پاکستان کا محکمہ آثارِ قدیمہ اسلام آباد سے 35 کلومیٹر دور جنوب مشرق کی طرف سلطان مقرب خان کے مقبرے اور مسجد مائی قمرو کی کھدائیاں کر رہا ہے۔ یہ قدیم عمارات دریائے سواں کے کنارے پر واقع ہیں، جن کے عین مشرق کی طرف پوٹھوہار کا قدیم تاریخی قلعہ پھروالہ اپنی رہی سہی شان لیے کھڑا ہے۔
قلعہ پھروالہ اور سلطان مقرب کے مقبرے کے بیچ دریائے سواں بہہ رہا ہے۔ اسی دریا پر پھروالہ سے چند کلومیٹر پہلے سملی کے مقام پر ایک ڈیم بنا ہوا ہے جہاں سے اسلام آباد کے باسیوں کو پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے۔
لاکھوں سال پہلے اسی دریا کے کنارے قدیم ترین انسانی شواہد ملے ہیں۔ جرمن ماہر آثارِ قدیمہ ہلمٹ ڈی ٹیرا (Helmut de Terra) نے 1939 میں اسی دریا کے کنارے چونترا، اڈیالہ، ملک پور اور روات میں ایسے پتھر کے اوزار دریافت کیے تھے جو ابتدائی پتھر کے زمانے Paleolithic کے ہیں۔
اس زمانے کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ آج سے دو سے 25 لاکھ سال پہلے کا ہے۔ ڈاکٹر ڈی ٹیرا کو روات کے قریب دو ایسی انسانی کھوپڑیوں کی باقیات بھی ملی تھیں جو جدید پتھر کے زمانے کے ہیں جو 12 ہزار سال پہلے گزرا ہے۔
قلعہ پھروالہ کا موجودہ حوالہ بھی ایک ہزار سال پرانا بتایا جاتا ہے، جو پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال حکمرانی کرنے والے گکھڑ قبیلے سے موسوم ہے۔ گکھڑوں کی اپنی لکھی ہوئی ایک کتاب ’کئے گوہرنامہ‘ جسے 17 ویں صدی میں ایک مصنف دونی چند نے لکھا تھا، کے مطابق گکھڑ، سلطان محمود غزنوی کے ساتھ وارد ہوئے تھے جنہیں سلطان نے 1001 سے 1010 کے درمیان پوٹھوہار کی حکومت دے کر یہاں تعینات کر دیا تھا۔
گکھڑ اپنا وطن کیان ایران بتاتے ہیں اور اسی نسبت سے کیانی کہلاتے ہیں جبکہ تاریخِ فرشتہ کے مطابق گکھڑ مقامی قبیلہ ہے۔ ایک اور خیال یہ بھی ہے کہ 326 قبل مسیح میں دریائے جہلم کے کنارے فاتح عالم سکندر مقدونی کا مقابلہ کرنے کے لیے راجہ پورس نے ہندوستان بھر سے جری قبائل کو اکٹھا کیا تھا۔ گکھڑ بھی اسی وقت ہمالیہ کے دامن میں اترے تھے اور پھر یہیں رچ بس گئے۔
گکھڑوں کے پوٹھوہار میں تین قلعے ہیں۔ ایک پھروالہ، دوسرا روات اور تیسرا دان گلی جو دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ہے۔ پھروالہ ان میں سب سے زیادہ اہم ہے جہاں مغل بادشاہ بابر اور ہمایوں بھی آئے تھے۔
انگریز مصنف میجر جنرل ڈیوڈ جے ایف نیوال 1882 میں چھپنے والی اپنی کتاب The Highlands of India میں یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ رامائن کا ہیرو رام چندر ایودھیا میں نہیں بلکہ پھروالہ میں پیدا ہوا تھا، جو اس وقت ریاست ’اودھیانہ‘ کا حصہ تھا، جس میں پوٹھوہار، ہزارہ اور سوات تک کے علاقے شامل تھے۔
قلعہ پھروالہ کی اصل تاریخ کیا ہے اور یہ کتنا قدیم ہو سکتا ہے؟ کیا یہاں گکھڑوں کے آنے سے پہلے بھی آثار موجود تھے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے محکمہ آثارِ قدیمہ اپنا دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔
کیونکہ اگر یہ سچ مان لیا جائے کہ گکھڑ سلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر تیسرے حملے کے وقت ہم رکاب تھے تو اس حملے میں سلطان نے 1008 میں ہندو راجہ آنند پال کو شکست دی تھی، جس کی سلطنت شمالی ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ پھروالہ کا قلعہ آنند پال کے وقت بھی موجود ہو اور سلطان کی فوج نے اسے تسخیر کر کے اسے گکھڑوں کے حوالے کر دیا ہو۔
یہ تاریخی گتھی سلجھانے کے لیے محکمہ آثارِ قدیمہ کی یہ کھدائیاں بہت اہم ثابت ہوں گی۔
سلطان مقرب خان کون تھے؟
محکمہ آثار قدیمہ پہلے مرحلے میں قلعے اور دریا کی دوسری جانب ایک مقبرے اور مسجد کی بحالی کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ ایک نہایت مشکل مرحلہ ہے کیونکہ سالہا سال سے یہ جگہ غیرآباد تھی اور یہاں جنگلی جھاڑیوں کی بہتات تھی، جنہوں نے ان آثار کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جنگل کاٹنا اور پھر نیچے سے آثار کی کھدائی خاصا صبر آزما مرحلہ تھا۔
محکمہ آثار قدیمہ کے لیے ایک مشکل یہ بھی تھی کہ یہاں آنے کے لیے کوئی سڑک موجود نہیں تھی، لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود جب ایک مقبرے کی کھدائی کی گئی تو ماہرین کے نزدیک کئی سوالات کھڑے ہو گئے۔
گکھڑوں کی اپنی روایات کے مطابق یہ مقبرہ آخری گکھڑ سلطان مقرب خان کا ہے۔ سلطان مقرب خان کون تھے؟ اس حوالے سے تاریخ میں ہمیں جو تذکرہ ملتا ہے وہ 1865 میں چھپنے والی Sir Lepel H. Griffin کی کتاب The Punjab Chiefs ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ جب 1556 میں اکبر دہلی کے تخت پر بیٹھا تو سلطان سارنگ خان کا بیٹا کمال خان دلی میں تھا۔ اکبر نے کمال خان کو پھروالہ کا حاکم مقرر کیا۔ اسی کمال خان کی اولاد میں دولو مراد خان تھا، جو خود ایک صوفی منش شخص تھا اور کاروبارِ حکومت اس کی بیوی چلاتی تھی۔
1726 میں دلو مراد خان کی وفات کے بعد سلطان مقرب خان حکمران بن گیا۔ مقرب خان تاریخ میں واحد گکھڑ حکمران تھا، جس کی عمل داری دریائے سندھ کے اس طرف اٹک سے دریائے چناب یعنی گجرات تک پھیل گئی تھیں۔
خود لیپل ایچ گرفن لکھتے ہیں کہ مقرب خان کے عہد میں گکھڑوں کو جو طاقت ملی وہ اور کسی گکھڑ سلطان کے حصے میں نہیں آئی۔ اس نے یوسف زئی پٹھانوں اور قلی خان رئیس خٹک کو مات دی اور چبھوں کو شکست دے کر گجرات اور بھمبر پر قبضہ کر لیا۔
یہ احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہندوستان پر کئی حملوں میں شریک رہا اور احمد شاہ نے اسے دریائے سندھ اور چناب کا درمیانی علاقہ دے دیا۔ سلطان مقرب ہی وہ واحد گکھڑ حکمران تھا جس نے اپنا سکہ ڈھلوایا، جس پر کنندہ تھا ’درمیانِ اٹک و جہلم شد، سلطان مقرب بادشاہ‘۔
سلطان مقرب کی بادشاہت اس وقت ختم ہوئی جب 1765 میں ایک سکھ رئیس گوجر سنگھ بھنگی نے لاہور سے نکل کر گکھڑ ریاست پر چڑھائی کی۔ یہ معرکہ گجرات میں ہوا جس میں سلطان مقرب خان کو شکست ہوئی اور وہ چچ دوآب سے پسپا ہو کر جہلم کے اس پار مورچہ زن ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلطان مقرب خان کو شکست خوردہ پا کر ایک اور گکھڑ رئیس ہمت خان آف ڈومیلی نے ایک سازش کے ذریعے سلطان مقرب خان کو قید کر کے قتل کر ڈالا اور خود حکمران بن گیا۔ گوجر سنگھ بھنگی نے سلطان مقرب خان کے بیٹوں سے باقی جاگیر لے لی لیکن پھروالہ رہنے دیا۔
لیکن جب گوجر سنگھ بھنگی کی وفات کے بعد اس کے بیٹے صاحب سنگھ سے راولپنڈی کا علاقہ لاہور کے علاقے تھئے پور کے اور سکھ سردار ملکھا سنگھ نے لے لیا تو اس نے سلطان مقرب خان کے وارثوں سے تمام جاگیریں چھین کر انہیں مفلس کر دیا۔
’تاریخ کیانیاں‘ کے مصنف راجہ پرویز اختر کیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قلعہ پھروالہ کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے، جو گکھڑوں کے قلعے دان گلی میں ان کا ملازم رہ چکا تھا، 1821 میں تباہ کر ڈالا۔
سلطان مقرب خان کی موت کے حوالے سے تین روایتیں موجود ہیں۔ ایک یہ کہ جب اسے بھنگی سنگھ سے شکست ہوئی تو وہ فرار ہوتے ہوئے گجرات میں نالہ پلکھو میں اپنے ہاتھی سمیت بہہ گیا۔ دوسری یہ کہ وہ روہتاس آیا جہاں اسے ہمت خان آف ڈومیلی نے دھوکے سے مار کر کوٹیام کی باؤلی میں پھینک دیا اور تیسری یہ کہ وہ زخمی حالت میں پھروالہ واپس پہنچا اور دروازے پر پہنچ کر مر گیا۔
محکمہ آثار قدیمہ کو اس مقبرے کے احاطے میں درجنوں دیگر قبریں بھی ملی ہیں۔
اس حوالے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد الغفور لون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سلطان مقرب کے مقبرے کے اندر کسی قبر کی موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے کیونکہ بتایا جاتا ہے کہ سکھوں نے سلطان مقرب کی لاش یہاں سے نکال لی تھی، لیکن مقبرے کے ساتھ پھیلی ہوئی باقی قبروں میں سے ایک کی کھدائی سے پتہ چلا ہے کہ یہ فوجیوں کی قبریں ہیں جو کسی جھڑپ میں مارے گئے تھے اور ان کی تدفین ہنگامی بنیادوں پر کی گئی تھی۔
کیونکہ جس قبر کی کشائی کی گئی اس مردے کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں لیکن اس کا رخ مغرب کی طرف تھا، جس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ مسلمان فوجی تھے۔ گکھڑوں کے اپنے ذرائع کہتے ہیں کہ یہ وہ فوجی ہیں، جو پھروالہ قلعے پر بابر کے حملے کے وقت مارے گئے تھے۔
اس مقبرے کے احاطے میں یہ دیگر قبریں کسی معرکے میں مارے جانے والے جنگجوؤں کی ہیں کیونکہ انہی قبروں کے بالکل اوپر ایک ایسی چیک پوسٹ کی بنیادیں کھڑی کی گئی ہیں، جو سکھ دور میں تعمیر ہوئی۔
یہ چیک پوسٹ تعمیر کرتے وقت قبروں کی حرمت کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟ مقبرے کے احاطے میں موجود دوسری عمارت جو سکھ دور کی ہے اس کی الائنمنٹ مقبرے سے نہیں ملتی۔ اس کی بنیادیں قبروں کے اوپر کیوں کھڑی کی گئیں؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات کے جوابات ہمیں درپیش ہیں۔
مسجد مائی قمرو کی کہانی کیا ہے؟
گکھڑ رانی مائی قمرو کے بارے میں روایات میں اتنا ہی ملتا ہے کہ وہ گکھڑ سردار ہاتھی خان کی بیوی تھی۔ ہاتھی خان، گکھڑ سلطان جستر خان کا بھتیجا تھا۔ سلطان جستر خان نے کشمیر پر قبضہ کیا اور 1553 میں راجہ جموں رائے بھیم کو شکست دے کر مار ڈالا۔ اسی نے ایک اور حملے میں کشمیر کے بادشاہ آلا شاہ کو بھی قید کر لیا۔
اس نے ایک ترک جرنیل مکل توغان کے ساتھ مل کر دہلی کی جانب لشکر کشی کی، جالندھر پر قبضہ کر لیا مگر لدھیانہ میں شاہی افواج سے شکست کھا کر واپس راولپنڈی بھاگ آیا۔
جستر خان کے بعد کچھ عرصے اس کا بھائی تاتار خان حکمران بنا مگر اس کے بھتیجے ہاتھی خان نے اس کے خلاف بغاوت کر کے اسے قید کر لیا اور مار دیا۔ اس زمانے میں بابر ہندوستان پر حملے کی غرض سے بھیرہ میں مقیم تھا۔ تاتار خان کا داماد منو چہر بابر کے پاس گیا اور اس سے مدد چاہی۔
بابر نے پھروالہ پہنچ کر قلعے کا محاصہ کر لیا۔ ہاتھی خان فرار ہو گیا اور بعد میں بابر سے معافی کا خواستگار ہوا۔
اب تاریخ میں ہاتھی خان کی وفات کے حوالے سے دو باتیں مشہور ہیں، ایک یہ کہ اسے اس کی بیوی نے زہر دیا اور دوسرا یہ کہ اسے اس کے چچا زاد بھائی سلطان سارنگ خان نے زہر دے کر مار دیا۔ یہ وہی سارنگ خان ہیں جنہیں شیر شاہ سوری نے ان کے 16 بیٹوں سمیت مار دیا، جن کی قبریں روات قلعہ میں ہیں۔
مائی قمرو جس کے نام سے یہ مسجد آج بھی موجود ہے، ایک روایت کے مطابق یہ ہاتھی خان کی بیوی تھی۔
راجہ پرویز اختر کیانی کہتے ہیں کہ مائی قمرو کس کی بیوی تھیں تاریخ میں اس کے شواہد تو نہیں ملتے لیکن تاریخ میں مائی قمرو کے علاوہ گکھڑوں کی دو اور رانیوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے یہاں حکمرانی کی۔ ان میں ایک رانی منگھو اور دوسری رانی باہ ہیں، جنہوں نے اس زمانے میں قلعہ روہتاس کے علاقے میں زمینیں سیراب کرنے کے لیے دریائے جہلم سے ایک نہر نکالی تھی۔ اگر یہ ہاتھی خان کی بیوی ہیں تو ہاتھی خان کا مزار کلر سیداں میں پلاکھڑ گاؤں میں ہے۔
ڈاکٹر عبدالغفور لون نے بتایا کہ مسجد مائی قمرو اسلامی دور کے اسلام آباد کی سب سے قدیم مسجد ہے جس کے نیچے ہم نے کھدائیاں کر کے یہ تسلی بھی کی ہے کہ کہیں اس کے نیچے کسی اور مذہب کی کوئی عبادت گاہ تو نہیں ہے۔ مسجد کے چاروں طرف مینار بھی موجود تھے، جن کی باقیات ملی ہیں جبکہ یہاں سے چاندی کی ایک انگوٹھی اور بہت سے حقے بھی ملے ہیں۔
مسجد کے صحن کے باہر قبرستان میں تین بڑی قبریں ہیں جن سے لگتا ہے کہ وہ گکھڑ سرداروں کی ہیں۔ مسجد کے صحن سے متصل سب سے بڑی قبر جو ایک چبوترے پر ملی ہے، اس کے بارے میں گکھڑوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تاتار خان کی قبر ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے لیے پھروالہ قلعے کے باہر موجود ان تاریخی آثاروں کی بحالی نہایت اہم ہے، جس سے ہم تاریخ کی کڑیاں ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کے بعد اگلے مرحلے میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ پھروالہ قلعہ کتنا قدیم ہے اور اس قلعے میں کیا کیا ہے، جو ابھی تاریخ کی نظروں سے اوجھل ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔