ڈراما اپنے نام سے جتنا رومانٹک لگ رہا ہے اتنا ہے نہیں۔ زندگی کی تلخیاں جا بجا وزنی مکالموں اور رویوں میں موجود ہیں۔
البتہ پہلی قسط میں ہلکا پھلکا مصنوعی سا رومان ہے جو کم از کم ایک میچیور ہیروئن کو سوٹ نہیں کرتا جو اپنے کیریئر کے عروج پر ہو، کیونکہ اس کا مزاج بدل چکا ہوتا ہے۔ وہ چاہ کر بھی ایسے رومانوی پن میں نہیں ڈھل پاتی جو اس کے رومان کی الگ ادا ہو سکتی ہے مگر ایسی فضا نہیں ہوتی۔
ڈرامے میں تین لڑکیوں کی زندگی سوال بنی ہوئی ہے۔
ڈرامے میں ان لڑکیوں کو موضوع بنایا گیا ہے جو کیریئر ویمن بننا چاہتی ہیں اور تعلیم کے بعد ملازمت کر کے اپنی شناخت اور پہچان بنانا چاہتی ہیں۔ یہ تین خواتین اپنی زندگی ایک خود مختار عورت کی طرح اعتماد سے جینا چاہتی ہیں۔
یہ تین خواتین اپنی ضروریات کے لیے شوہر کے سائے میں نہیں کھڑی ہوتیں جن کو شوہر داری والے مروجہ رویے سے ٹھیس پہنچتی ہے۔
لیکن دوسری طرف صرف تعلیم انسان کے اندر کا دیسی اور سماجی پن نکال بھی نہیں پاتی۔ تعلیم ڈگری اور نوکری دے رہی ہے۔ نوکری کو ہم حاصل زندگی سمجھ لیتے ہیں حالانکہ تعلیم کا زندگی سے تعلق سانسوں جیسا ہوتا ہے۔
تعلیم کو تو سوچ کو بھی بدلنا ہوتا ہے۔ اس کو یہ بھی سمجھانا ہوتا ہے کہ کہاں کیسے برتاؤ کرنا ہے۔ اگرتعلیم کے ساتھ تربیت نہیں ہو رہی تو تعلیم ادھوری ہے۔
ڈرامے میں بھی نورالعین اپنے تمام اخلاص کے باوجود برتاؤ سے ہار جاتی ہے۔ نورالعین اور مرتضیٰ رشتے میں ماموں زاد اور پھوپھی زاد ہیں۔ منگنی ہو چکی ہے۔ دونوں ایک ہی گلی اور محلے میں رہتے ہیں۔ مرتضیٰ اپنی کمپنی کا مینیجر ہوتا ہےجو ترقی پانے کے بعد چاہتا ہے کہ اب شادی کی بات کی جائے۔
مرتضیٰ کی بہن اپنے شوہر سے الگ ہو چکی ہے اور اپنے بیٹے کو لے کر واپس میکے آ گئی ہے۔ اب وہ بھی مرتضیٰ کی ذمہ داری ہے۔ جب مرتضیٰ کی والدہ اپنے کزن وسیم کے گھر مرتضیٰ اور نور کی شادی کی بات کرنے جاتی ہیں تو نور انکار کر دیتی ہے کہ ابھی وہ شادی نہیں کر سکتی۔
نور کی نوکری مرتضیٰ سے اچھی ہے۔ وہ کماتی بھی زیادہ ہے۔ وہ مرتضیٰ کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس کو مرتضیٰ سے محبت تو بہت ہے وہ شادی بھی کرنا چاہتی ہے لیکن ابھی نہیں۔ ابھی وہ اپنی جاب پہ توجہ دینا چاہتی ہے اور چاہتی ہے کہ مرتضیٰ ذمہ داریوں سے فارغ ہو جائے یعنی اس کی شادی شدہ بہن کی موجودگی نور کے لیے سوالیہ نشان ہے۔
وہ مزید چاہتی ہے کہ مرتضیٰ کچھ معاشی مستحکم ہو جائے گا تب وہ شادی کریں گے اور ایک اچھی زندگی گزاریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مرتضیٰ کو یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ اس کی ماں کو بھی غصہ ہے۔ وہ فوراً نور کی سہیلی تہنیت کا رشتہ اس کے والدین سے مانگ لیتی ہیں۔ تہنیت مرتضیٰ کی بہن کے بیٹے کو پڑھاتی بھی ہے۔
یوں دونوں کی جھٹ منگنی ہو جاتی ہے۔ تہنیت یہ منگنی اور شادی نہیں کرنا چاہتی کہ وہ اپنی سہیلی کے سامنے ندامت محسوس کرے گی چونکہ ہمارے ہاں لڑکی ایک بوجھ ہے ذرا اچھا نوکری کرتا رشتہ آ جائے تو اخلاقیات کو ہم مجبوری کی پشت پہ دھکیل دیتے ہیں۔ سماجیات کے سامنے سجدہ کر لیتے ہیں۔
یہاں بھی اخلاقی پہلو پہ سب نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
اے آر وائے نے انسٹاگرام پیچ پہ سوال اٹھایا ہے کہ ’کیا مرتضیٰ نوراالعین کی محبت کو بھلا کر۔۔۔ کیا کر پائے گا تہنیت کو قبول؟‘
ایسا سوال سماجی رویوں کی عکاسی کرتا ہے کہ مرتضیٰ کا دل کوئی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ عورت کے جذبات کی کوئی قدر و اہمیت نہیں ہے۔ تہنیت جس کی زبردستی شادی کی جا رہی ہے۔ کیا وہ بطور شوہر مرتضیٰ کو کبھی قبول کر پائے گی؟
آج کے دورمیں چینل کو اپنے سوشل میڈیا کو بہت احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔
مرتضیٰ کی بہن کا کردار تاحال جتنا مصنوعی لگ رہا ہے۔ دال کالی ہی لگ رہی ہے۔ لڑکی جب واپس آتی ہے تو اتنی خاموشی سے اسے ایک بچے سمیت رکھ نہیں لیا جاتا۔ سب سے پہلے ماں کو ہوک اٹھتی ہے اور بھائی کو ذمہ داری دکھائی دیتی ہے۔ یہاں سماجی اخلاقیات خاموش ہیں۔
کیوں ہیں؟ اس کا جواب بہت سی زندگیوں سے کھیل کر نکلتا دکھائی دے رہا ہے کہ ایک کیرئیر وومن اور ہاؤس وائف والی سوچ کی جڑیں کہاں کتنی گہری ہیں؟
بہر حال کہانی زندگی کی ہو یا محبت زندگی میں آ جائے دونوں صورتوں میں معاش اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ وقت جس تیزی سے بدل رہا ہے عورت کو مرد کے ساتھ مل کر معاش کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
یوں بھی جب ایک عورت کو عزت نفس اور خود مختاری کا علم تھما دیا اس جنت سے آشنا کر دیا تو اس کے بعد آپ اس کو دوزخ کی طرف جانے کے راستہ نہیں دیکھا سکتے۔
کہانی جوں جوں آگے بڑھے گی توں توں کھلے گا کہ نورالعین کا موقف درست تھا، رویہ کنفیوزڈ تھا کیونکہ پڑھی لکھی خود مختار لڑکی کو بھی ابھی معاشرہ برتنا نہیں آ رہا اور معاشرے کو بھی ابھی اس کی خود مختاری والی حقیقت سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ ابھی تجربہ بہت محدود ہے۔
ماہا ملک نے ڈراما لکھا ہے۔ ہر منگل کو اے آر وائی سے پیش کیا جا رہا ہے سینیئر اداکاروں کے علاوہ ایکٹنگ پر توجہ کی اشد ضرورت ہے۔
مردانہ کردار بھرتی کے لگ رہے ہیں جن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اس کے علاوہ مکالموں پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔عام گھروں میں اتنے وزنی وزنی جملے نہیں بولے جاتے۔ نہ اتنے موٹے لفظ لغت سے چھانٹ کر دوسروں پہ رعب ڈالا جاتا ہے۔ نہ لباس کہانی اور کلاس سے میچ کر رہا ہے۔
مجموعی طور پہ موضوع اچھا ہے لیکن برتنے میں اس کی روح نکل گئی ہے۔