سائنس دانوں نے زندہ خلیوں کی مدد سے انسانی جلد جیسا تھری ڈی پرنٹڈ نمونہ تیار کر لیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت سے جانوروں پر تجربات کیے بغیر کاسمیٹکس کی آزمائش ممکن ہو سکے گی۔
انڈیا کے ویلور انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سمیت مختلف اداروں سے وابستہ محققین کا کہنا ہے کہ یہ مصنوعی جلد انسانی جلد کے قدرتی تین سطحوں پر مشتمل بافتی ڈھانچے کی مکمل نقل ہے، اور اب کاسمیٹکس میں استعمال ہونے والے انتہائی چھوٹے ذرات کی آزمائش کے لیے تیار ہے۔
یہ تحقیق سائنسی جریدے سٹار پروٹوکولز میں شائع ہوئی اور ایسے وقت سامنے آئی جب یورپی یونین میں کاسمیٹکس اور ان کے اجزا کی جانوروں پر آزمائش کے حوالے سے پابندیاں عائد ہیں۔
دنیا بھر میں سائنس دان دھوپ سے حفاظت کے لیے استعمال ہونے والی کریموں اور محلول کی شکل میں دستیاب کاسمیٹکس کی جلد میں جذب ہونے کی صلاحیت اور ان کے زہریلے پن کی جانچ کے لیے متبادل طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
تازہ ترین تحقیق میں سائنس دانوں نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے انسانی جلد سے مشابہہ ساختیں بنانے کا طریقہ کار فراہم کیا ہے۔
تحقیق میں سائنس دان لکھتے ہیں: ’یہ عمل سادہ، کم خرچ، ماحول دوست ہے اور اس میں علاج کی ضروریات بدل کر کے حسب ضرورت تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔‘
محققین کے مطابق یہ مصنوعی جلد بنانے کی شروعات ایک ہائیڈروجل فارمولے سے ہوتی ہے، جسے جیتے جاگتے خلیوں کے ساتھ پرنٹ کیا جاتا ہے۔
یہ جیلز، جن میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، خلیوں کی نشوونما کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔
آسٹریا کی ٹی یو گراز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی نئی تحقیق کی شریک مصنفہ کارن ستانا کلائنشیک کہتی ہیں کہ ’تھری ڈی پرنٹر سے بننے والی ہماری مصنوعی جلد کے لیے جو ہائیڈروجل استعمال ہوتا ہے، اسے کئی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔‘
’ہائیڈروجیلز کو جلد کے زندہ خلیوں کے ساتھ تعامل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ ان خلیوں کا صرف زندہ رہنا کافی نہیں، بلکہ ان کا بڑھنا اور تقسیم ہونا بھی ضروری ہے۔‘
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہائیڈروجل پر بننے والے خلیوں کو زہریلے کیمیکل استعمال کیے بغیر مستحکم بھی کرنا ہوتا ہے۔
محققین وضاحت کرتے ہیں کہ ’جب جلد کے خلیے ہائیڈروجل میں دو سے تین ہفتے تک سیل کلچر میں زندہ رہیں اور جلد کا ٹشو بنانا شروع کر دیں تبھی ہم اسے جلد کی مشابہہ نقل کہہ سکتے ہیں۔
’یہ مصنوعی جلد پھر کاسمیٹکس پر مزید خلیاتی تجربات کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تھری ڈی پرنٹڈ جلدی خلیوں پر کیے گئے ابتدائی تجربات ’انتہائی کامیاب‘ ثابت ہوئے۔
وہ لکھتے ہیں: ’یہ ٹی یو گراز اور وی آئی ٹی میں ہونے والی باہمی تحقیق کی بڑی کامیابی ہے۔ ٹشو کی نقلی ساختوں کے لیے تحقیق میں ہماری برسوں کی مہارت اور وی آئی ٹی کی مالیکیولر اور سیل بائیولوجی میں مہارت ایک دوسرے کی بہترین تکمیل بنیں۔‘
ڈاکٹر کلائنشیک کہتی ہیں کے مطابق: ’ہم اب مل کر ہائیڈروجل کی تیاری کو مزید بہتر بنانے اور جانوروں پر تجربات کے متبادل کے طور پر ان کی افادیت کو پرکھنے پر کام کر رہے ہیں۔‘
محققین کے مطابق یہ نیا طریقہ کار ایسے پائیدار بائیو مواد تیار کرنے کا راستہ بھی فراہم کرتا ہے جو بافتوں کی مرمت اور بحالی کی ادویات میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
© The Independent