پاکستان میں سونے کے پہاڑوں سے کب فائدہ اٹھایا جائے گا؟

ماہرین کے مطابق پاکستان میں اربوں نہیں کھربوں ڈالر کے سونے کے ذخائر موجود ہیں۔

پرویز خان نے بتایا کہ سردیوں میں دریا کے پانی کی سطح کم ہو جانے پر ضلع نوشہرہ اور صوابی کے مختلف علاقوں کے تین چار سو لوگ روزانہ دریا کے کنارے سونا تلاش کرتے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ پاکستان میں سونے کے پہاڑ ہیں جن میں کھربوں ڈالر کے سونا پڑا ہوا ہے تو یقیناً آپ اسے ایک سفید جھوٹ قرار دے دیں گے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان 133.5 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے میں اتنا نہ جکڑا ہوتا، اسے ملک چلانے کے لیے مزید قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے آگے ناک نہ رگڑنی پڑتی۔

مگر یہ سو فیصد سچ ہے اور پاکستان میں سونے پہاڑ نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی نشاندہی کیے ہوئے بھی چار سال ہو چکے ہیں۔

کھربوں ڈالر کی وہ فائل جو وزیراعظم کی میز پر پڑی ہے

2016 میں پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے پاکستان کے نامور ماہرین ارضیات پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ بنایا تھا جس نے پاکستان کے معدنی ذخائر پر ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی تھی، جس کی سربراہی پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ جیالوجسٹ ڈاکٹر پروفیسر قاسم جان کر رہے تھے جو پاکستان کی تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ہونے کے علاوہ پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

اسی گروپ میں نامور جیو سائنٹسٹ محمد یعقوب شاہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گذشتہ 30 سال سے پاکستان میں دریائے سندھ کے سونے پر تحقیق کر رہے ہیں اور اس حوالے سے چار جلدوں پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ بھی مرتب کر کے حکومت کو پیش کر چکے ہیں۔ یہ تحقیق آسٹریلیا کی حکومت کی تکنیکی اور مالی معاونت سے کی گئی ہے جو ان کی دس سالہ محنت کا نچوڑ ہے، جس میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے 72,971 مربع کلومیٹر میں سے 50,000 مربع کلومیٹر علاقے کا سروے کیا گیا تھا کیونکہ باقی علاقہ سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’جس علاقے میں سروے کیا گیا اس کے نتائج ہمارے لیے حیران کن تھے۔ ہمیں 50 سے زائد ایسے مقامات ملے جہاں پر سونے، پلاٹینم، چاندی، تانبا، سیسہ، زنک، کوبالٹ، نکل اور دوسری دھاتوں کے ذخائر کی ممکنہ موجود گی کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ دھاتیں انہی پہاڑوں سے یہ بہہ کر دریائے سندھ میں آ رہی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اعداد و شمار ڈاکٹر قاسم جان کی سربراہی میں قائم ہونے والے ورکنگ گروپ نے بھی اس رپورٹ کا حصہ بنائے ہیں جو 2020 میں وزیر اعظم پاکستان کو پیش کی گئی تھی۔ جب محمد یعقوب شاہ سے ان ذخائر کی مالیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’اس کے لیے ایک الگ سروے کی ضرورت ہے جس میں اس کا حقیقی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم نے صرف ان دھاتوں کی موجودگی کی رپورٹ دی ہے، تاہم ان کی مالیت اربوں نہیں کھربوں ڈالر میں ہو سکتی ہے۔‘

جب پوچھا گیا کہ پھر پاکستان ان وسائل سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہا تو محمد یعقوب شاہ نے بتایا کہ ’حکومتوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ اگر حکومت اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو پھر اس رپورٹ میں دی گئی ہماری سفارشات پر عمل درآمد کرنا ہو گا جس میں مکمل لائحہ عمل دیا گیا ہے۔‘

تربیلا ڈیم میں 635 ارب ڈالر کا سونا

دریائے سندھ پر 260 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے تربیلا ڈیم کو بنے ہوئے 48 سال ہو چکے ہیں۔ ایک پاکستانی کنسورشیم نے گذشتہ ہفتوں میں پاکستان کے اعلی ٰ حکام کو خصوصی بریفنگ دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف تربیلا ڈیم کے اندر جو سونا جمع ہو چکا ہے اس کی مالیت 635 ارب ڈالر ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو اس کنسورشیم کے ایک ذریعے سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق تربیلا ڈیم میں اس کے بننے کے بعد سے جو مٹی آئی ہے وہ دس ارب میٹرک ٹن ہے جس میں سالانہ 20 کروڑ میٹرک ٹن کا اضافہ ہو رہا ہے۔ فی ٹن مٹی میں 1.5 گرام سونا موجود ہے۔ اس طرح دس ارب ٹن مٹی سے 15 ارب گرام سونا نکالا جا سکتا ہے۔ اس سونے کی برآمدگی کا ہدف اگر سو فی صد نہ بھی حاصل کیا جا سکا تب بھی 80 فیصد تو یقینی ہے۔

اس طرح تربیلا ڈیم سے 12,000 ٹن سونا نکالا جا سکتا ہے جس کی مجموعی مالیت 635 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس وقت سونے کی فی ٹن قیمت تقریباً 8.7 کروڑ ڈالر ہے۔ تربیلا ڈیم سے سونا نکالنے پر جو لاگت آئے گی وہ کل قیمت کا 20 فی صد ہو گی۔

ڈیم کی ریت سے سونا نکالنے کے لیے ڈریجنگ مشینری دنیا میں موجود ہے۔ اس منصوبے سے نہ صرف ڈیم صاف ہو جائے گا بلکہ اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ جائے گی۔ تاہم یہ ایک طویل المدتی منصوبہ ہو گا۔ ایک ڈریجنگ یونٹ ماہانہ 216 کلوگرام سونا نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی سالانہ مالیت 15 کروڑ ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ ایک وقت میں کئی ڈریجنگ یونٹس لگائے جا سکتے ہیں۔

دریائے سندھ میں اٹک کے مقام پر کیا ہو رہا ہے؟

دریائے سندھ کی ریت سے سونا نکالنے کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ حالیہ سالوں میں اب روایتی طریقوں کی بجائے جدید مشینری کے استعمال سے سونا نکالنے کا عمل زور پکڑ گیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ دریائے سندھ میں کئی مقامات پر مشینوں کے ذریعے سونے کی غیر قانونی کھدائیاں جاری ہیں۔ ایک ایکس کویٹر کے ذریعے روزانہ دس سے 30 گرام سونا نکالا جا رہا ہے، جس کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں درجنوں مشینوں کو ضبط کیا ہے۔ پنجاب کے نگران وزیر حسن مراد نے اس سال فروری میں ایک بیان میں کہا تھا کہ دریائے سندھ میں اٹک کے مقام پر 600 ارب روپے کا سونا موجود ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اٹک کے مقام پر وہ علاقہ جو اس کے صوبے میں آتا ہے، وہاں گذشتہ ماہ چار بلاکوں نیلام کیا ہے۔ ان کی ریزرو پرائس ساڑھے تین ارب روپے رکھی گئی تھی مگر یہاں توقع سے بھی زیادہ یعنی 4.92 ارب روپے حاصل ہوئے ہیں۔ کے پی کے حکومت نے مزید آٹھ بلاکوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں اگلے مرحلے میں نیلام کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت نے بھی دریائے سندھ پر اٹک کے مقام پر بلاکس کی نیلامی کا فیصلہ کیا ہے۔

اس مقصد کے لیے دو ہفتے قبل پنجاب کے وزیر معدنیات و کان کنی سردار شیر علی گورچانی نے اٹک کا دورہ کیا تھا جہاں انہیں سرکاری ماہرین کی جانب سے سونے کی غیر قانونی کھدائیوں کے خلاف اقدامات کے ساتھ ساتھ ان ممکنہ بلاکس کے بارے میں بھی بتایا گیا جنہیں نیلام کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے بلاکس کی ریزرو پرائس خیبر پختونخوا حکومت سے دگنی رکھی ہے۔

یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ