قائم مقام صدر پاکستان صادق سنجرانی نے قومی احتساب بیورو ( نیب) ترمیمی آرڈیننس 2023 جاری کر دیا۔
قائم مقام صدر پاکستان نے نیب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کیے اور انہوں نے آرڈیننس وزیر اعظم کی ایڈوائس پر جاری کیا ہے جس میں پیرا چھ میں ترمیم کی گئی ہے۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق گرفتار ملزم کو 14 کے بجائے 30 دن تک جسمانی ریمانڈ پر رکھا جا سکے گا۔
آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب تفتیش میں عدم تعاون پرملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرسکیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے وزارت قانون و انصاف کے ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے مجوزہ ترامیم کی منظوری دی تھی۔
پیر کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو صدارتی آرڈیننس جاری نہیں کیا جا سکتا یہی وجہ ہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی اجلاس کو ملتوی کیا گیا۔
صدر پاکستان عارف علوی ان دنوں حج کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک ہیں اور ان کی جگہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر ہیں۔
موجودہ اتحادی حکومت نے گذشتہ برس بھی نیب آرڈیننس میں ترامیم متعارف کرائی تھیں۔
نیب ترامیم بل میں کیا تھا؟
گذشتہ برس جون 2022 میں بھی موجودہ اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔
منظوری نہ ملنے پر بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی چار سال کی مدت بھی کم کر کے تین سال کی گئی۔
ترمیم کے مطابق قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا۔
ترمیمی قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔
نیب ترامیم سے فائدہ کس کس کو ہوا؟
جاری کیس میں نیب نے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم حکومتوں میں نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست بھی سپریم کورٹ میں پیش کی تھی۔
نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ نیب ترامیم سے وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے فائدہ اٹھایا۔ نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کا بیٹا بھی شامل ہے۔
عمران خان نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں کب چیلنج کیا؟
گذشتہ برس 31 اگست کو سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں عمران خان نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں اس لیے نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ترامیم کرنے والوں نے اپنی ذات کو بچانے کے لیے نیب قانون کا حلیہ ہی بدل دیا گیا ہے ان ترامیم کے بعد بیرون ملک سے آئے شواہد عدالت میں قابل قبول نہیں ہوں گے۔
بعد ازاں اکتوبر 2022 میں اسی کیس میں ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی جس میں موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم کے باعث سینکڑوں ریفرنس واپس کر دیے گئے ہیں، حالیہ نیب ترامیم سے کرپشن کے متعدد مقدمات نیب عدالتوں نے ختم کر دیے ہیں۔
متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نیب عدالتوں سے واپس کيے گئے تمام ریفرنسز کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔