پنجاب کے شہر فیصل آباد کی پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر ایک 10 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے الزام میں گھر کے مالک کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ان کی اہلیہ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
تھانہ پیپلز کالونی کے سب انسپیکٹر محمد سفیان بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچی کا تعلق وزیر آباد سے ہے اور وہ گذشتہ چھ ماہ سے ملزم کے گھر پر بطور ملازمہ کام کر رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچی سے دودھ ابالتے ہوئے گرا، جس پر دونوں میاں بیوی نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
سب انسپکٹر محمد سفیان کے مطابق بچی کے والدین کو اطلاع دے دی گئی ہے لیکن ابھی وہ فیصل آباد نہیں پہنچے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر تھانہ پیپلز کالونی میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چائلڈ پروٹیکشن آفیسر روبینہ اقبال کی مدعیت میں درج کی گئی ہے اور بچی کو بھی بیورو کے حوالے کردیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی آر ’دی پنجاب ڈیسٹی ٹیوٹ اینڈ نگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ 2004‘ کی دفعہ 34، دفعہ 328 اے اور دفعہ 344 کے تحت درج کی گئی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ایف آئی آر کے متن کے مطابق مدعیہ کا کہنا تھا کہ وہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو میں چائلڈ پروٹیکشن آفیسر کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ’26 ستمبر کی رات 11 بجے انہیں ہیلپ لائن پر (اہل علاقہ کی طرف سے) اطلاع ملی کہ پیپلز کالونی کے ایک گھر میں ایک نو سے دس سال کی بچی کو بطور ملازمہ رکھا گیا ہے اور بچی روزانہ تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ بچی کی چیخ و پکار اور منت سماجت کی آوازیں اہل علاقہ کو سنائی دیتی ہیں۔‘
ایف آئی آر کے مطابق: ’26 ستمبر کو ہم (اہل علاقہ) نے مالکان کی بچی پر تشدد کرنے کی ویڈیو بنائی تاکہ بطور ثبوت پیش کی جاسکے اور متعلقہ اداروں کو بھیجی تاکہ بچی کو اس ظلم سے بچایا جا سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد متعلقہ پولیس سٹیشن سے رابطہ کیا گیا اور بچی کو ملزمان کے گھر سے بازیاب کروایا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق بچی نے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کو دیے گئے اپنے بیان میں بتایا کہ ان کی والدہ نے انہیں چھ ماہ قبل ملزمان کے گھر بطور گھریلو ملازمہ کام پر رکھوایا تھا، ملزمان دن رات ان سے کام کرواتے تھے، جس میں صفائی، برتن دھونا، کپڑے دھونا اور چھوٹی بچیوں کی دیکھ بھال وغیرہ شامل تھی۔
بچی کا کہنا تھا کہ انہیں دن میں ایک دو بار ہی کھانا دیا جاتا تھا اور معمولی غلطیوں پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔
ایف آئی آر کے مطابق بچی نے یہ بھی بتایا کہ منگل کی رات ان سے دودھ ابل کر گر گیا جس پر مالکن نے اشتعال میں آکر انہیں بہت مارا۔
دوسری جانب چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئر پرسن سارا احمد نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بچی اس وقت فیصل آباد کے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی تحویل میں ہے اور اس کے جسم پر تشدد اور زخموں کے نشان تھے۔
گھریلو ملازمین سے متعلق قانون
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈووکیٹ احمر مجید نے اس حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’پنجاب میں پنجاب ڈومیسٹک ورکر ایکٹ 2019 موجود ہے، جس کی سیکشن تین کے مطابق 15 سال سے کم عمر کوئی بھی بچہ گھریلو ملازم کے طور پر کسی بھی صورت کام نہیں کر سکتا۔ 15 سے 18 سال کی عمر کے کسی بچے کو اگر رکھا جائے گا تو وہ صرف ہلکا پھلکا کام کر سکتا ہے۔‘
احمر مجید کے مطابق: ’ہلکے پھلکے کام کی تعریف یہ ہے کہ وہ پارٹ ٹائم ہوگا اور بچے کی صحت، حفاظت اور پڑھائی اس کام سے متاثر نہ ہو۔ اسی طرح پنجاب ڈومیسٹک ورکر ایکٹ 2019 کی سیکشن 31 میں سزائیں بیان کی گئی ہیں کہ اگر کوئی 15 سال سے 18 سال کے بچے کو بطور گھریلو ملازم رکھے گا تو اسے کیا سزا ہو گی یا اگر بچہ 12 سے 15 سال کا ہے یا 12 سال سے کم عمر کا بچہ ہے تو کیا صورت حال ہوگی۔‘
ایڈووکیٹ احمر مجید نے مزید بتایا کہ ’سیکشن 31 (1) کے مطابق ایک آجر جو دفعہ تین کے علاوہ ایکٹ کی کسی بھی شق کی تعمیل کرنے یا اس کی خلاف ورزی کرنے میں ناکام رہے گا، اسے جرم ثابت ہونے پر جرمانے کی سزا دی جائے گی، جو پہلے جرم کے لیے پانچ ہزار روپے اور دوسرے جرم کے لیے زیادہ ہو سکتی ہے۔‘
اسی طرح ’سیکشن 31 (2) کے مطابق جو بھی جان بوجھ کر دفعہ تین کی شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے قید کی سزا دی جائے گی، جو ایک ماہ تک بڑھ سکتی ہے۔ اگر وہ 12 سال سے کم عمر کے بچے کو ملازمت دیتا ہے یا 15 سال سے کم عمر کے بچے کو تو اس صورت میں جرمانہ 50 ہزار روپے سے بڑھ سکتا ہے لیکن 10 ہزار روپے سے کم جرمانہ نہیں کیا جائے گا۔‘