پورے کاؤنٹر پر کھانے کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں۔ بجلی سے چلنے والے چولہے کے بالائی حصے پر گذشتہ رات کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والا تیل لگا ہوا ہے۔
کوڑے دانوں کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔ برتن دھونے کے سنک کے اردگرد کیلشیم کی تہہ دوبارہ جمنا شروع ہو چکی ہے۔
بلی کے کھانے کی جگہ ایسی نظر آنے لگی ہے جیسے وہ کسی پیالے کی بجائے فرش پر کھانا کھاتی رہی ہو۔
باورچی خانے کی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کہ ہمیں زیادہ پیاز اور لہسن خریدنے، (بروکلی نما سبزی) کیل اور پالک کے باسی ہو جانے سے قبل اس کے استعمال، پانی صاف کرنے کے مزید فلٹرز کا آرڈر دینے اور بلی کے کھانے کے برتن کو دوبارہ بھرنے کی ضرورت ہے۔
ان ذہنی نوٹس کے ساتھ میں پہلے سے ہی منصوبہ بندی کر رہی ہوں کہ میں سامان خریدنے کے لیے دکانوں پر جا سکتی ہوں اور اس بات کا جائزہ لے رہی ہوں کہ پانی کے فلٹر ہمارے بجٹ کو کس حد تک متاثر کریں گے۔
میں اپنے پیارے، حساس اور محنتی شوہر سے کہتی ہوں کہ ’باورچی خانے میں صفائی کی ضرورت ہے۔‘ وہ اپنے پلے سٹیشن سے نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ ’کیا ایسا ہے؟‘ وہ سچے دل کے ساتھ سوال کرتے ہیں۔
میں انہیں گھورتی ہوں۔ یقین نہیں کر پا رہی کہ میں جو دیکھ رہی ہوں وہ اسے نہیں دیکھ سکتے۔ کیا میں پاگل ہوں؟ یا وہ ہیں؟
کبھی کبھی گھر کے دیگر حصوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ فرش پر جھاڑو لگانے کی ضرورت ہے یا بیت الخلا کو تیزاب کے ساتھ صاف کرنے کی۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان آنکھوں پر کسی قسم کا پردہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ جادو کے زیر اثر اس گندگی کو دیکھنے سے قاصر ہیں جس کے بارے میں میں تقریباً مسلسل سوچ رہی ہوں۔
ایسا نہیں کہ وہ میری بالکل مدد نہیں کرتے۔ لیکن ان کاموں کی طرف توجہ نہ دینے کے رجحان جنہیں کرنے کی ضرورت ہے اور صرف اس وقت وہ کام کرنا جب میں کہوں، میرے شوہر کے لیے انوکھا نہیں۔
یہ سب جانتے ہیں کہ کم از کم معمول کے جنسی رجحان کے مالک جوڑوں میں خواتین کو گھریلو کام کاج کرنا پڑتا ہے۔
2020 کے گریزیا کے ایک جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے پارٹنر کے ساتھ رہنے والی 73 فیصد خواتین نے محسوس کیا کہ انہوں نے اپنے ساتھی کے مقابلے میں گھر پر ’دکھائی نہ دینے والی‘ زیادہ مشقت اٹھائی۔
ان میں سے 55 فیصد خواتین نے محسوس کیا کہ اس طرح کے عدم توازن کا ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
فلسفیوں نے اس بات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرد حضرات کو صورت حال دکھائی کیوں نہیں دیتی۔
وہ اسے ’ضرورت کا نظریہ‘ کہتے ہیں جس میں کسی ضرورت کو ’عمل کے امکان‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
جریدے فلاسفی اینڈ فینومینولوجیکل ریسرچ میں لکھتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین کہتے ہیں کہ گھر کے ماحول میں مرد حضرات کو ان میں سے بہت سے اقدامات کے امکانات اتنے نظر نہیں آتے جتنے خواتین کو آتے ہیں۔ سوچ کے اس فرق کو صنف سے متاثرہ کہا جاتا ہے۔
ویانا یونیورسٹی جانے سے پہلے کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں کام کرنے والی پروفیسر پولینا سلیوا اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہ صرف درخت کی شکل اور حجم کو دیکھنا اور پھر یہ اندازہ لگانا نہیں کہ آپ اس پر چڑھ سکتے ہیں بلکہ اصل میں کسی خاص درخت کو چڑھنے کے قابل دیکھنا، یا ایک کپ کو پینے کے قابل دیکھنا ہے۔
’نیورو سائنس نے بتایا ہے کہ ضرورت کا ادراک آپ کو جسمانی عمل کے لیے تیار کرنے والے اعصابی عمل کو متحرک کرسکتا ہے۔
’یہ معمولی خواہش سے لے کر سخت مجبوری تک ہوسکتا ہے لیکن اس سلسلے میں اکثر ذہنی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی ضرورت کی صورت میں ہی عمل نہ کیا جائے۔
’ضروری کام آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں۔ کام اس وقت تک سوچنے والے کو تنگ کر سکتے ہیں جب کہ وہ ہو نہیں جاتے یا وہ دوسرے کاموں سے توجہ ہٹا دیتے ہیں۔
’مزاحمت کی صورت میں یہ صورت حال تناؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ صورت حال خواتین کو مخمصے کا شکار کر دیتی ہے۔ خواہ وہ مشقت میں عدم مساوات ہو یا سوچنے کی ذمہ داری میں عدم مساوات۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب میں گندے چولہے کے بالائی حصے کو دیکھتی ہوں تو میرے خیالات فوری طور پر اس طرف چلے جاتے ہیں کہ اسے کیسے صاف کیا جا سکتا ہے اور پھر مجھے کام کو مکمل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
لیکن جب میرے شوہر گندے چولہے کے اوپری حصے کو دیکھتے ہیں تو ان کی سوچ وہیں رک جاتی ہے۔
برطانوی طبی جریدے کے مطابق دنیا بھر میں خواتین مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ دیکھ بھال اور گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔
کووڈ کے وبائی مرض کے دوران اس حقیقت کے باوجود کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر کسی نے گھر پر زیادہ وقت گزارا، ’(دیکھ بھال اور گھریلو) کام کاج میں اضافہ اور شدت عورتوں کے لیے کہیں زیادہ رہے۔‘
گھریلو کام کا تعلق کس طرح صنف کے ساتھ ہوتا ہے، اس کی وجہ سے خواتین اور لڑکیاں اکثر کل وقتی کام یا سکول کے بعد اکثر یہ دکھائی نہ دینے والی مشقت اٹھاتی ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم کے مطابق ’صنف کی بنیاد پر ضرورت کو سمجھنے کا مضروضہ‘ مردوں کو گھر میں ان کی سست روی کی وجہ سے بری الذمہ قرار دینے کے بارے میں نہیں ہے۔
گھریلو کاموں کی انجام دہی کے حوالے سے حساس ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین فطری طور پر گھریلو کام کاج کرنے کے رجحان کی مالک ہوتی ہیں۔
یونیورسٹی کے شعبہ ہسٹری اینڈ فلاسفی آف سائنس سے وابستہ ڈاکٹر ٹام میک کلی لینڈ کا کہنا ہے کہ ’مردوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ گھریلو کاموں کے حوالے سے اپنی حساسیت کو بہتر بنا کر صنفی اصولوں کی مزاحمت کریں۔
’مثال کے طور پر جب بھی کوئی شخص ہر بار کیتلی میں پانی کے ابلنے کا انتظار کرتا ہے تو وہ خوراک کے گرے ہوئے ٹکڑے صاف سکتا ہے۔
’اس سے نہ صرف انہیں ان کاموں کو کرنے میں مدد ملے گی جو انہیں دکھائی نہیں دیتے بلکہ یہ عمل بتدریج ان کی سوچ کی دوبارہ تربیت کرے گا تاکہ وہ مستقبل میں اس کی ضرورت محسوس کرنا شروع کر دیں۔‘
خلاصہ یہ ہے کہ مرد حضرات کے پاس کوئی عذر نہیں کہ وہ دکھائی نہ دینے والی مشقت میں مساوی حصہ نہ ڈالیں۔
اگر زیادہ سے زیادہ مرد گھر میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے نظر انداز کر دینے کی بجائے اس کے بارے میں سوچنے کا عزم کریں تو اس صورت میں ہم ہماری گھریلو زندگیاں زیادہ مساوات پر مبنی ہو سکتی ہیں اور تعلقات زیادہ متوازن ہوں گے۔ خواتین زیادہ خوش رہیں گی۔ اس طرح سب ہنسی خوشی رہیں گے۔
اب میں اس تحقیق کو پرنٹ کرواؤں گی اور اسے کسی ایسی جگہ چھوڑ دوں گی جہاں میرے شوہر اسے دیکھ لیں گے۔
© The Independent