قارئین، ہم پچھلے ایک سال سے جس گھڑی سے ڈر رہے تھے وہ دو دن پہلے ہم پر آ کر گزر بھی چکی۔ ہوا کچھ یوں کہ دو روز قبل ہم نے بلاگ لکھنے کے لیے لیپ ٹاپ آن کیا تو وہ آن ہوتے ہی آف ہو گیا۔ ہمیں یہی ہونے کا ڈر تھا۔ ایک تو اتنا پرانا لیپ ٹاپ اوپر سے ہم نے اس کا استعمال بھی خالص دیسی طریقے سے کیا۔ اس کی بس نہ ہوتی تو کیا ہوتی۔
تھیسس پہلے ہی گوگل ڈرائیو پر چڑھا چکے تھے سو اس کی بچت ہو گئی البتہ دفتر کا بہت سا کام ضائع گیا۔
دوسری اچھی بات یہ ہوئی کہ یہ سانحہ ہمارے چین میں ہوتے ہوئے ہوا۔ اگر ایسا ہمارے پاکستان پہنچنے کے بعد ہوتا اور ہم نے اس کی حالت پر بھروسہ کرتے ہوئے یہاں سے نیا لیپ ٹاپ نہ لیا ہوتا تو شاید اس وقت ہم رو رہے ہوتے۔ ہم پاکستان سے دو مرتبہ لیپ ٹاپ خریدنے کی غلطی کر چکے ہیں اور تیسری مرتبہ نہیں کرنا چاہتے۔
ہم نیا لیپ ٹاپ تو اگلے ماہ ہی خریدیں گے۔ لیپ ٹاپ بنانے والی ہر کمپنی یہاں موجود ہے۔ ایک دو روز میں کسی بھی کمپنی کی قریبی دکان پر جائیں گے اور نیا نکور لیپ ٹاپ اصل حالت میں خرید لائیں گے۔ پاکستان میں بہر حال لیپ ٹاپ خریدنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
ہم نے یہ لیپ ٹاپ ایک دوست کی مدد سے لاہور کی ایک مشہور مارکیٹ سے خریدا تھا۔ ہمیں استعمال شدہ چیزیں نہیں پسند۔ ہم ہمیشہ نئی چیز خریدنے کی ہی کوشش کرتے ہیں، اس لیے ہم نے لیپ ٹاپ بھی نیا خریدا تھا۔ تین ماہ بعد ہی لیپ ٹاپ کی ڈی وی ڈی ڈرائیو خراب ہو گئی۔ ہم وارنٹی کلیم کرنے دکان پر پہنچے تو پتا لگا کہ ہمارے لیپ ٹاپ کی انٹرنیشنل وارنٹی تھی جس کا پاکستان میں دعویٰ عائد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں جو وارنٹی کلیم ہوتی ہے اسے لوکل وارنٹی کہا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس وارنٹی کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ لیپ ٹاپ سیلر خود ہی لوکل مارکیٹ سے پرزے خرید کر مشین ٹھیک کر دیتے ہیں۔ آپ کا کام مفت میں ہو جاتا ہے لیکن مشین کسی اناڑی کے ہاتھوں کھل چکی ہوتی ہے اور اس میں نقلی پرزہ بھی لگ چکا ہوتا ہے۔
دکان دار کے مطابق ہمارے پاس دو راستے تھے۔ یا تو خود پیسے دے کر ڈرائیو ٹھیک کرواتے یا پیسے لگا کر لیپ ٹاپ بیرون ملک موجود کمپنی کے وارنٹی سنٹر بھیجتے اور وہاں سے وارنٹی کلیم کرواتے۔ اس میں مہینوں لگ سکتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم دو ماہ بعد چین جا رہے تھے۔ ہم نے کہا ہم اپنا لیپ ٹاپ وہیں سے ٹھیک کروا لیں گے۔ چین میں ہر کمپنی موجود ہے اور ہمارا لیپ ٹاپ ایک چینی کمپنی کا ہی تھا۔ دکان دار کا چہرہ دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں تھا جتنا ہم سمجھ رہے تھے۔ ہمیں نئے لیپ ٹاپ کے نام پر دھوکہ بیچا گیا تھا۔ ہم جس لیپ ٹاپ کو نیا سمجھ رہے تھے وہ ہم سے پہلے کوئی اور خرید کر بیچ چکا تھا۔ اس دوران جانے کتنی بار کھولا اور بند کیا گیا تھا۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ اس وقت لیپ ٹاپ کی دو ماہ کی وارنٹی موجود تھی۔ وہ دو ماہ بھی گزر جاتے تو ہمیں اپنے خرچ پر لیپ ٹاپ ٹھیک کروانا پڑتا۔
چین پہنچنے کے کچھ ہفتے بعد ہم اپنی یونیورسٹی کے قریب کمپنی کے سروس سینٹر پہنچ گئے۔ کاؤنٹر پر مسئلہ بتایا۔ انہوں نے خریداری کی رسید مانگی۔ ہمارا وارنٹی پیریڈ چیک کیا اور لیپ ٹاپ ٹھیک کرنے کے لیے اندر اپنی ٹیم کو بھیج دیا۔ انہوں نے نہ صرف ڈی وی ڈی روم بدلا بلکہ بیٹری بھی تبدیل کی۔ سروس کے بعد لیپ ٹاپ بالکل نیا ہو گیا تھا۔ اس نے پھر ہمارا بہت ساتھ دیا۔ ابھی بھی دے رہا تھا۔ پچھلے ہفتے اس کی بس ہو گئی تو بند ہو گیا ورنہ ہمارا ارادہ تو اسی پر پی ایچ ڈی مکمل کرنے کا تھا۔
ہمارا لیپ ٹاپ اس واقعے کے دو سال بعد پھر خراب ہوا تھا۔ اس وقت ہم پاکستان میں تھے۔ ہم نے اسے ٹھیک کروانے کی بجائے نیا لیپ ٹاپ خریدنے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں اپنا پچھلا تجربہ یاد تھا۔ دوبارہ ویسا تجربہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے دو ہفتے لگا کر انٹرنیٹ کنگھالا۔ ہمیں پتہ چلا کہ لیپ ٹاپ بنانے والی کمپنیاں پاکستان میں کچھ ڈیلروں کے ذریعے کاروبار کرتی ہیں۔ ہم نے ایک کمپنی کی ویب سائٹ سے لاہور میں ان کے ایک ڈیلر کا پتہ لیا اور اگلے روز وہاں سے لیپ ٹاپ خریدنے پہنچ گئے۔
ہم نے دکان دار کو صاف صاف بتایا کہ ہمیں اصل مشین چاہیے۔ وارنٹی ایسی ہو کہ دنیا میں کہیں بھی کلیم ہو جائے کیونکہ ہم پھر سے ملک سے بھاگنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس کے باوجود ہمیں جو لیپ ٹاپ دیا گیا وہ سمگل شدہ تھا۔ ہم پر یہ انکشاف چار ماہ بعد ہوا جب لیپ ٹاپ اچانک چلتے چلتے بند ہو گیا۔
ہم لیپ ٹاپ لے کر دکان پر پہنچے اپنا مسئلہ بتایا دکان دار نے کہا، ’یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ وارنٹی میں ٹھیک ہو جائے گا۔‘
ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وارنٹی میں ٹھیک کرنے سے ان کی مراد اپنے خرچ پر مارکیٹ سے پرزہ خرید کر خراب پرزے سے تبدیل کرنا تھا۔ ہم نے چونکہ کمپنی کی ویب سائٹ سے اس ڈیلر کا پتہ لیا تھا تو ہم ان کی اس حرکت اور غلط بیانی پر بہت سیخ پا ہوئے۔ ہم نے کمپنی کے پاکستان آفس کو درجن بھر ای میلز میں پورا واقعہ بتایا۔ ان کی مداخلت پر ڈیلر نے جھوٹ بول دیا کہ ’لیپ ٹاپ پر پانی گرا ہوا تھا۔ ہم تو دیکھ کر ہی سمجھ گئے تھے۔ انہیں نہیں بتایا۔ ہم لیپ ٹاپ انسانی ہمدردی کے تحت ٹھیک کر رہے تھے ورنہ اس کی وارنٹی بنتی نہیں تھی۔‘
ہم ان کے جھوٹ پر حیران رہ گئے۔ پاکستانی اپنا بخار کسی کو نہ دیں اور یہ صاحب انسانی ہمدردی میں ہمارا لیپ ٹاپ ٹھیک کر رہے تھے؟ ہم نے لیپ ٹاپ واپس لینے سے انکار کر دیا۔ کمپنی کے پاکستان آفس نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ڈیلر کا نام کمپنی کی ویب سائٹ سے ہٹایا اور ہمیں دکان دار سے لیپ ٹاپ کے عوض ادا کی گئی رقم واپس دلوائی۔ ہم نے پھر اپنا یہی لیپ ٹاپ ٹھیک کروایا اور پچھلے ہفتے تک اسے استعمال کرتے رہے۔ اب اس کی وفات کے بعد نیا لیپ ٹاپ خرید رہے ہیں۔
شکر ہے کہ اس وقت ہم چین میں ہیں۔ یہاں ایسے دھوکے نہیں ہوتے۔ جو مانگا جائے وہی دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جتنا کہو دھوکہ نہیں چاہیے اتنا دھوکہ ملتا ہے۔ خاص طور پر موبائل اور لیپ ٹاپ کے معاملات میں۔ اگر کسی کو اچھی چیز مل جائے تو اس کی قسمت ورنہ ہمیں تو پاکستان سے لیپ ٹاپ کے نام پر صرف دھوکہ ہی ملا ہے۔