ ہم باریک بینی سے اس کے متعلق سوچ نہیں سکتے۔ لوگ بعض اوقات اس وقت ’دھوکہ دیتے ہیں‘ ہیں جب وہ اپنے آپ میں یا اپنے رشتے میں کسی شے کی کمی محسوس کر رہے ہوں یا وہ کسی ایسی جذباتی ضرورت کی تکمیل کی تلاش میں ہوں جسے وہ خود پورا نہیں کر سکتے۔‘ لیکن اس سے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ’دھوکہ دہی ایک شخص کو وہ جذباتی ضرورت پورا کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے جس سے انہیں تکمیل کا احساس اور ان کی عمومی خوشی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یقیناً ہمارے وائٹ لوٹس جوڑوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے جو اپنی بے وفائیوں کے بعد اٹلی سے نکلتے ہوئے پہلے سے کہیں زیادہ محبت سے بھرے ہوتے ہیں۔ ایمانداری کو اکثر صحت مند تعلقات کے معیار کے طور پر سراہا گیا ہے لیکن شاید ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔
تعلقات کی ماہر نفسیات ڈاکٹر میڈیلین میسن رون ٹری بتاتی ہیں کہ ’کچھ واقعات میں (ایمانداری) مددگار نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر بعض جوڑے ایسے ہیں جن کے درمیان یہ طے شدہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے علاوہ بھی جنسی تعلقات رکھ سکتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو ان کے بارے میں نہیں بتائیں گے۔ اس طرح کے جوڑوں کے لیے کچھ اور چیزیں زیادہ ترجیح رکھتی ہیں۔‘
وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مثال کے طور پر ممکن ہے وہ تعلقات کے ان پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دیتے ہوں جن کا تعلق جذباتی وفاداری کی نسبت شادی کے ساختیاتی اور رسمی پہلو سے زیادہ ہو۔‘
’اس طرح کی قطعی اصطلاحات میں سوچنے سے گریز فائدہ مند ہو سکتا ہے کہ دھوکہ دینے والا مجرم کے برابر ہے اور جسے دھوکہ دیا گیا وہ مظلوم ہے۔
یہ ایک ایسا تصور ہے جو عصری تعلقات کے رجحانات کے ذریعہ آہستہ آہستہ مجسم ہو رہا ہے۔ ایتھیکل نان مونوگیمی (ای این ایم) کو ہی دیکھ لیجیے، یہ ایک اصطلاح ہے جو ایک سے زیادہ ساتھیوں سے تعلقات کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، جہاں ہر کوئی محبت کرنے کے اس نئے طریقے سے پوری طرح واقف اور اسے قبول کرتا ہے۔ یہ ناقابل یقین حد تک مقبول ہو رہا ہے، امریکہ میں پانچ میں سے ایک سے زیادہ افراد ای این ایم تعلقات کا حصہ ہیں۔ یہ مین سٹریم ڈیٹنگ ایپ استعمال کرنے والوں کے لیے بھی ایک آپشن بن گیا ہے، جس میں ہنج (Hinge) نے حال ہی میں ای این ایم کو ’رشتوں کی اقسام‘ میں سے ایک کے طور پر متعارف کروایا ہے جسے صارفین استعمال کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر میسن رون ٹری کہتی ہیں کہ ’زیادہ تر رومانوی رشتوں میں ایک ہی ساتھی کی توقع کی جاتی ہے۔ اس توقع کے برعکس کچھ کرنے پر کھونے اور مسترد ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جوڑوں کے درمیان اعتماد ڈگمگا جانا، جس کے نتیجے میں رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘
تاہم شاید کچھ جوڑوں کی کامیابی کا راز اپنے آپ کو اس توقع سے مکمل طور پر آزاد کرنا ہے، جیسے ڈیفنی اور کیمرون نے کیا۔ رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ساتھیوں کے لیے وہ سب کچھ بننا مشکل ہو سکتا ہے جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ بنیں، ایک بہترین دوست، ایک عاشق، ایک پلے میٹ، ہمارا محافظ۔ بعض اوقات اضافی ساتھی کا ہونا ان ضروریات کو پورا کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔‘
یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ دھوکہ دہی یا بےوفائی سے تعلقات میں مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں جتنا ایک ساتھی کا دوسرے کے ساتھ سونا۔ رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کی قطعی اصطلاحات میں سوچنے سے گریز اس تفہیم میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، جیسا کہ دھوکہ دینے والا مجرم کے برابر ہے اور جسے دھوکہ دیا گیا وہ مظلوم ہے۔ اس سے دھوکہ دہی کرنے والے شخص پر الزام اور شاید اسے شیطان صفت بنا دیا جاتا ہے۔ اگر ہم اس طرح سوچتے ہیں تو یہ دھوکہ دینے والے کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ’اپنے گناہوں کا کفارہ‘ کرے اور متاثرہ فرد کو بے قصور ٹھہرایا جائے۔ ایسا سوچنا ہمارے لیے یہ سمجھنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے کہ دھوکہ کیوں دیا گیا اور تعلقات کی خرابی میں دونوں لوگوں نے کیا کردار ادا کیا۔‘
وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ بہت سے لوگوں کے لیے دھوکہ دہی ناقابل معافی ہے۔ یہ بےوفائی کے مترادف ہے۔ اعتماد کی کمی واقعی میں کسی دوسرے شخص کے ساتھ ہمارے جذباتی رشتے میں ہمیں کمزور کرتی ہے جس کا نتیجہ سرد مہری اور دوری کا احساس ہو سکتا ہے۔‘ اس سے تناؤ اور ناراضگی بڑھے گی۔ ’ہم اپنے ساتھی کے ہاتھوں مسترد ہونے سے بچنے کے لیے حصار کھینچتے ہیں۔ ہم میں سے جس نے دھوکہ دیا ہے وہ ممکن ہے اپنے ساتھی کے قریب جانے کے لیے خود کو تیار نہ کر سکے۔ اس سے رشتہ جلد ٹوٹ سکتا ہے۔‘
تاہم ایک ای این ایم رشتے میں یا ڈیفنی اور کیمرون کی طرح اس کی مختلف حالتوں میں دھوکہ دینا واقعی کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ آپ کا اپنے پارٹنر کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ساتھ سونا ایک قبول شدہ اور باہمی رضامندی پر مبنی چیز ہے۔
یقینا یہ سب کے لیے کارگر نہیں ہو گا۔ مزید یہ کہ کسی ایسے مقام تک پہنچنے کے لیے بہت کچھ پہلے سے سیکھا ہوا بھلانا پڑے گا جہاں ایک سے زیادہ ساتھی رکھنا رشتے کی حتمی صورت نہ ہو۔ لیکن اگر وائٹ لوٹس ہمیں محبت کے بارے میں کچھ سکھاتا ہے تو وہ یہ ہے کہ دھوکہ دہی سے متعلق سوچنے کے ایک سے زیادہ طریقے ہیں۔ جیسا کہ ہماری عظیم نجومی ڈیفنی کہتی ہیں کہ اگر یہ نیا خیال آزمانے سے آپ مظلوم فریق نہیں بنتے تو پھر یہ اس قابل ہے کہ اسے کر گزرا جائے۔
© The Independent