بچوں سے گھریلو مشقت کروانے کی حوصلہ شکنی اور ان کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ایک نجی ادارے نے مختلف شہروں میں گھروں کی عمارتوں پر ایسی تختیاں آویزاں کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جن پر لکھا ہوگا کہ ’یہاں کوئی بچہ مشقت نہیں کرتا۔‘
گروپ ڈیویلپمنٹ پاکستان نامی غیر سرکاری تنظیم نے منصوبے کی تکمیل کی خاطر کچھ نمونے تیار کیے ہیں، جنہیں پشاور، اسلام آباد اور لاہور میں مختلف آبادیوں کو مفت دیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے حقوق اطفال کے سرگرم نمائندے عمران ٹکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسی تقریباً 300 پلیٹس پشاور میں ان افراد کو دی جائیں گی جو اس نصب العین کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے معاشرے میں شعور و آگہی پھیلانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی قانون کے مطابق 14 سال سے کم عمر بچوں سے گھریلو مشقت کرانا ایک قابل سزا جرم ہے، جس کی سزا ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’حیران کن امر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں چائلڈ لیبر سے متعلق ڈیٹا بالکل نہیں ہے۔ تقریباً دو سال قبل ایک کیس رپورٹ ہوا تھا۔‘
عمران ٹکر کے مطابق، 2005 میں سپارک نامی تنظیم نے ایک سروے کیا تھا جس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پشاور کے پوش علاقوں جیسے حیات آباد و دیگر میں ہر چھٹے گھر میں ایک بچہ ملازمت پر مامور ہے۔
یوتھ ایکٹوسٹ علی حسن ٹکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچوں سے گھریلو مشقت کروانے کی حوصلہ شکنی کے لیے گھر کے دروازے پر ایک پلیٹ لگانا اور مہذب شہریوں میں شمار ہونا اچھا آئیڈیا ہے اور اس کا معاشرے پر یقیناً اثر پڑے گا۔
انہوں نے اپنے گھر سے اس مہم کا آغاز کیا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ پلیٹ دیکھ کر ان کے کچھ دوست بھی مرعوب ہوئے اور اب وہ اپنے گھروں کے داخلی دروازوں پر یہ پلیٹ لگوانا چاہتے ہیں۔
علی حسن نے بتایا کہ ’آج کل کے نوجوانوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز معیشت اور سیاست ہے اور وہ کسی بھی طرح سماجی مسائل کی جانب رجحان نہیں رکھتے۔ ان میں رجحان سازی کی ضرورت ہے۔‘
چائلڈ لیبر کی عالمی ممانعت
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے مطابق پانچ سے 15 سال کے ڈیڑھ سے دو کروڑ بچے گھریلو مشقت کا شکار ہیں جو کہ آئی ایل او کے کنونشن 138 اور 182 کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان کا آئین بھی بچوں کی ملازمت کے حوالے سے خاموش نہیں ہے اور کچھ قوانین ایسے نافذ کیے ہیں، جن کا مقصد بچوں کا ذہنی، جسمانی اور جنسی تحفظ یقینی بنانا ہے۔
تاہم دیکھنے میں آتا ہے کہ بلوچستان کے چائلڈ لیبر ایکٹ 2021 کے علاوہ باقی تینوں صوبوں کے چائلڈ لیبر پر مبنی قوانین بچوں کی گھریلو ملازمت کا کچھ خاص ذکرنہیں کرتے اور نہ ہی اس حوالے سے مخصوص ہدایات موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ بچوں کو گھریلو ملازمت کے لیے رکھوانے کے کئی نقصانات ہیں ’اول تو ان کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ دوم یہ کہ والدین کی عدم موجودگی میں ان کے ساتھ ذہنی، جسمانی اور جنسی بدسلوکی کا امکان ہوتا ہے۔ ان سے کم اجرت پر زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ ایسے بچے اکثردور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور والدین اکثر ایسے بچوں کے مسائل سے لاعلم ہی رہتے ہیں۔‘
علی حسن کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اگر ایک بچہ والدین کی نظروں سے دور ہے اور بند دروازوں کے پیچھے ہے تو یہ اس کو ہر قسم کے تشدد اور بدسلوکی سے ملواتا ہے۔
’چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے تعلیم کی پالیسی سب سے بہترین ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا ہمارے پاس اس کی پسندیدہ مثالیں ہیں، جو تعلیم کے ذریعے چائلڈ لیبر میں کمی لائے ہیں۔‘
غیر سرکاری تنظیم سرچ فار جسٹس کے اعدادوشمار کے مطابق صرف پنجاب میں 2019 سے 2020 کے دوران گھریلو ملازمت کرنے والے تین سو سے زائد شدید تشدد کے شکار بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے ریسکیو کیا تھا۔
سماجی کارکنان کے مطابق ’چائلڈ لیبر پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور باوجود چاروں صوبوں میں قوانین ہونے کے، آٹو ورکشاپس سمیت گھروں میں بچوں سے مشقت کروائی جاتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے رپورٹس پھر بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سوشل ایکٹیوسٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی علاقے سے ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوتا تو یہ تشویش کی بات ہے۔