اگر میں دنیا کے کسی اور خطے میں قیام پذیر ہوتی اور وہاں کسی بھی قسم کے جھوٹے الزامات کے خلاف سزا کا تعین ہو رہا ہوتا تو میں ضرور اس فیصلے کے حق میں ہوتی، مگر وطن عزیز کے مسائل سنگین اور رکھوالے تمام دنیا سے خاصے مختلف اور پیچیدہ ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تیسری دنیا کے ممالک میں سے ایک ہیں تو ہم پہ ترقی یافتہ ممالک والے اصول لاگو نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ہمارے یہاں قوانین کا غلط استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے اور یہ بنتے بھی کمزور کے بجائے طاقتور کے تحفظ کے لیے ہیں۔
چند روز قبل انٹرنیٹ کے پروں پہ اڑتی ہوئی خبر پہ نگاہ پڑی کہ پنجاب میں جب جنسی زیادتی کا مقدمہ ثابت نہ ہو پائے گا تو الٹا شکایت درج کروانے والی متاثرہ کو ہی تین سال کی سزا سنا دی جائے گی۔
بظاہر تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر پاکستان میں رہنے والوں کو اس کی حقیقت سے آشنائی ہے کہ یہ قانون حدود آرڈیننس کی تلخ یاد دہانی ہے اور اس کا استعمال کس قدر پریشان کن ہونے والا ہے۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمیں اپنے قانونی نفاذ کو یقینی بنانے والوں اور حکومتی اداروں پہ خاصی بےاعتمادی ہے اور ان کے طاقتور شخصیات کی خیر خواہی پہ بھرپور یقین ہے، جو کمزور کے استعمال اور استحصال کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔
اول تو کسی قسم کے جرم کو ثابت کرنے کا تعین چند اقسام سے ثابت ہوتا ہے، جن کو قانوناً معقول سمجھا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی کے سانحے کے 24 گھنٹے کے اندر میڈیکو لیگل، زیادتی کے چند ایک گواہان یا پھر ویڈیو فوٹیج چند ایک ایسی بنیادی چیزیں ہیں، جن سے کیس بن سکتا ہے۔
اگر بات کی جائے کسی جرم یا چوری کی تو لاکھ میں سے کہیں کوئی ایک فوٹیج متاثرہ کو موصول ہو جاتی ہے یا انٹرنیٹ پہ وائرل کر دی جاتی ہے، ورنہ تو مجرم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کو جرم کرتے ہوئے انسان یا کیمرے کی آنکھ کسی صورت دیکھ نہ لے۔
ویسے بھی ویڈیو ڈیلیٹ ہوجاتی ہے، اس میں رد و بدل ہو جاتا ہے تو یہ قانون کی نظر میں خاص فوقیت کی حامل بھی نہیں ہوتی۔ جہاں تک بات گواہان کی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ زیادتی جیسے جرم کو دس لوگوں کے درمیان عموماً سرزد نہیں کیا جاتا۔
رہ گیا میڈیکولیگل تو جس خاتون، مرد، خواجہ سرا یا بچے کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تناؤ ویسا نہیں ہوتا جو آپ کو اور مجھے روزمرہ زندگی میں ہوتا ہے بلکہ صدمہ انسانی دماغ پہ ایسے اثر اندوز ہوتا ہے اور اس میں ایسی تبدیلی لے آتا ہے جس سے وہ فوری طور پر سہی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔
ملک کے زیادہ تر لوگوں کو میڈیکولیگل کا علم نہیں ہے کہ یہ فوری کروانا ہوتا ہے اور اس وقت وہ مقدمہ دائر کرنے یا نہ کرنے کی کشمکش سے الجھ رہے ہوتے ہیں۔
جنسی زیادتی ہر کیس میں ایک دفعہ کا سیدھا سیدھا واقعہ نہیں ہوتی کہ یہاں جرم کیا اور وہاں ہسپتال پہنچ گئے۔ کچھ کیسوں میں لوگوں کو دنوں یا عرصوں تک یرغمال بھی بنایا جاتا ہے، کچھ جیلوں میں زیادتی کی شکایت کرتے ہیں اور کچھ ماضی میں یا کافی عرصے تک زیادتی کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور بعد میں حواس بحال ہونے پہ ہمت کر کے شکایت درج کرتے ہیں۔
اب اس کیفیت میں یہ ڈر اور خطرہ بھی شامل ہو گا کہ اگر پولیس کی ناکردگی سے بھی جرم ثابت نہ ہو پایا یا کوئی ثبوت کیس کے چلتے ضائع ہو گئے تو سزا الٹا ہمیں ہو گی اور کسی امیر، طاقتور یا قانون کے نفاذ کے محکموں میں کام کرنے والے کے خلاف زیادتی کی شکایت کرنے کا خطرہ لینا تو سِرے سے بیکار ہو گا۔
پاکستان میں پہلے ہی سزا ملنے والوں کی شرح 0.3 سے تین فی صد پہ اٹکی پڑی ہے کہ جن میں کچھ ہائی پروفائل ایسے کیسز ہیں جن پہ آج تک دنیا بھر کی نظر ٹکی ہے اور جن پہ آج تک سزا کے باوجود سزا پر عمل نہ ہوا۔
ایسے میں پاکستانیوں کو کسی دن ان مجرموں کو باہر گھومتا دیکھنا متوقع ہے تو اس قانون کے چلتے رپورٹنگ کی شرح اور بھی کم ہو نے کا اندیشہ صاف ظاہر ہے۔
یہ قانون فی الوقت لاہور میں رائج ہو گا جس سے کچھ فاصلے پہ بچوں سے جنسی زیادتی کا گڑھ یعنی قصور واقع ہے۔
اس قانون سے نہ صرف طاقت ور آدمی اپنے سے کمزور مردوں، عورتوں، خواجہ سراؤں کو ڈرائیں گے بلکہ ساتھ ہی بچے جو کہ جنسی زیادتی کے وقت بلیک میلنگ اور خوف کا شکار ہوتے ہیں ان کے خلاف بھی یہ قانون بلیک میلنگ کا ایک نیا حربہ ثابت ہو گا۔
جب بھی کسی کے ساتھ، خاص کر بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے تو انہیں چپ رکھنے کے لیے یہ جملے دہرائے جاتے ہیں کہ تم پہ کوئی یقین نہیں کرے گا، ایسے میں یہ قانون بھی بالکل ایسا ہی ایک پیغام ہے۔
اس حقیقت پہ کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں جب بھی کوئی پراثر شخص زیادتی کرے گا تو یہ قانون اس کی ڈھال بنے گا۔ اس کو استعمال کر کے نہ صرف اس کو کلین چٹ دی جائے گی بلکہ ہمارے محافظ خود متاثرین کو شکایت نہ کرنے اور مقدمہ واپس لینے کی تلقین کر رہے ہوں گے۔
یہاں میڈیکولیگل میں ردوبدل بھی کوئی کمال نہیں تو اسی کے ساتھ ہم بارسوخ اشخاص کو ریپ کی اجازت کے ساتھ تحفظ بھی دے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس بات میں شک نہیں کہ کوئی نہیں چاہے گا کسی بےگناہ کو سزا ملے وہ بھی بنا ثبوت کے۔ اب ثبوت کی حقیقت جاننے کے بعد انتظار رہے گا کہ لاہور کے حکام کے پاس ایسے کیا پروٹوکول ہیں جن سےاس سب کی ’جانچ‘ اس حد تک یقینی بنائیں گے کہ خد شکایت لے کر آنے والی الٹا سزا کی اصل حقدار ٹھہرے گی۔
دل میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایسا بھی کوئی طریقہ کبھی ہو سکتا ہے جس سے کیس بنانے والے اور فیصلہ کرنے والے کا کیس میں کردار بھی یقینی بنایا جا سکتا ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں قوانین اور ان کا نفاذ ہم جیسے عام لوگوں کے تحفظ نہیں بلکہ امیر اور با رسوخ لوگوں کے دفاع کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں جنسی زیادتی کی شرح جنگل میں بڑھتی ہوئی آگ کی سی ہے جو حکومت کے قابو کسی طرح نہیں آ رہی۔ اس لیے اس کو نپٹنے سے آسان حربہ اس سے اپنی آنکھیں بند کر کے بین الاقوامی تنظیموں کی شماریات میں کمی لانے کے لیے ان کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکنے کے لیے اس قسم کی شرح کا استعمال کرنا ہے کہ 47 فی صد شکایات بےبنیاد نکلیں، جب کہ آخر ان کی بنیاد کیا ہونا چاہیے تھی جو نہ ہو سکی۔
لاہور میں پہلے بھی کیسوں میں خاتون پولیس اہلکار سے کہلوایا گیا کہ وہ کیس سچے نہیں تھے اور الٹا ایک مختلف جگہ متاثرہ خاتون سے ہی معافی منگوا ڈالی گئی۔
جو اعداد پولیس سامنے لے کر آئی ہے وہ بھی ایسا ’کچھ ہوا ہی نہیں‘ کا ایک اور شمارہ نظر آتے ہیں کیونکہ پاکستان میں جنسی زیادتی کوئی فسانہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
اختتام پر کہوں گی کہ پاکستان کو وہ اکھاڑا بنایا جا چکا ہے جہاں توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات کی مد میں جانچ تو دور، دوسرا خیال آنے سے پہلے ہی پورا شہر کسی بے گناہ کو سرعام قتل کر آتا ہے، جس میں اہلکار خود بھی شامل ہوتے ہیں اور بعد میں مقتول کی بے گناہی کے ثبوت گردش کرنے لگتے ہیں۔
ایسی صورت حال کے باوجود ان الزامات کو لگانے والوں کے خلاف سزا کی پیشکش کو بارسوخ اشخاص کی طرف سے مسترد کیا جا چکا ہے۔ مگر جو قانون بناتا بھی ہے تو وہ کمزور کو ہی چیک میں رکھنے کے لیے بنتا ہے کہ کہیں جھوٹ تو نہیں بول رہی، جب کہ پورا شہر جب کسی کو جھوٹ پہ مبنی خبر پہ سر عام قتل کر آتا ہے تو قانون اور اس کے نفاذ کا دعویٰ کرنے والوں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی اور اس کے خلاف کیا کوئی لائحۂ عمل ہونے کے امکان ہیں، آپ بہتر سمجھتے ہیں۔
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔