’مجھے پیار ہوا تھا‘ کے چرچے

رشتوں کی سب سے بڑی معراج یہی ہوتی ہے کہ دوسرے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی جائے جو جیسا ہے اسے ویسے ہی اپنا لیا جائے۔ محبت  بھی اسی کا نام ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ ہر ڈرامے کی اکثر کہانیوں کی طرح مہر، یعنی ڈرامے کی ہیروئین، محلوں کے خواب نہیں دیکھ رہی لیکن ایک شہزادے کا اس پہ دل آ جاتا ہے (اے آر وائے ڈیجیٹل)

’مجھے پیار ہوا تھا‘ ڈراما آیا اور چھا گیا۔ اتنا چھا گیا کہ ابھی چار طوفانی اقساط گزری ہیں اور چرچے آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔

بنیادی طور پہ رومانوی کہانی ہے، عرصہ بعد خالص رومانس دکھائی دے رہا ہے۔  ایک ٹرائی اینگل لوو سٹوری اور اس میں شامل پورا سماج۔

نوجوانوں کے لیے زندگی کے تمام زاویوں سے بھرا ڈراما اس قابل ہے کہ آئے اور دل کی دھڑکنوں کو بڑھا دے اور شہرت کی بلندیوں کو چھو بھی جائے۔

محبت کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں اور ڈرامے میں اس کی سب اقسام پہ عمدگی سے بات ہوئی ہے۔ مکالمہ واعظ نہیں لگ رہا، زندگی لگ رہا ہے۔

یہ سب ہمارے آس پاس بکھرے ہوئے کردار ہیں۔ عام مڈل کلاس کی کہانی ہے جو ملک کی اکثریت ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہر ڈرامے کی اکثر کہانیوں کی طرح مہر، یعنی ڈرامے کی ہیروئین، محلوں کے خواب نہیں دیکھ رہی لیکن ایک شہزادے کا اس پہ دل آ جاتا ہے۔

مہر کی شادی کی بات اس کے چچا زاد سعد سے بچپن میں طے ہو چکی ہے۔ دونوں کزنز کی کیمسٹری بھی اچھی ہے۔ سعد کو مہر سے محبت بھی ہو چکی ہے مگر وہ اظہار نہیں کر پاتا۔

سعد کی بہن اسے با رہا سمجھاتی ہے کہ وہ اظہار محبت کر دے ورنہ اسے پچھتانا پڑ سکتا ہے مگر وہ اپنا کیتھارسس اپنی ڈائری کے صفحات پہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔  

مشترکہ خاندانی نظام کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے جس میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کی جا رہیں بلکہ جو بات دل میں ہے اس کو صاف اور مہذب الفاظ میں دوسرے کو بتا دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو اس کی بشری کمزوریوں کے ساتھ قبول کرنا دکھایا گیا ہے۔

رشتوں کی سب سے بڑی معراج یہی ہوتی ہے کہ دوسرے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی جائے جو جیسا ہے اسے ویسے ہی اپنا لیا جائے۔ محبت بھی اسی کا نام ہے۔

مہر کی ماں اپنی امیر کزن سے بہت متاثر ہے اور چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی بھی اس کی بھانجی کی طرح کسی امیر زادے سے ہو جس کے لیے وہ رشتے والی آنٹیوں کے توسط سے تلاش رشتہ بھی شروع کر دیتی ہے۔

مہر کی تائی ماں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ اس کے بیٹے کو مسترد کر کے مہر کا رشتہ تلاشا جا رہا ہے۔ بہرحال مہر کی ماں کو ابھی ہر خوشی، ہر رعنائی دولت کی چمک میں دکھائی دے رہی ہے۔

اس کو اپنی بیٹی کے سادہ سے مزاج اور انتخاب کی بھی پروا نہیں ہے۔ مہر کی ننھیالی کزن اور دوست انابیہ کی شادی پہ اریب اور مہر کی پہلی ملاقات، پہلی ہی قسط میں، پہلی ہی نظر میں محبت میں بدل جاتی ہے۔

اگرچہ اریب اسے پہلی پہلی نظر میں ایک آوارہ مزاج نوجوان لگتا ہے لیکن چونکہ وہ گائک بھی ہے تو یہ سب کچھ شاعری کے ساتھ معاملہ بہتر بنا دیتا ہے۔ لیکن جب وہ تیسری ہی قسط میں مہر کو بہت سلیقے سے پرپوز کرتا ہے تو ڈرامے کی اٹھان میں فوری اضافہ ہوا ہے۔

شاید اس عمر کی ہر لڑکی چاہتی ہے کہ اسے یونہی پرپوز کیا جائے یا اسے یونہی اظہار محبت کیا جائے۔

مہر ایک طرف اپنے کزن کے ساتھ مطمئن ہے۔ اسے دولت مندی اور چمک دمک کی کوئی تمنا بھی نہیں ہے،  دوسری طرف انسانی فطرت ہے، اریب اسے تھوڑا تھوڑا سا اچھا لگنے لگا ہے۔ اظہار محبت کی بھی اپنی ہی طاقت ہوتی ہے۔ مہر کی اپنی مڈل کلاس سوچ، اس کے کردار کو حسین بنا رہی ہے کہ اس نے خود کو بدلنے یا کسی کو متاثر کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔

مہر کو اریب کا سنگر ہونا ، آرٹسٹ ہونا تو اچھا لگا ہے لیکن اس کو اس کی دولت و شہرت  سے دلچسپی نہیں ہے۔ اریب کے والدین اس کی شادی کرنا چاہ رہے ہیں۔ اریب انہیں بتا دیتا ہے کہ اسے ایک لڑکی پسند آ گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی ماں کو اس لڑکی کے بریسلیٹ سے اس کی کلاس کا اندازہ ہو جاتا ہے اس لیے وہ اسے کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیتی ہے، گویا وہ اپنے بیٹے کی پسند کو مسترد کر رہی ہے۔

رومانوی ڈراما ہے، فلم نہیں، اس لیے اس میں مرکزی کرداروں کے ساتھ رشتوں کا رومانس بھی دکھائی دیتا ہے۔

ایک اچھا مشترکہ خاندانی نظام بہت عرصہ بعد دیکھ کر اچھا لگا جہاں رشتوں کا آپس میں احترام ہے ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، بوجھ نہیں۔ رشتے داریاں نبھانا کٹھن ہی سہی مگر یہ انسان کو خوش، توانا اور بھرپور رکھتے ہیں۔

مثبت رویوں پہ مبنی یہ کہانی دیکھتے ہیں مہر سے کیا فیصلہ کرواتی ہے۔

سعد اور اریب دونوں ولن نما نہیں ہیں۔ جب دونوں ہیرو ہیرو لگیں فیصلہ تب ہی مشکل ہوتا ہے یا المیہ تب ہی بنتا ہے۔

کسی دور کی ہیروئین ایفا براوو چارلی کی شہناز تھیں جو آج کی مہر دکھائی دے رہی ہیں۔ ڈرامے کی کاسٹ اپنے اپنے کرداروں فٹ ہے۔ ڈرامہ نگار سدرہ سحر عمران ہیں اور ڈائریکٹر بدر محمود ہیں۔ موسیقی بہت عمدہ ہے۔ گیت لکھا بھی کیفی خلیل نے ہے، اسے کمپوز بھی انہوں نے خود کیا اور گایا بھی خود ہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی