پانچ نومبر کو علی گڑھ میونسپل کارپوریشن نے ایک قرارداد پاس کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ شہر کا نام علی گڑھ سے بدل کر ہری گڑھ رکھا جائے۔
یہ قرار داد بی جے پی سے تعلق رکھنے والے شہر کے میئر پرشانت سنگھال نے پیش کی جسے حتمی منظوری کے لیے لکھنو میں بی جے پی کی حکومت کو بھیج دیا گیا ہے ۔
بی جے پی کی جانب سے یہ مطالبہ 2019 سے کیا جا رہا ہے جب الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج رکھ دیا گیا تھا۔
علی گڑھ پر پچھلے 10 سال سے بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ انڈیا کے سابق صدر ذاکر حسین، سابق نائب صدر حامد انصاری، حسرت موہانی، اداکار نصیر الدین شاہ، نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر کا تعلق علی گڑھ سے ہی ہے۔
انڈیا نے اپنے قیام سے لے کر اب تک تقریباً 100سے زیادہ قصبوں اور شہروں کے نام تبدیل کیے ہیں جس کے پیچھے شروع میں وجوہات مختلف تھیں اور زیادہ تر شہروں کے نام تبدیل کرنے کی وجہ نو آبادیاتی نشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا تھا۔
تاہم انتہا پسند گروہ آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی بی جے پی نے ان شہروں کے تاریخی نام بھی بدلنے شروع کر رکھے ہیں جن کے پیچھے مسلم شناخت ہے۔ اس کی وجہ سے انڈیا کے سیکولر حلقے شدید تحفظات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
2000 سے پہلے صرف آٹھ شہروں کے نام بدلے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر کے نام تبدیل کرنے کے پیچھے حروف تہجی کی ترتیب تھی۔
مثال کے طور پر جبول پورے کو جبل پور، کاؤن پورے کو کان پور، بروڈا کو ودودا، بمبئی کو ممبئی، کوچین کو کوچی اور کلکتہ کو کولکتہ پکارا جانے لگا، مگر بعد میں جو نام بدلے گئے ان کے پیچھے دراصل ہندو توا کے نظریات تھے جو شہروں کی مسلم شناخت کی جگہ ہندو شناخت رائج کرنا چاہتے ہیں۔
بی جے پی نے شہروں کے نام بدلنے کی جو روش شروع کی تھی وہ ملک کا نام بدلنے پر منتج ہو چکی ہے اور اب بی جے پی انڈیا کی بجائے سرکاری دستاویزات میں لفظ بھارت استعمال کر رہی ہے کیونکہ اسے اب آ کر معلوم ہوا کہ لفظ انڈیا کی مناسبت تو انڈس ویلی سے ہے اور یہ علاقے اب پاکستان میں آتے ہیں۔
ماضی میں مدراس کو چنائی ، دلتنگ گنج کو مدینی نگر ، میسور کو مے سورو ، بیجا پور کو ویجیا پور، گرگان کو گرو گرام ، ہوشنگ آباد کو نرمادا پورم ،اورنگ آباد کو چھترا پتی سمبھاج نگر ، عثمان آباد کو دھراشیو ،گوہاٹی کو گواٹھی ، گلشن آبادکو ناشک ، پونا کو پونے ،بھوپال کو بھوج پال، الہ آبادکو پریاگ راج ، فیض آباد کو ایودھیہ وغیرہ سے بدلنا اس کی چند مثالیں ہیں ۔
آگرہ ،جہاں تاج محل ہے ،اس کا نام بھی بدل کر اگروان یا اگروال رکھنے کی تجویز ہے۔
علی گڑھ کا تحریک پاکستان میں کردار:
دو قومی نظریے کا بانی سرسید احمد خان کو کہا جاتا ہے جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھی جو 1920ء میں یونیورسٹی بن گئی۔
یہی ادارہ مسلم سیاست کا محور ثابت ہوااور یہیں سے تحریک پاکستان پروان چڑھی۔مسلم لیگ کی قیادت میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔
پاکستان بننے کے بعدبھی پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ، صدر ایوب خان ، چوہدری فضل الہٰی ، حبیب اللہ خان مروت ، گورنر جنرل غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین ، یہ سب علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔
قائد اعظم بھی یہاں کئی بار طلبا سے خطاب کرنے آئے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی یہ مسلم شناخت اس وقت سے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے جب سے انڈین سیاست میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ۔
پہلے مطالبہ کیا گیا کہ یہاں سے سرسید احمد خان اور قائداعظم کی تصاویر ہٹائی جائیں،پھر مہم چلائی گئی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے لفظ مسلم ہٹایا جائے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کی سیکولر شناخت متاثر ہوتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے 2019 میں یونیورسٹی کا نام بدلنے کی اپیل رد کر دی۔
اب علی گڑھ کا نام ہی بدلنے کی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے ۔انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے شہر کا نام علی گڑھ سے ہری گڑھ یا رام گڑھ رکھنے کا مطالبہ ساٹھ اور ستر کی دہائی سے کیا جاتا رہا ہے ۔
علی گڑھ کے نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟
علی گڑھ کا پرانا نام کول تھا، جو بارہویں صدی تک جین مت کے ماننے والوں کا ایک شہر سمجھا جاتا تھا، یہاں جین مت کے قدیم مندر بھی موجود ہیں ۔
کول کی وجہ شہرت شراب کی کشید تھی۔ 1879 کے ڈسٹرکٹ گزیٹئر کے مطابق کول کا نام ایک سورمے بالا راما سے جوڑا جاتا ہے جو گنگا جمنا دو آب میں کول کے نام سے معروف تھا ۔
ایک اور روایت کے مطابق کول کی بنیاد ڈور راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی، جب محمود غزنوی ہندوستان آیا تو تب شہر پر ہردتہ آف بورن کی حکمرانی تھی۔
قطب الدین ایبک کے دور میں کول مسلم سلطنت کا حصہ بنا ۔ غیاث الدین بلبن نے یہاں ایک مینار تعمیر تروایا جس پر سن تعمیر 1252 درج تھا جو شہر پر انگریزوں کے حملوں کے وقت تباہ ہو گیا۔
جسے بعد میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی تعمیر کے وقت محفوظ بنایا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میوزیم کا حصہ ہے ۔ علاؤالدین خلجی کے دور میں اسے صوبے کا درجہ ملا۔
چودہویں صدی میں ہندوستان آنے والے سیاح ابن بطوطہ کے مطابق کول ایک خوبصورت شہر ہے جو آموں کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور اس وجہ سے اسے سبز آباد بھی کہا جاتا ہے۔
1524 میں یہاں ابراہیم لودھی نے قلعہ بنایا ۔اکبر کے عہد میں کول صوبہ آگرہ کا حصہ تھا ۔تزک جہانگریری کے مطابق کول کو مغل بادشاہ جہانگیر کی شکار گاہ کا درجہ حاصل تھا ۔
اٹھارہویں صدی میں کول کو اس کے قلعے کی مناسبت سے مختلف ناموں سے پکارا گیا جن میں ایک نام ثابت گڑھ بھی ہے ۔اسی صدی میں قلعے کو جے پور کے راجہ جے سنگھ کی مدد سے جاٹوں نے فتح کر لیا۔
1757میں جاٹوں کے سردار سورج مل نے قلعے کا نام اپنے ایک گورنر رام کی مناسبت سے رام گڑھ کر دیا ۔علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سربراہ ، محقق اور مصنف ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے بتایا کہ علی گڑھ مغلوں کے دور میں کول کے قدیم شہر سے متصل ایک عسکری قلعہ تھا،جس کا نام اس کے قلعہ دار نجف علی کے نام پر پڑا ۔
گڑھ سے مراد چھوٹی سطح کی فوجی چھاؤنی لی جاتی تھی جسے آج کے دور میں آپ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کہہ سکتے ہیں ۔نجف علی کے دور میں اس علاقے میں مرہٹوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا تھا اور پھر جب یہ قلعہ مرہٹوں نے فتح کر لیا تب بھی اس کا نام علی گڑھ ہی برقرار رہا۔
اس وقت مرہٹوں کی جانب سے فرانسیسی کمانڈر جنرل پیرون کی کمانڈ میں فرانسیسی فوج یہاں پر تعینات رہی ۔انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں فرانسیسی فوج نے جب انگریز فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تب بھی ا س قلعے کا نام علی گڑھ ہی رہا اور جب انگریزوں کے دور میں یہاں ریلوے لائن بچھائی گئی تو بھی ریلوے سٹیشن کا نام علی گڑھ ہی تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ علی گڑھ کا نام سرسید احمد خان کی جانب سے ایم اے او کالج کے قیام سے چند ہی دہائیوں پہلے کا ہے ۔ سرسید احمد خان نے بعد میں قلعہ خرید کر یونیورسٹی میں بدل دیا اور یونیورسٹی بھی علی گڑھ کہلائی ۔
تب سے پورے علاقے کو ہی علی گڑھ کہا جانے لگا ، جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ لفظ علی سے مراد مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ہیں کیونکہ علی گڑھ کے ایک دروازے کا نام باب العلم ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر علی گڑھ کا نام بدل کر ہری گڑھ رکھ بھی دیا جاتا ہے تب بھی کیا علی گڑھ سے منسوب تاریخ اور علی گڑھ تہذیب پر کوئی اثر پڑے گا ۔
انہوں نے کہا کہ اگلا سال عام انتخابات کا ہے اس لیے مودی حکومت انتہا پسندوں کی سیاسی حمایت کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے ۔
انڈیا سے مسلم تہذیب کی نشانیاں کیوں مٹائی جا رہی ہیں؟
مسلمان انڈیا کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جو کل آبادی کا تقریباً15 فیصد ہیں مگر بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف سرکاری سطح پر نفرت بڑھی ہے ۔
1992ء میں بابری مسجد کا انہدام اور 2002میں مودی کی سرپرستی میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام،2013 میں مظفر نگر کے فسادات ،2020 میں نئی دہلی کے فسادات ۔
یہ سب کچھ دراصل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر محمد سجاد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوال یہ ہے کہ جو ہندو تنظیمیں ساٹھ اور ستر کی دہائی سے علی گڑھ کا نام بدل کر ہری گڑھ رکھنے کا مطالبہ کر رہی ہیں انہیں شہر کا پرانا نام کول کیوں ناگوار گزرتا ہے ؟ جس کے ساتھ شہر کی تاریخ جڑی ہوئی ہے ۔یا پھر رام گڑھ جو 1750تک شہر کا نام تھا ۔
انہوں نے کہا کہ ایک جماعت اکثریتی فرقے کی سیاست کر رہی ہے جس سے انڈیاکا مجموعی تاثر ختم ہو رہا ہے۔ شہروں کو ترقی دینا مشکل کام ہے لیکن نام بدل کر لوگوں کے جذبات سے کھیلنا آسان کام ہے اور یہ کام بی جے پی کو بخوبی آتا ہے۔