جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے امریکی شہر ڈیلس کو پہلی مرتبہ ٹی 20 کرکٹ ورلڈکپ کے افتتاحی میچ کے میزبان گراؤنڈ کا اعزاز حاصل ہو چکا ہو گا۔
میزبان ملک امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ٹورنامنٹ کا پہلا میچ کھیلا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ میچ یکم جون کی شام ہو رہا ہے لیکن وقت کے فرق کے باعث امریکہ سے دور ایشیائی اور یورپی ممالک میں دو جون کی تاریخ تبدیل ہو چکی ہے۔
دو جون کو ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر ٹورنامنٹ کا دوسرا میچ ویسٹ انڈیز اور پاپوا نیو گنی کے درمیان کھیلا جائے گا۔
بات اگر امریکہ کی ہو تو ایک ایسے ملک میں جو بہت سے کھیلوں میں اپنی انفرادی پہچان اور شناخت رکھتا ہے وہاں کرکٹ ابھی تک ایک حرف اجنبی اور عوامی سطح پر مقبولیت سے عاری ہے۔
اگرچہ امریکہ میں کرکٹ طویل عرصہ سے کھیلی جا رہی ہے لیکن انتظامی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے کرکٹ کو سرکاری اور عوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ہے۔
ورلڈکپ فارمیٹ
نویں ورلڈکپ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شریک ٹیموں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔ گذشتہ ورلڈکپ تک 16 ٹیموں نے شرکت کی تھی تاہم اس ایڈیشن میں ٹیموں کی تعداد 20 کر دی گئی اور تمام ٹیموں کو چار گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
سب سے اہم اور مقبول گروپ اے ہے جس میں پاکستان اور انڈیا شامل ہیں۔ دونوں ٹیمیں ایک ایک بار کی ورلڈ چیمپئین ہیں۔۔
دونوں کے ساتھ اس گروپ میں میزبان ملک امریکہ، کینیڈا اور آئرلینڈ بھی شامل ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ نو جون کی صبح نیویارک کے نساؤ کاؤنٹی سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ میچ کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اس کے تمام ٹکٹ فروخت ہوچکے ہیں اور اب بلیک مارکیٹ میں 20 ہزار ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
امریکہ میں اس ٹورنامنٹ کے میچز نیویارک، فلوریڈا اور ڈیلس میں کھیلے جائیں گے۔ فلوریڈاکے شہر لاؤڈریل اور ڈیلس کے گراؤنڈز تو کافی عرصہ سے موجود ہیں لیکن نیویارک کے نساؤ کاؤنٹی میں عارضی سٹیڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔
آئزن ہاور پارک کے قلب میں اس سٹیڈیم کو ریکارڈ مدت میں مکمل کرکے سٹیٹ آف آرٹ سہولتوں کا دعوی کیا گیا ہے۔
تاہم 34 ہزار تماشائیوں کے لیے یہ گراؤنڈ اس لحاظ سے بہت چھوٹا ہے کہ انڈیا پاکستان کے میچ میں تماشائیوں کی تعدا سوا لاکھ تک کا ریکارڈ ہے جب گذشتہ سال احمدآباد میں یہ تعدار ریکارڈ ہوئی تھی۔
پاکستان اپنا پہلا میچ چھ جون کو امریکہ کے خلاف ڈیلس میں کھیلے گا۔ جبکہ نو جون کو انڈیا 11 جون جو کینڈا اور 16 جون کو آئر لینڈ کے خلاف کھیلے گا۔
گروپ پوزیشن
گروپ بی میں دو مزید چیمپئینز آسٹریلیا اور انگلینڈ ہیں جبکہ ان کے ساتھ سکاٹ لینڈم نمیبیا اور اومان بھی ہیں۔
گروپ سی میں نیوزی لینڈ کے ساتھ میزبان ملک ویسٹ انڈیز، افغانستان، پاپوا نیوگنی اور یوگنڈا ہیں۔
یوگنڈا کی ٹیم کی سب سے انفرادی بات ان کے کپتان ریاضت علی شاہ ہیں جو پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ریاضت کا پاکستان میں کوئی فرسٹ کلاس ریکارڈ دستیاب نہیں ہے لیکن ورلڈکپ کوالیفائنگ میچوں میں ان کی قیادت اور بیٹنگ نے یوگنڈا کو پہلی دفعہ کسی بین الاقوامی مقابلے تک پہنچا دیا ہے۔
گروپ ڈی میں بنگلہ دیش، سری لنکا، ساؤتھ افریقہ، نیپال اور نیدرلینڈز شامل ہیں۔ بنگلہ دیش کی ٹیم نے حال ہی میں امریکہ سے سیریز میں شکست کھائی ہے جبکہ ساؤتھ افریقہ ویسٹ انڈیزسے سیریز ہار چکی ہے۔
لیکن اس گروپ کو سب سے آسان قرار دیا جا رہا ہے۔
چاروں گروپوں سے دو ٹیمیں اگلے مرحلے سپر ایٹ میں پہنچیں گی جہاں انھیں مزید دو گروپ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
ان دو گروپس کی چار اول ٹیمیں سیمی فائنل کی حق دار ہوں گی۔ ٹورنامنٹ کے سپر ایٹ مرحلے اور سیمی فائنل اور فائنل کے میچز ویسٹ انڈیز کے مختلف گراؤنڈز میں کھیلے جائیں گے۔
کیا کوئی اپ سیٹ ہوسکتا ہے؟
کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے تبصرہ نگاروں کی اکثریت اس ورلڈکپ میں کئی اپ سیٹ دیکھ رہے ہیں۔
اگرچہ گذشتہ ورلڈ کپ میں پاکستان کو غیر متوقع شکست دینے والی زمبابوے کی ٹیم اس ورلڈکپ میں کوالیفائی نہیں کرپائی ہے لیکن پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچانے والی نیدرلینڈز کی ٹیم موجود ہے جس نے سب سے بڑا اپ سیٹ کیا تھا جب اس نے جنوبی افریقہ کو شکست دی تھی۔
ماہرین کو پہلا اپ سیٹ گروپ اے میں نظر آ رہا ہے جہاں امریکہ کی ٹیم پاکستان یا انڈیا کو شکست دے سکتی ہے۔
نیوزی لینڈ کے کوری اینڈرسن کی شمولیت سے امریکی ٹیم بہت مضبوط ہو گئی ہے۔ اگرچہ سنیل گواسکر سے لے کر مائیکل ہولڈنگ تک سابق کرکٹرز کے نزدیک پاکستان اور انڈیا باآسانی سپر ایٹ میں پہنچ جائیں گے لیکن مائیکل وان اور شعیب اختر کچھ انہونی کی توقع کررہے ہیں۔
لیکن تمام ماہرین آئرلینڈ کو نظر انداز کررہے ہیں جس نے گذشتہ ورلڈکپ میں دفاعی چیمپئین انگلینڈ کو موسم کی مدد سے شکست دی تھی اور ابھی چند دنوں قبل پاکستان کو بھی ایک میچ میں شکست دے دی تھی ۔
ٹورنامنٹ کے دوسرے اپ سیٹس میں ویسٹ انڈیز اور نیدرلیڈز بھی نمایاں نظر آرہی ہیں۔
ممکن ہے گروپ سی سے ویسٹ انڈیز اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کر جائے لیکن اس کے لیے اسے انتہائی باصلاحیت افغانستان کو ہرانا ہو گا۔ کچھ ماہرین تو ویسٹ انڈیزکو فائنل میں دیکھ رہے ہیں۔
کیا کرکٹ اب گلوبل سپورٹ بن جائے گی؟
کہتے ہیں کہ جو برانڈ امریکہ سے شروع ہو وہ عالمی مقبولیت اختیار کرلیتا ہے اور دنیا بھر میں اس کا ڈنکا بجتا ہے۔
آئی سی سی نے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کا انتخاب کیا تاکہ دنیا بھر کی نظریں کرکٹ پر لگ جائیں۔
اگرچہ اس کوشش کی تعریف کی جانی چاہئیے لیکن بدقسمتی سے آئی سی سی اس موقع کو برانڈ نہیں بنا سکی ہے۔
تاخیر سے فیصلے اور انتظامی امور میں کم اہلیت نے امریکہ میں کرکٹ ورلڈکپ کے انعقاد کو ایک مخصوص طبقہ تک محدود کردیا۔
امریکی عوام اور میڈیا نے اس تاریخی ایونٹ کو اہمیت دی ہے نہ پبلسٹی۔ حالانکہ امریکہ میں آباد لاکھوں ایشیائی اس ورلڈکپ کو لے کر بہت پرجوش ہیں لیکن دوسری اقوام بالکل لاتعلق ہیں۔
آئی سی سی کا امریکہ میں ایونٹ کرانے کا مقصد تو کرکٹ کا فروغ اور ترقی ہے لیکن امریکہ میں انعقاد نے اسے مزید مہنگا ایونٹ بنا دیا ہے۔
میڈیا سے جڑے اکثر افراد اس ورلڈکپ میں شرکت سے محروم ہیں کیونکہ تاخیر سے انتظامات نے امریکن ویزے اور فلائٹس کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔
ریکارڈ ڈیبیوز
اس ورلڈکپ کی خاص بات کچھ کھلاڑیوں یا کھیل سے جڑے لوگوں کا ڈیبیو بڑی تعداد میں ہو رہا ہے۔ کھلاڑیوں کی ایک کثیر تعداد ہے جو پہلی دفعہ اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔
لاجسٹک مسائل کے پیش نظر آئی سی سی نے بہت زیادہ میچ آفیشلز کو شامل کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان سے دو امپائر پہلی دفعہ ورلڈکپ میں امپائرنگ کرتے ہوئے نظر آئیں گے راشد ریاض اور آصف یعقوب دو نئے امپائر ہوں گے جبکہ احسن رضا پہلے ہی شامل ہیں۔
کمنٹیٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد اس ورلڈکپ میں کھیل پر تبصرہ کرے گی۔
پاکستان سے رمیز راجا، وسیم اکرم اور وقار یونس شامل ہیں لیکن سب سے اہم اور دلچسپ شمولیت امریکن بیس بال کمنٹیٹر جیمس اوبرائن عرف جمبوئی کی ہے۔ جو اپنے کیرئیر کا آغاز کر رہے ہیں۔
خاموش افتتاح
دوسرے کھیلوں اور مقابلوں کے برعکس ٹی 20 ورلڈکپ کا افتتاح خاموشی سے ہو رہا ہے۔ آئی سی سی نے کسی افتتاحی تقریب کا اعلان نہیں کیا ہے۔
کرکٹ کھیلنے والے روایتی ممالک سے بہت دور ہونے کے باعث ورلڈکپ کی کوئی تیزی اور جوش ہے اور نہ سرگرمیاں۔
ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ کی زیادتی نے اب ایونٹس کا انتظار اور استقبال ختم کر دیا ہے۔ آئی سی سی کو بھی اس بات کی خاص پرواہ نہیں ہے۔
کیا امریکہ میں ورلڈکپ ہونے سے کرکٹ کو کوئی بڑا فائدہ پہنچے گا؟
اس سوال کا جواب بہت آسان ہے کہ امریکہ میں ایونٹ کے انتظامات آخری لمحے تک مکمل نہیں ہوسکے ہیں ایسے میں کرکٹ کا فروغ سوچنا ناممکن ہے۔