’بودھ گیا‘ انڈین ریاست بہار میں واقع بدھ مت کا سب سے متبرک مقام ہے، جس کی نسبت گوتم بدھ سے ہے۔
دراصل یہاں پیپل کے درخت کے نیچے بدھا کو نروان ملا تھا۔ جب سری لنکا میں بدھ مت کو فروغ ملا تو اشوک اعظم کے بیٹے مہندرا اور بیٹی سنگا میتا تھیری 251 ق م میں سری لنکا گئے۔
بدھا کے وصال کو 229 برس بیت چکے تھے۔ مہندرا اور سنگا میتا نے سنہالی بادشاہ ویوانم پیا تسا کو پیپل کے اس درخت کی شاخ بطور تحفہ پیش کی، جو بودھ گیا میں موجود تھا۔
یہ شاخ زمین میں دبا دی گئی تاکہ یہ تن آور درخت بن جائے۔ بدھا کے پیغام کی طرح پیپل کا یہ درخت بھی سری لنکا میں خوب پھلا پھولا۔
یہ درخت آج 2330 سال گزرنے کے باوجود بھی انورادھ پور میں نہ صرف موجود ہے بلکہ دنیا میں اسے سب سے قدیم درخت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انورادھ پور اس وقت سری لنکا کا دارالحکومت تھا ۔
صدر ایوب آٹھ دسمبر1963 کو سری لنکا کے دورے پر گئے۔ اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ سری لنکا نے پاکستان کو پیپل کے اس درخت کی شاخ تحفے میں دی جو انو رادھ پور میں اس درخت سے لی گئی تھی، جسے اشوک کے بیٹے اور بیٹی نے سری لنکا کو تحفے میں دیا تھا۔
یہ شاخ 25 جنوری 1964 کو اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ٹیکسلا میوزیم سے متصل باغ میں لگا دی جو آج بھی موجود ہے اور جس کے گرے ہوئے پتوں کو بدھ مت کے ماننے والے بطور تبرک ساتھ لے جاتے ہیں۔
ٹیکسلا سے بدھا کی نسبت
گندھارا کو بدھ مت میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ گوتم بدھ کا سب سے پہلا مجسمہ گندھارا میں ہی بنایا گیا تھا۔
سر جان مارشل نے جب ٹیکسلا میں کھدائیاں کیں تو دھرما راجیکا سٹوپا میں گوتم بدھ کے جسم کی راکھ ایک ڈبے میں بند ملی تھی، جس پر خروشتی زبان میں لکھا ہوا تھا کہ یہ گوتم بدھ کی راکھ ہے جسے مہاراجہ اشوک نے یہاں تبرک کے طور پر منتقل کروایا تھا۔
1912 میں ملنے والی اس راکھ کو اس وقت کی انگریز حکومت نے تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ رنگون اور دوسرا سری لنکا میں بھیج دیا کیونکہ ان ممالک میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت تھی۔
جبکہ تیسرا حصہ ٹیکسلا میوزیم میں آج بھی موجود ہے۔ شاید سری لنکا نے اسی پس منظر میں ٹیکسلا میوزیم کو بودھی کا درخت تحفے میں دیا تھا کہ جہاں گوتم بدھ کے جسم کی راکھ موجود ہے، وہاں وہ درخت بھی موجود ہونا چاہیے، جس کے نیچے انہیں نروان ملا تھا۔
دنیا میں کتنے بودھی درخت موجود ہیں؟
534 ق م میں ویساکھ کا مہینہ تھا اور پورے چاند کی تاریخ تھی۔ بدھا کو پیپل کے درخت کے نیچے چلہ کرتے 49 واں دن تھا، جب انہیں حق کا پیغام ملا تھا۔
پیپل کا یہ درخت ریاست بہار میں للہ جان دریا کے کنارے پر تھا۔ اس دن کے بعد سے پیپل کا یہ درخت بودھی کے درخت کے نام سے موسوم ہو گیا۔
اشوک نے یہاں ایک مہا بودھی مندر بنوایا، جہاں کاتک کے مہینے میں ان کا عرس منایا جاتا ہے۔ اشوک کی وفات کے بعد ان کی بیوی تھش راکھا نے اس درخت کو کٹوا دیا لیکن اس کی جڑوں سے پھر درخت نکل آیا۔
پانچویں صدی میں جب مشہور چینی سیاح فاحیان یہاں آئے تو انہوں نے بھی اپنے سفرنامے میں اس درخت کا ذکر کیا ہے۔
جب 1862 میں کنگھم آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ تھے تو انہوں نے اس درخت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بودھی کا مشہور درخت آج بھی موجود ہے لیکن خاصی بوسیدہ حالت میں ہے۔ درخت کا ایک بڑا تنا جس سے تین شاخیں مغرب کی سمت پھیلی ہوئی ہیں، سبز ہیں لیکن دوسری شاخیں سوکھ چکی ہیں۔ سبز شاخیں کسی چھوٹے درخت سے نکلی لگتی ہیں جو یہاں آ کر بڑے درخت سے مل گئی ہیں کیونکہ یہ کئی درختوں کا جھنڈ معلوم ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’شاید اس درخت کو کئی بار از سر نو لگایا گیا ہے۔ موجودہ درخت زمین سے 30 فٹ بلند ایک چبوترے پر ہے۔ یہ درخت 1811 میں اس وقت اپنے جوبن پر تھا جب اسے ہملٹن نے دیکھا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ سو سال سے زیادہ قدیم نہیں لگتا۔‘
تاہم 1881 میں آنے والے ایک طوفان میں یہ درخت گر گیا اور کنگھم نے یہاں پیپل کا ایک نیا درخت لگایا۔
بدھا کی زندگی میں ہی اتر پردیش میں سروستی کے مقام پر پیپل کا ایک درخت اسی پیپل کے بیج سے اگایا گیا تھا، جو بوھ گیا میں موجود تھا۔
پھر جب اشوک حکمران بنا اور اس نے بدھ مت قبول کر لیا تو اس کا بیٹا اور بیٹی بودھ گیا میں موجود اس درخت کی شاخ کو سری لنکا لے گئے۔
اس وقت دنیا میں ٹیکسلا اور سری لنکا کے علاوہ ہونولولو، ہوائی (امریکہ)، چنئی (انڈیا)، ہنوئی (ویت نام)، تھاؤزنڈ اوکس، کیلی فورنیا (امریکہ)، نیوہون جی (جاپان)، دیکشا بھومی، ناگپور (انڈیا)، کیوزون سٹی (فلپائن) اور برزبن (آسٹریلیا) میں بودھی کے درخت لگائے گئے ہیں، جن کا شجرہ بودھ گیا سے ملتا ہے۔
ٹیکسلا میوزیم میں بودھی کے درخت کو لاحق خطرات
پیپل کا درخت پاکستان، انڈیا، نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش میں پایا جاتا ہے۔ اسے ’شجرِحیات‘ بھی کہا جاتا ہے، جس کے پتے دل کی شکل کے ہوتے ہیں۔
یہ واحد درخت ہے جو رات کو بھی آکسیجن دیتا ہے۔ اس کی عمر 900 سے 1500سال تک ہو سکتی ہے، اس دوران یہ 30 میٹر تک بڑھتا ہے۔
تاہم ٹیکسلا میوزیم میں اس کی بڑھوتری کم ہے اور اس کا تنا کمزور ہے، جو کسی طاقتور طوفان میں جڑوں سے اکھڑ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں ’ٹیکسلا ٹائم‘ کے مصنف مالک اشتر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں اس درخت کو چار دہائیوں سے اسی طرح دیکھ رہا ہوں۔ مناسب ماحول موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نشو نما متاثر ہو رہی ہے۔
’ارد گرد بڑے درختوں کا جھنڈ ہے جو اس تک مناسب روشنی آنے نہیں دیتے۔ پھر یہاں چونے کا لیپ بھی نہیں دیا جاتا، جس سے کیڑے مکوڑوں اور دیمک سے بھی خطرہ رہتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’محکمہ آثار قدیمہ کو اس جانب توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ اس کی مزید شاخیں مختلف جگہوں پر لگائی جائیں کیونکہ ٹیکسلا میوزیم میں موجود یہ درخت بھی ایک قومی ورثہ ہے اور اس کی مناسب حفاظت اور دیکھ بھال کی جانی چاہیے۔‘
نوٹ: یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔