میں اس وقت شغرتھنگ میں ہوں۔ میرے دائیں جانب بہت اونچے برف پوش پہاڑ ہیں جن کی بلندی نیلے آسمان کی کلغی کو چھوتی ہے اور چوڑائی حد نظر کو کھاتی ہے۔ میں جس وادی میں کھڑا ہوں یہاں قدموں کے نیچے برف ہے۔ چاندی کے موٹے پتروں جیسی سفید برف، جو ندی نالوں میں پانی کی بجائے جمی ہوئی ہے۔
اوائل دسمبر سے لے کر مارچ تک یہ پورا منطقہ برف کی تہہ در تہہ پرتوں میں دب کر رہ جاتا ہے جس کے باعث اس کا رابطہ ساری دنیا سے کٹ کر صرف خدا سے رہ جاتا ہے۔ جن لوگوں کے وسائل کم ہیں، مخیر حضرات ان کی مدد کے لیے سرما شروع ہونے اور راستے بند ہونے سے پہلے ان کی مدد کے لیے ساز و سامان دینے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
میں بھی ایسی ہی ایک امدادی پارٹی کے ہمراہ یہاں پہنچا تھا۔ ہم صبح نو بجے چگوسر سے نکلے تھے۔ یہ تیس نوجوانوں کا قافلہ ہے۔ ان کے لیڈر شیخ اعجاز بہشتی ہیں جن کے پاس اگلے تین ماہ کا راشن ہے جو انہوں نے ان گاؤں والوں میں تقسیم کرنا ہے۔
یہاں چاروں طرف صنوبر کے درخت ہیں۔ گائے کی طرح کے جانور جنھیں یاک کہتے ہیں، دور دور پھرتے ہیں، گاہے صنوبروں کی شاخوں کو منہ مارتے ہیں، گاہے جھاڑیوں کو پپولتے ہیں۔ یہ کچورا کا آخری گاؤں ہے۔ میں نے اب تک بلتستان کے جتنے علاقے دیکھے ہیں، مناظر کے اعتبار سے یہ ان میں سب سے زیادہ فریب نظر ہے۔
اپر کچورا سےمغرب کی طرف نکلیں تو ڈھائی گھنٹے کی مشکل ترین مسافت کے بعد ایک ایسا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ایک ہی ندی کو کئی بار پار کرنا پڑتا ہے۔ یہ ڈھائی گھنٹے لینڈ کروزر کا سفر ہے اور فقط چڑھائی ہے۔ اس سے آگے کسی گاڑی، موٹر سائیکل یا سائیکل کا راستہ نہیں ہے۔ صرف فور ویلر چلتی ہے۔
شغرتھنگ سے پہلے دو چھوٹے گاؤں آتے ہیں۔ ان میں ایک ستقچن ہے جو 15 گھروں پر مشتمل ہے۔ یہ گاؤں ایک وسیع میدان میں ہے جس کے پہلو میں پانی کی ندی ہے، اس ندی کی اوپر کی سطح پر برف کی موٹی تہہ جمی ہے جو آگے چل کر سرد موسم میں مزید موٹی ہوتی جائے گی۔
پگڈنڈی نما سڑک پر برف کی پرتیں جمنا شروع ہو گئی ہیں جنھیں عام گاڑیاں عبور نہیں کر سکتیں۔ گاؤں کے چاروں طرف صنوبر کے درخت ہیں اور نیچے وادی میں پاپلر اور بید کے درخت موجود ہیں۔ باقی کھیت ہیں جن میں ابھی کوئی فصل نہیں ہے، البتہ سردیوں میں جانوروں کے کھانے کے لیے جمع کیا گیا چارا درختوں اور غار نما گھروں کی چھتوں پر رکھ لیا گیا ہے۔ ہمارا قافلہ جیسے ہی یہاں رکا، گاؤں کے مرد، عورتیں اور بچے دوڑ کر ایک جگہ جمع ہو گئے، جیسے انھیں خبر ہو کہ کون آ رہا ہے اور کیوں آ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم سب لوگ اعجاز بہشتی صاحب کی معیت میں ایک ڈھلوان سطح سے ہوتے ہوئے نیچے گاؤں میں اترے۔ اس کے آگے بلچو گاؤں ہے۔ یہاں دس گھر ہیں۔ یہاں پہنچنے کے لیے ہمیں پیدل دو ندیاں پار کرنا پڑیں۔ چونکہ سردی کی وجہ سے پانی کم تھا اور اس میں سے بھی آدھی برف جمی تھی اس لیے مشکل پیش نہیں آئی۔ یہ گاؤں ایک ٹیلے پر ہے اور یہاں ہوا ایسی سرد تھی کہ ہڈیوں کے پار ہو رہی تھی۔ یہاں کے مولوی صاحب نے چائے سے تواضح کی اور مقامی ناشتہ کروایا۔
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد قافلہ آگے چلا جس کا آخری مقام شغرتھنگ تھا۔ یہ تمام علاقہ نہایت خوبصورت اور حیران کن حد تک خوبصورت صنوبرکے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ فقط برف پوش پہاڑ ہیں، ان کی گھاٹیوں میں چاندی کے پانی کا نالہ ہے اور نالے کے دائیں بائیں وسیع چراگاہیں ہیں۔ ان کے بیچ صنوبر کے درخت ہیں۔ جن کی شاخوں سے گاؤں والے آگ جلاتے ہیں۔ مجھے یہاں سب سے بڑی حیرت اسی بات پر ہوئی کہ یہ لوگ صنوبر کی اہمیت سے واقف نہیں اور اسے فقط جلانے کے لیے اچھی لکڑی تصور کرتے ہیں۔
یہ خود رو صنوبر اس طرح دیکھ کر مجھے اچنبھا ہوا۔ ایک آدمی نے ایک بڑی دلچسپ بات سنائی، کہنے لگا، ’صنوبر جوان ہونے میں پانچ سو سال لیتا ہے اس لیے خدا نے ہر صنوبر کے پہلو میں ایک بید کا پودا اگا دیا ہے۔ بید چونکہ جلدی جوان ہوتا ہے جس پر غیرت کھا کر یہاں کا صنوبر بھی جلد جوان ہو جاتا ہے۔‘
یہاں کے دیہات ان کے گھر پتھر، گارے اور لکڑی سے تعمیر ہوئے ہیں۔ گھر کیا ہیں فقط پتھروں اور لکڑیوں کی غاریں ہیں۔ یہاں نہ کوئی امیر نظر آتا ہے اور نہ غریب۔ سب کے جانور ایک جیسے ہیں اور سب کی غاریں ایک جیسی ہیں جن کے اندر بخاریاں ہیں۔ بخاریوں میں آگ جلتی رہتی ہے اور ان کی زندگی کی ڈور چلتی رہتی ہے۔ ہر بخاری کے دو حصے ہیں ایک حصے پر پانی کا بڑا سا برتن رکھا ہوتا ہے جسے وہی آگ گرم رکھتی ہے اور یہی پانی جانوروں کے پینے کے لیے، اپنے پینے کے لیے اور نہانے دھونے کے لیے کام آتا ہے۔
گائیں، یاک اور بھیڑیں پالتے ہیں۔ سردیوں میں انہی کا گوشت ابال کر پیتے ہیں۔ شگر تھنگ گاؤں کے اندر سینکڑوں ندی نالے چلتے ہیں۔ یہ نالے ان کے غار نما گھروں کے اندر سے بلکہ مکانوں کے نیچے سے بہتے ہیں۔ ان کا پانی دو سلسلوں سے چلتاہے۔ ایک چشمے اور دوسرا پہاڑیوں کی چوٹیوں سے پگھلتی ہوئی برف۔ سردیوں میں ندی نالوں میں بہنے والا بیشتر پانی وہیں جم جاتا ہے جبکہ بیس فیصد پانی جو چشموں سے آتاہے، وہ چلتا رہتا ہے۔ چراگاہیں خشک ہو جاتی ہیں۔ کھیت برف کے تھال بن جاتے ہیں، جانور سہم کر جھونپڑوں کی دیواروں سے لگ جاتے ہیں اور انسان بخاریوں کے گرد لپٹ جاتے ہیں۔ آکسیجن کم ہو جاتی ہے۔ بجلی نہیں ہوتی بلکہ بجلی، نیٹ، حتیٰ کہ موبائل فون کا سگنل تک یہاں موجود نہیں۔
نہانے، استنجا کرنے اور ہاتھ منہ دھونے کے لیے یہ لوگ برف کے ٹکڑے آگ پر رکھے رہتے ہیں۔ شغرتھنگ گاؤں نوے گھروں پر مشتمل ہے اور سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ اس وقت یعنی 27 نومبر کے دن 12 بجے اور مطلع صاف ہونے پر بھی یہاں کا درجہ حرارت منفی آٹھ ڈگری سیلسیئس ہے۔ سوچیے جنوری میں کیا ہوتا ہو گا؟
یہ لوگ ڈیڑھ سو سال پہلے لداخ سے آئے تھے۔ مذہباً شیعہ ہیں مگر عملاً صرف انسان ہیں اور بہت غریب ہیں۔
جب ہم اس گاؤں میں پہنچے تو بخدا میرا دل بھر آیا۔ یہ بہت نادار اور بے بس لوگ ہیں۔ یہاں سرد موسموں کی سختیوں کے ستائے ہوئے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ چار مہینے سات فٹ برف تلے دبا ہوا یہ علاقہ سائیبریا سے کم نہیں رہتا۔ پھر وہاں تو ٹرانسپورٹ ہوتی ہے مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ حکومت کی طرف سے اسپرین کی گولی تک کی سہولت نہیں۔ یہ لوگ جئیں یا مریں، حکومت کی بلا سے۔
البتہ لوگوں نے بتایا کہ اب حکومت یہاں توجہ کر کے اس علاقے کو سیاحت کے لیے ترقی دینے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ مقامی اس سے بہت زیادہ خوش نہیں اور کہہ رہے ہیں یہ صرف ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا بہانہ ہے۔
صرف بھیڑ بکریوں پر گزارہ کرنے والے ان باشندوں کے پاس سردیوں کے چار مہینوں کا راشن جمع کرنے کی سکت نہیں ہوتی کہ وہ اتنے مہینوں کا راشن خرید سکیں اور برف کے دن گزار سکیں۔ نہ یہاں کوئی ڈسپنسری ہے۔ اگر کسی مریض کو ایمر جنسی ہو جائے تو بیمار کا چار ماہ تک گاؤں سے نکلنا ناممکن ہے۔ اس کی ابتدائی طبی سہولت کا کوئی تصور نہیں۔ ایسے میں خدا ہی یاور و ناصر ہے اور وہ بہتر یہی سمجھتا ہے کہ مریض کو اپنے ہاں شفٹ کر لے۔
شغر تھنگ سے آگے نکلنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ پیدل جانے والوں کے لیے پگڈنڈیاں ہیں جو دیوسائی تک جاتی ہیں۔ ہم جیسے ہی گاؤں میں پہنچے یہاں چالیس پچاس بچوں کا ایک گروہ استقبال کو باہر نکلا اور شیخ اعجاز بہشتی کے حق میں نعرے لگانے لگا۔ ہمارے جانے سے پہلے ان میں راشن اور ادویات تقسیم ہو چکا تھا۔ راشن میں چائے، چینی، چاول، خشک دودھ، مرچ، مصالحے، گھی، آٹا اور دالیں تھے۔ ان کے علاوہ بنیادی امراض کی دوائیوں کے ڈبے تھے۔
اس گاؤں میں حد نظر تک کھیت ہیں مگر اب سردی کے سبب ویران پڑے ہیں۔ صنوبر اور بید کے درختوں پر البتہ ابھی تک پرندوں کے چہچہے موجود تھے۔ ہم نے یہاں ایک امام بارگاہ میں آرام کیا۔ چاول اور مرغ کے شوربے سے کھانا کھایا۔
یہاں کے مقامی لوگوں نے اپنے مسائل بیان کیے جو ناقابل بیان تھے اور وہ رو رہے تھے۔ ایک آدمی نے بتایا کہ ان کے لیے دوا دارو کی سہولیات تو ایک طرف کوئی مرجائے تو ان کے کفن دفن کے لیے بھی وسیلہ نہیں اور جنازہ پڑھانے کے لیے مولوی بھی نہیں۔
مجھے حیرت ہے حکومت اپنے شہریوں کے مسائل سے یکسر بےخبر ہے اور وسائل سے بہت باخبر ہے۔ یہاں کی خوبصورتی اچانک ان کی نظر میں آئی ہے اور اب اشرافیہ کا منصوبہ ہے کہ اس علاقے کو اپنے قبضہ میں لے لیا جائے اور مقامی آبادی دیس نکالا دے دیا جائے۔
لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ترقی کے نام پر اگر یہاں بےہنگم اور بےضابطہ تعمیرات کی بھرمار ہو گئی، جس کی مثالیں ہمیں شمالی علاقہ جات میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں، تو علاقے کی ثقافت کے ساتھ ساتھ اس کا حسن بھی تباہ ہو جائے گا۔