امریکی کرکٹ ٹیم کے پاکستانی نژاد فاسٹ بولر علی خان نے کہا ہے کہ ٹیم میں بیشتر کھلاڑی پارٹ ٹائم کھیلتے ہیں، جنہیں کرکٹ کھیلنے کے لیے نوکری سے چھٹی لینی پڑتی ہے مگر امید ہے کہ پاکستان سے جیت کے بعد چھٹی لینے میں آسانی ہو گی۔
33 سالہ علی خان امریکہ کی ٹیم میں بطور فاسٹ بولر کھیل رہے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ 15 سال پہلے پاکستان سے امریکہ آئے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو بذریعہ زوم انٹرویو میں علی نے ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف کھیلنے اور ہرانے، امریکہ کے ورلڈ کپ میں چانسز، پارٹ ٹائم کھلاڑیوں اور پاکستان میں گزرے وقت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔
پاکستان کے خلاف کھیلنا اور میچ جیتنا کیسا رہا؟ اس سوال پر علی نے بتایا کہ پاکستان کے خلاف میچ کھیلنا ’بہت جذباتی تھا۔ آپ کا لگاؤ ہوتا ہے کیونکہ آپ کی پیدائش وہاں کی ہوتی ہے۔۔۔سکول کالج گئے، وہیں پلے بڑھے، ابتدائی کرکٹ کھیلی، تو کافی جذباتی لگاؤ تھا، اس میچ میں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’پاکستان جیسی بڑی ٹیم جو ٹی 20 ورلڈ کپ کی چیمپیئن رہ چکی ہے۔۔۔ اسی وجہ سے ہماری ٹیم میں جذبہ تھا کہ اتنی بڑی ٹیم کے خلاف پہلی دفعہ کھیل رہے ہیں۔‘
پاکستان کے خلاف میچ میں علی خان نے فخر زمان کی وکٹ حاصل کی تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا: ’فخر جب بیٹنگ کرنے آئے تھے تو انہوں نے پہلی ہی بال پر چھکا مارا تھا اور ارادہ ظاہر کیا تھا وہ رنز کرنے کے لیے آئے ہیں۔۔۔اگر فخر وہاں تھوڑی دیر کھڑے رہتے تو ہم سے گیم لے جاتے۔۔۔ وہ بڑی اہم وکٹ تھی میرے لیے اور میری ٹیم کے لیے۔‘
علی نے مزید بتایا کہ جس فارم کے ساتھ ان کی ٹیم ورلڈ کپ میں آئی تھی اس سے انہیں پاکستان کو ہرانے میں مدد ملی۔ ’سب کنڈیشنز ہمارے لیے موافق تھیں۔ ہمارا ہوم گراؤنڈ تھا۔۔۔جب ہم ٹاس جیتے تو اس سے ہمیں کافی مدد ملی، ہماری جو منصوبہ بندی تھی ویسا ہی ہوا۔ خود پر یقین تھا اور جذبہ تھا کہ ہم نے یہ میچ جیتنا ہے۔‘
میچ میں پاکستانی ٹیم کو ہرانے کے بعد پاکستان اور امریکہ دونوں ٹیمیں ایک ہی فلائٹ پر نیویارک آئی تھیں۔ اس سفر کے حوالے سے انہوں نے بتایا: ’(فلائٹ میں) اعظم خان میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ شاداب آئے، عثمان بھائی تھے وہاں پر، بابر اعظم، عماد وسیم اور عامر بھی تھے۔۔۔ نارمل بات چیت رہی۔ ان کی کافی فیلنگ تھی کہ وہ میچ نہیں جیتے لیکن ہم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس ان کے جذبات مجروح ہوں۔۔۔ جو فیلڈ میں ہوا، وہ ہوا مگر فیلڈ سے باہر سب ٹھیک تھا۔‘
امریکی ٹیم میں موجود پارٹ ٹائم کھلاڑی
پارٹ ٹائم کھلاڑیوں پر مبنی ٹیم کے حوالے سے علی نے کہا کہ ’لڑکوں کی بہت جدوجہد ہے کیونکہ ہمارے پاس فل ٹائم کنٹریکٹ نہیں ہیں۔ کافی زیادہ بندے ہیں، جن کی سائیڈ جابز (نوکریاں) ہیں۔ وہ کام سے چھٹی لے کر آتے ہیں اور کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ہمیں عموماً پورا مہینہ یا پورا ہفتہ ٹریننگ کی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں۔ صرف ویک اینڈ پر کرکٹ کھیلنے کو ملتی ہے۔ سب لوگ خود سے ٹریننگ کرتے ہیں اور نہ ہی ہمارے کیمپ ہوتے ہیں۔‘
بقول علی: ’لڑکوں کی کافی جدوجہد ہے۔ سب کی فیملیز ہیں۔ انہیں سپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ پھر کام سے چھٹی لے کر کھیلنا ہوتا ہے۔۔۔ کافی مشکل کنڈیشنز ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’اس سب کے باوجود اگر پاکستان جیسی ٹیم کو ہرائیں تو لڑکوں کو بہت زیادہ کریڈٹ جاتا ہے۔
’ہمارے تو اس طرح کے فینز نہیں ہیں جیسے آپ (پاکستان) کے 24 کروڑ عوام فین ہیں۔ یہاں پر تو لوگ کرکٹ فولو ہی نہیں کرتے۔ جنوبی ایشیائی عوام کے علاوہ یہاں کسی کو پتہ ہی نہیں کہ کرکٹ کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی نے مزید بتایا: ’ٹیم میں کافی لڑکے ہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرتے ہیں، میں پچھلے چار پانچ سالوں سے پروفیشنل کرکٹ کھیل رہا ہوں لیکن اس سے پہلے میں بھی ایک موبائل فون کمپنی میں کام کرتا تھا۔ (نوکری سے) چھٹی لینا بلاشبہ آسان نہیں۔ کسی بھی دفتر میں جب چھٹی لینے جاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ کرکٹ کھیلنا ہے تو کافی مشکل ہوتا ہے، ان کا کافی نقصان ہوتا ہے اگر ملازم کام چھوڑ کر چلا جائے۔ سب لڑکوں کو مسائل ہوتے ہیں۔
’اب دفتر والے بھی دیکھیں گے کہ امریکہ کی ٹیم ایک بڑی ٹیم ہے۔۔۔پاکستان جیسی ٹیم کو ہرا رہی ہے، تو مستقبل میں ان کے لیے چھٹی لینا آسان ہو گا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’اس جیت اور ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کے بعد ہمارے پاس فل ٹائم کنٹریکٹ آ جائیں اور مزید سپانسر آ جائیں۔‘
امریکی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کے جنوبی ایشیائی ورثے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کی ٹیم میں کوئی کھلاڑی بھی امریکہ میں پیدا نہیں ہوا، سب کا تعلق کسی اور ملک سے ہے۔
’جنوبی افریقی، ویسٹ انڈین، انڈین، پاکستانی۔۔۔اس ٹیم کی یہی خوبصورتی ہے کہ ایک کلچر سے نہ ہوتے ہوئے بھی ہم متحد ہو کر کھیل رہے ہیں۔‘
ورلڈ کپ کے لیے حکمت عملی
ورلڈ کپ کے لیے امریکہ کی حکمت عملی بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’ہم نے جو شیڈول دیکھا تھا، اس میں ہمارا پہلا گیم کینیڈا کے ساتھ تھا۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ جیت جائیں گے، پھر آئرلینڈ کے خلاف میچ تھا۔ ہم نے ماضی میں آئرلینڈ کو ہرایا ہوا ہے، تو یہ دو گیمیں تھیں جن کی ہمیں توقع تھی کہ ہم جیتیں گے۔
’اس کے علاوہ ہمیں ایک اور جیت چاہیے تھی۔ اس میں ہماری حکومت عملی تھی کہ پاکستان یا انڈیا کے خلاف میچ میں دو نہیں تو ایک جیت بھی ملتی ہے تو اس سے ہمیں سپر ایٹ میں جانے کا چانس مل جائے گا۔‘
علی نے امریکہ میں پروفیشنل کرکٹ کھیلنے کی کہانی بھی سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں پتہ نہیں تھا کہ امریکہ میں پروفیشنل کرکٹ ہوتی ہے۔ 2015 میں انہوں نے امریکہ کی ٹیم کے لیے ٹرائلز میں شرکت کی، جس میں لیجنڈری ویسٹ انڈین فاسٹ بولر کورٹنی واش کو ان کی بولنگ پسند آئی اور 2016 میں انہوں نے امریکی ٹیم سے پہلا میچ کھیلا۔
اس کے علاوہ علی کیریبیئن پریمیئر لیگ اور پی ایس ایل بھی کھیل چکے ہیں۔
پاکستان سے کرکٹ کھیلنے کی پیشکش ہوئی تو کیا وہ اس پر غور کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں علی نے بتایا کہ پاکستان میں انہوں نے پروفیشنل کرکٹ نہیں کھیلی، صرف ٹیپ بال کرکٹ کھیلی ہے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس پہلے ہی بہت سے فاسٹ بولر ہیں مگر ’ایسا کوئی موقع آتا ہے تو میں ضرور سوچوں گا کیونکہ اگر آپ کو پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملے۔۔۔ ابھی تو ہم امریکہ سے کھیل رہے ہیں، یہی کوشش ہے کہ اپنی ٹیم کو جتوانے کی کوشش کریں۔‘