سپریم کورٹ میں نیب قانون میں ترامیم کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’نیب قانون میں بہت سی ترامیم درست ہیں۔ ہمیں دونوں فریقین کو ایسے تفصیلی جوابات درکار ہیں تاکہ کیس پر سماعت مکمل کریں۔
چیف جسٹس نے گذشتہ ہفتے عمران خان کی عدالت میں پیشی کے دوران کی گئی باتوں کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’اس عدالت میں جو بات کی جاتی ہے سوشل میڈیا میں اس کو غلط رنگ دیا گیا۔‘
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی میں حصہ لیا۔ انہوں نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ ’گذشتہ روز حالات ایسے تھے کہ اسلام آباد نہیں پہنچ سکا، سوشل میڈیا پر بھی خبریں چلتی رہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر تو ’گڈ ٹو سی یو خان صاحب‘ چلتا رہا، ایک مرتبہ پھر کہہ رہا ہوں آپ کو دیکھ کر اچھا لگا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک کیس کی 46 سماعتیں ہو چکی ہیں، درخواست گزار کے وکیل نے 26 سماعتوں میں دلائل دیے جبکہ وفاقی حکومت کے وکیل نے 19 سماعتوں میں دلائل دیے، ہم چاہتے ہیں اب کیس کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ جاری کریں۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جن ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، انہی ترامیم کا سہارا لے کر اب ریلیف مانگا جا رہا ہے، عمران خان ریلیف لینے کے لیے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ میں ان نیب ترامیم کا سہارا لے رہے ہیں جن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ درخواست گزار جو ایک قانون کو چیلنج کرے کیا وہ اس قانون کے تحت ریلیف مانگ سکتا ہے؟ پاکستان کی آئینی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا ایک وزیراعظم نے قانون میں ترامیم کیں، جب حکومت ختم ہوئی تو انہی ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔‘
حکومتی وکیل نے مزید کہا کہ ’درخواست گزار نہیں بتا سکے کہ نیب قانون براہ راست بنیادی انسانی حقوق سے منافی ہے، نیب ترامیم کے خلاف کیس قیاس آرائیوں پر مبنی لمبی مشق ہے، حکومت نے کل جوائنٹ سیشن میں نیب ترامیم منظور کیں، صدر مملکت نے نیب ترامیم بغیر دستخط کے واپس کیں اور ان کو پارلیمنٹ نے دوبارہ منظور کیا، عمران خان نے نیب قانون پہلے ٹرائل کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’محض اس دلیل پر نیب قانون میں ترامیم کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار نہیں دیا جا سکتا کہ قانون میں تبدیلی کی گئی۔ مختلف عدالتی فیصلوں کے ذریعے عدلیہ نے بھی نیب قانون میں ترامیم کرنے کا کہا، ہم معاونت کے لیے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا کہتے رہے تاکہ قانون مضبوط ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’نیب قانون میں بہت سی ترامیم درست ہیں۔‘ انہوں نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ترامیم آپ نے خود بھی کیں، ہمیں دونوں فریقین کو ایسے تفصیلی جوابات درکار ہیں تاکہ کیس پر سماعت مکمل کریں۔ جون کے دوسرے ہفتے میں چھٹیاں ہو رہی ہیں، ہو سکتا ہے آگے جا کر تین رکنی بنچ دستیاب نہ ہو۔ ہم دونوں فریقین کے تفصیلی جوابات کی روشنی میں طے کریں گے مزید سماعت کرنی ہے یا نہیں، اگر مزید سماعت کی ضرورت پیش آئی تو آپ کو بتا دیں گے۔‘
وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پھر نئی ترامیم کی گئیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی تو ہمارا امتحان لے رہے ہیں۔
عمران خان نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں کب چیلنج کیا؟
گذشتہ برس 31 اگست کو سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں عمران خان نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں اس لیے نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ترامیم کرنے والوں نے اپنی ذات کو بچانے کے لیے نیب قانون کا حلیہ ہی بدل دیا گیا ہے ان ترامیم کے بعد بیرون ملک سے آئے شواہد عدالت میں قابل قبول نہیں ہوں گے۔
بعد ازاں اکتوبر کے مہینے میں اسی کیس میں ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی جس میں موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم کے باعث سینکڑوں ریفرنس واپس کر دیے گئے ہیں، حالیہ نیب ترامیم سے کرپشن کے متعدد مقدمات نیب عدالتوں نے ختم کر دیے ہیں۔
متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نیب عدالتوں سے واپس کيے گئے تمام ریفرنسز کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔
نیب ترامیم بل میں کیا تھا؟
گذشتہ برس جون 2022 میں موجودہ اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔
منظوری نہ ملنے پر بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی چار سال کی مدت بھی کم کر کے تین سال کی گئی۔
ترمیم کے مطابق قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا۔
ترامیمی قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔
نیب ترامیم سے فائدہ کس کس کو ہوا؟
جاری کیس میں نیب نے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم حکومتوں میں نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست بھی سپریم کورٹ میں پیش کی تھی۔ نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ نیب ترامیم سے وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے فائدہ اٹھایا۔ نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کا بیٹا بھی شامل ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے منگل کو ہونے والی سماعت عمران خان کے اس ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ پچھلے ہفتے ایک معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا، آئینی تاریخ میں پہلی بار ایک شخص نے اس قانون سے فائدہ حاصل کیا جس کو انہوں نے چیلنج کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں جس قانون سے فائدہ وہ حاصل کر چکے اس سے کوئی اور مستفید نہ ہو۔