کیا سارے مرد برے ہیں؟

کیا خواتین کا تمام مردوں کی ایک ہی کھاتے میں درجہ بندی کرنا درست ہے؟ یا مردوں کو خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور مظالم کو دیکھتے ہوئے اس جملے کے پیچھے چھپا ہوا ان کا مطلب اور احساس سمجھنے کی ضرورت ہے؟

اسلام آباد میں آٹھ مارچ 2022 کو خواتین اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کر رہی ہیں (فائل فوٹو/اے ایف پی)

کچھ دنوں سے پاکستان میں ٹوئٹر پر ’آل مین آر ٹریش‘ پر بحث ہو رہی ہے۔ خواتین کہہ رہی ہیں کہ تمام مرد برے ہیں۔ مرد جواب میں ان سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ان کے باپ، بھائی اور شوہر بھی برے ہیں؟

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

یہ پرانی بحث ہے۔ خواتین جب بھی اپنے اوپر بیتے مظالم کا تانا بانا مردوں سے جوڑتی ہیں تو مرد ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہوئے ان سے وضاحت مانگنے لگتے ہیں۔

مردوں کا آپس میں ’برو کوڈ‘ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر انجان مردوں کی خاطر خواتین کو جو کچھ کہہ سکتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔

’آل مین آر ٹریش‘ صرف پاکستانی سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ یہ جملہ دنیا میں ہر جگہ استعمال ہوتا ہے اور اس پر ہر جگہ کچھ ایسی ہی بحث ہوتی ہے۔

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا خواتین کا تمام مردوں کی ایک ہی کھاتے میں درجہ بندی کرنا درست ہے؟ یا مردوں کو خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور مظالم کو دیکھتے ہوئے اس جملے کے پیچھے چھپا ہوا ان کا مطلب اور احساس سمجھنے کی ضرورت ہے؟

خواتین کا تمام مردوں کو برا کہنا ان کی اس بے بسی سے آتا ہے جو اپنے اور اپنی صنف پر مردوں کی طرف سے ہوتے ہوئے مظالم کو نہ روک سکنے سے پیدا ہوتی ہے۔

وہ اس جملے کی مدد سے اپنی صنف پر مردوں کی طرف سے ہونے والی بد سلوکی، امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات کو اجاگر کرتی ہیں۔

وہ مردوں کو کچرا کہتے ہوئے خواتین پر ہونے والے جنسی حملوں اور گھریلو تشدد کی بات کرتی ہیں جن کا محرک بیشتر کیسز میں مرد ہی ہوتے ہیں۔

وہ ان مسائل کی بات کرتی ہیں جو شاید مردوں کے لیے مسائل ہی نہیں ہیں۔ جیسے سڑک پر کسی کو چلتا ہوا دیکھ کر آنکھ مار دینا یا اسے اپنے ساتھ آنے کا کہنا یا کام کی جگہ پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا یا بس ایک ’بے ضرر‘ امتیازی مذاق ہی کر دینا۔

خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور مظالم کی اتنی زیادہ شرح سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردوں کے یہ رویے ان میں موجود شاذ و نادر خرابیاں نہیں ہیں بلکہ ان کے گرد موجود پدر شاہی معاشرے کی طرف سے ملا ہوا تحفہ ہیں۔

مرد اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک پورے متنوع گروہ کو اس قدر سختی سے پرکھنا غلط اور غیر اخلاقی ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ ایسے مفروضے افراد کے ظاہر کردہ اعمال پر مبنی ہونے چاہیے، نہ کہ ان کی جنس پر۔

وہ کہتے ہیں کہ ہر مرد تشدد پسند یا شکاری نہیں ہوتا۔ اس لیے خواتین کو سب کی درجہ بندی ایک طرح نہیں کرنی چاہیے۔ ایسا کر کے وہ مردوں سے نفرت کو فروغ دیتی ہیں جو ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔

خواتین سمجھتی ہیں کہ مردوں کا ان نکات کو اٹھانا بھی ’برو کوڈ‘ میں آتا ہے۔ وہ ان کی شروع کردہ بحث کو دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے انکاری ہیں کہ ان کی وجہ سے لڑکیوں اور خواتین کی زندگیوں میں شدید مسائل موجود ہیں۔

وہ سمجھتی ہیں کہ مرد اپنی برائیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مردوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواتین سب مردوں کو برا نہیں سمجھتیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان برے مردوں میں کچھ اچھے مرد بھی موجود ہیں لیکن وہ ہر حالت میں ہر مرد پر بھروسہ کرنے کا رسک نہیں لے سکتیں۔

انہیں نہیں معلوم کہ کس وقت کون سا مرد ان کے ساتھ برا سلوک کر سکتا ہے۔ ان کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ سالوں پرانے دوست ایک دن انہیں بتاتے ہیں کہ وہ ان کے لیے بس ایک عورت ہیں۔

ان کا محبوب شوہر ایک دن ان پر بلاوجہ چیخ پڑتا ہے یا ان پر پابندیاں لگانا شروع کر دیتا ہے۔ ان کا اپنا بھائی انہیں جائیداد میں ان کا حصہ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔

ان کا باس یا کولیگ ایک نارمل انداز میں ان پر ایک ایسا جملہ کس دیتا ہے جو کئی سالوں تک انہیں چبھتا رہتا ہے۔

مردوں کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کا اپنی حفاظت کے لیے اجتماعی طور پر مردوں سے محتاط رہنا، یا انہیں برا کہنا ان پر حملہ کرنا نہیں ہے۔

اگر وہ اپنے آپ کو خواتین کے لیے محفوظ سمجھتے ہیں تو انہیں اس جملے پر برا نہیں ماننا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو ان کے لیے بہتر بنانا چاہیے۔

اس کی ابتدا وہ اپنے گھر سے کر سکتے ہیں۔ اگر ان کے گھر کی عورتیں ان کے ساتھ ایک گھنٹہ آرام سے بیٹھ سکتی ہیں تو وہ ٹریش نہیں ہیں لیکن اگر وہ خاتون ان کے ساتھ وہ ایک گھنٹہ مجبوری میں گزار رہی ہیں تو انہیں اپنے اوپر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

خود کو اپنے قریبی لوگوں اور معاشرے کے لیے بہتر بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ