کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ ملائکہ زاہد نے باکسنگ کی پریکٹس اور شوق کو پورا کرنے کے لیے اپنے گھر میں ہی کلب بنا رکھا ہے۔
ملائکہ نے نو سال کی عمر میں او آئی سی کلب سے باکسنگ کا آغاز کیا اور وہ گذشتہ 10 سال سے پاکستان ٹیم میں کھیل رہی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ شروع میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ باکسنگ کلب نہیں تھا، تو انہوں نے لڑکوں کے کلب میں ٹریننگ کی اور ان کے والد نے انہیں بہت سپورٹ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول ملائکہ: ’جب میں چھوٹی تھی اور میں نے باکسنگ کا آغاز کیا تو لڑکیوں کا علیحدہ کلب نہیں تھا، لہذا میں نے لڑکوں کے کلب سے شروع کیا۔ اس وقت میں چھوٹی تھی تو لڑکوں کے ساتھ ٹریننگ کرلیتی تھی، لیکن اب بڑا ہونے کے بعد بابا نے مجھے گھر پر ہی باکسنگ کا سیٹ اپ بنا کر دے دیا ہے اور اب میں یہیں پر ٹریننگ کرتی ہوں۔ بابا مجھے خود ٹریننگ کرواتے ہیں اور ان کی بھی سپورٹ میرے ساتھ ہے۔‘
کھیلوں کی دنیا میں آنے والی بیشتر خواتین کی طرح ملائکہ کو بھی آغاز میں منفی تبصرے سننے کو ملے۔
انہوں نے بتایا: ’جب میں نے آغاز کیا تھا تو میرے خاندان والوں میں بھی اور بابر سے بھی لوگ یہی کہتے تھے کہ لڑکیاں گھر کے کام کرتی ہوئے اچھی لگتی ہیں۔ مجھے اس فیلڈ میں آنے پر بہت سے منفی تبصرے سننے کو ملے، لیکن بابا کی سپورٹ اور میری والدہ کی دعائیں میرے ساتھ تھیں، تو اب وہ لوگ جو پہلے مجھ پر باتیں کرتے تھے اب مجھ پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
’انہیں بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہماری بیٹی ہے اور اس طرح اپنا نام روشن کر رہی ہے اور انشاء اللہ آنے والے وقتوں میں بھی یہ اسی طرح ہمارا نام روشن کرتی رہے گی۔‘
ملائکہ کے مطابق انہوں نے لوگوں کی منفی باتوں کا سامنا کیا اور ٹریننگ کرتی رہیں۔ ’لڑکیاں نہ ہونے کی وجہ سے میری فائٹس بھی لڑکوں کے ساتھ ہوتی تھی تو میں ان کے ساتھ کھیلتی تھی اور الحمد اللہ جیتتی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ بلوچستان کی پہلی خاتون باکسر تھیں جو صوبے کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ ’میں نے لڑکیوں کے ساتھ پہلی مرتبہ کراچی میں جا کر کھیلا تھا۔۔۔ وہاں سے میں نے کراچی گرلز سے جیتا اور گولڈ میڈل حاصل کیا اور اس ٹورنامنٹ کی بہترین باکسر بھی بنی۔‘
ملائکہ کے مطابق: ’پھر میں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں کھیلا اور قومی سطح پر بھی اور ان سب میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ میں پانچ دفعہ کی چیمپیئن ہوں اور میں نے 21 مرتبہ گولڈ میڈل اور ایک سلور میڈل بھی حاصل کیا ہے۔
’اس کے بعد میں نے اپنی پروفیشنل فائٹس کا بھی آغاز کیا اور اس میں بھی میرا ریکارڈ اچھا جا رہا ہے اور میں دو ٹائٹل فائٹس کی فاتح بنی۔ اب میری خواہش یہی ہے کہ میں اسی طرح اپنے کیریئر کو جاری رکھوں اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایسی کامیابیاں اپنے نام کروں اور آنے والے وقتوں میں پاکستان کا نام روشن کروں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے بھی درخواست کی کہ انہیں سہولیات دی جائیں تاکہ وہ اپنی ٹریننگ کو بہتر کرسکیں اور مستقبل میں کامیابیاں حاصل کریں۔