مدن موہن کے سو سال: جنہیں لتا نے ’غزل کا شہزادہ‘ کا خطاب دیا

مدن موہن کی دھنوں میں ایسی کیا پراسرار کشش ہے جو سننے والے کو جکڑ لیتی ہے؟ ان کی 100 ویں سالگرہ پر خصوصی تحریر۔

مدن موہن کی یاد میں انڈین حکومت نے 2013 میں یادگاری ٹکٹ جاری کیا (گورنمنٹ آف انڈیا)

مدن موہن ہندوستانی سینیما کی تاریخ کے سب سے معتبر موسیقاروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے کلاسیکی اور جدید موسیقی کے امتزاج سے بالی وڈ موسیقی کو نئی جہت بخشی۔

ان کی روح کو چھو جانے والی دھنیں اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی گہری سمجھ ان کے فن کو منفرد بناتی ہیں۔ ان کی موسیقی سب کے دلوں کو چھوتی رہی ہے اور آج بھی سامعین میں مقبول ہے۔ ان کی دھنوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نہ صرف مقبول ہوئیں بلکہ ان سب میں فنی پختگی عروج پہ نظر آتی ہے۔

ابتدائی زندگی اور موسیقی کا سفر

مدن موہن کوہلی 25 جون 1924 کو بغداد میں پیدا ہوئے لیکن جلد ہی ہندوستان منتقل ہو گئے۔ ان کے والد رائے بہادر چنی لال فلم سٹوڈیو ’بمبئی ٹاکیز‘ سے منسلک تھے اور انہوں نے ہی مدن موہن کو موسیقی سے روشناس کروایا۔

مدن موہن نے مختلف اساتذہ سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور اپنی کلاسیکی موسیقی کی مہارت کو بہتر بنایا، جو بعد میں ان کی کمپوزیشنز کی بنیاد بنی۔

 مدن موہن کی موسیقی کی خصوصیات

مدن موہن کی موسیقی کی خصوصیات میں میلوڈک ساخت، پیچیدہ آرکیسٹریشن اور گہری جذباتیت شامل ہیں۔ ان کا کلاسیکی راگوں اور جدید انداز کا امتزاج انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی میلوڈی اور ردھم کی گہری سمجھ انہیں لازوال دھنیں بنانے میں مدد دیتی تھی۔

 میلوڈک مہارت: مدن موہن کی دھنیں اکثر کلاسیکی راگوں پر مبنی ہوتی تھیں، لیکن ان میں جدید کشش بھی ہوتی تھی۔ گیت جیسے ’لگ جا گلے‘ (فلم: وہ کون تھی)، ’ذرا سی آہٹ ہوتی ہے‘ (حقیقت)، نینوں میں بدرا چھائے (میرا سایہ) ان کی خوبصورت دھنوں کی مثالیں ہیں، جو سامع کے دل میں گھر کر جاتی ہیں۔

شاعری کی گہری سمجھ بوجھ 

انہوں نے راجہ مہدی علی خان، کیفی اعظمی اور مجروح سلطان پوری جیسے ممتاز شاعروں کے ساتھ کام کیا۔ مدن موہن کی کمپوزیشنز کو خوبصورت اشعار کے ساتھ مزین کیا، جو ان کے گیتوں میں گہرائی اور معنی شامل کرتے تھے۔ فلمی گیت میں كلاسیكل انگ کی چاشنی اور غزل کا لب و لہجہ صرف مدن موہن کا خاصہ رہا ہے جیسا کہ رسم الفت کو نبھائیں، رکے رکے سے قدم، وہ چپ رہیں، نغمہ و شعر کی سوغات، بیّاں نہ دھرو بلما۔

گائیکی کی عمدگی

مدن موہن کا یہ جوہر تھا کہ وہ گلوکاروں سے بہترین کارکردگی نکالنے میں ماہر تھے۔ ان کا لتا منگیشکر کے ساتھ اشتراک خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ انہوں نے ان کے ساتھ بہت سے یادگار گیتوں کو جنم دیا، جیسے ’آپ کی نظروں نے سمجھا‘ اور ’نیناں برسیں رم جھم۔‘

مدن موہن نے جب اپنی آواز کا جادو جگایا تو سب ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ ان کی آواز میں گایا گیت ’مائی ری میں کاسے کہوں پیڑ اپنے جیا کی‘ اور ’نینا برسے جو روگ، درد اور نشیلا پن‘ اس آواز میں تھا وہ قابل داد تھا۔

مدن موہن کا تخلیقی عمل

مدن موہن کا تخلیقی عمل باریک بینی اور کلاسیکی تربیت پر مبنی تھا۔ وہ ایک دھن کو مکمل کرنے میں گھنٹوں گزارتے تھے تاکہ ہر سُر اور ہر دھن کمپوزیشن کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔

آر ڈی برمن کے ہاں مدن موہن کا رنگ

  • نام گم جائے گا
  • بیتے نہ بتائے رینا
  • آ جا سر بازار تیرا

ان گیتوں میں مدن موہن کی کمپوزیشنز کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے۔

تحقیق اور اثر پذيری

 مدن موہن مختلف ذرائع سے اثر لیتے تھے، بشمول کلاسیکی راگ، لوک موسیقی اور جدید رجحانات۔ وہ مکمل تحقیق پر یقین رکھتے تھے اور اکثر کلاسیکی کمپوزیشنز میں غوطہ لگا کر اپنے گیتوں کے لیے بہترین بنیاد تلاش کرتے تھے۔

آرکیسٹریشن

 ان کے ہاں آرکیسٹریشن روایتی ہندوستانی سازوں اور مغربی عناصر کا امتزاج ہوتا تھا۔ انہوں نے ستار، طبلہ اور سارنگی جیسے سازوں کے ساتھ پیانو، وائلن اور گٹار کا استعمال کر کے ایک منفرد آواز تخلیق کی جو نہایت میلوڈک اور متنوع تھی۔ مدن موہن نے اپنے گانوں میں سازوں اور سُروں کا ایسا مسحور کن انتخاب کیا، جو ماحول کے اندر ایک الو ہی كیفیات کو اجا گر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’لگ جا گلے‘ میں وائلن اور پیانو کا استعمال اس گانے کی پراسراریت اور دلکشی کو بڑھاتا ہے۔

ریہرسل اور ریکارڈنگ

مدن موہن اپنی ریہرسل سیشنز کے لیے مشہور تھے۔ وہ اپنے موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ گہرائی سے کام کرتے تھے، انہیں اپنی کمپوزیشنز کی نزاکتیں سمجھاتے تھے۔ ان کی باریک بینی اس بات کو یقینی بناتی تھی کہ حتمی ریکارڈنگ بےعیب ہو۔

جذباتی ربط

مدن موہن کی موسیقی کے مرکز میں ایک جذباتی ربط تھا۔ وہ مانتے تھے کہ موسیقی کو احساسات پیدا کرنے چاہییں اور سامع کے ساتھ گہری سطح پر جڑنا چاہیے۔ ان کے گانے اکثر جذبات کی مختلف اقسام کو بیان کرتے تھے، جیسے جدائی کا درد یا محبت کی خوشی یا گہری اداسی۔

’آج سوچا تو آنسو بھر آئے،‘ اس گیت میں ستار کا خوبصورت باج معروف ستار نواز استاد رئیس احمد خان کے ہاتھ کا بجایا ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ استاد رئیس نے مدن موہن کے اکثر گیتوں میں ستار بجایا ہے۔

میراث کی پیروی

مدن موہن کی موسیقی آج بھی اپنی لازوال کشش کے لیے جانی جاتی ہے۔ ان کے کلاسیکی اور جدید عناصر کے امتزاج نے کئی جدید کمپوزرز کو متاثر کیا ہے۔

’یہ قصور میرا ہے کہ یقین کیا ہے‘

 موسیقار متھون کے اس گیت میں مدن موہن کی موسیقی کا رنگ موجود ہے اپنے ہم عصروں کے ساتھ سخت مقابلے کے باوجود، مدن موہن نے اپنے منفرد انداز اور اپنے فن سے محبت کے ساتھ اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ متهون وہ موسیقار ہیں جو مدن کی موسیقی کی روایت کو لے کرآ گے چل رہے ہیں۔ ان کی کمپوزیشنز کو مختلف فلموں اور البمز میں دوبارہ زندہ کیا گیا ہے، جس سے ان کی موسیقی نئی نسلوں تک پہنچ رہی ہے۔

مدن موہن کی موسیقی کا کمال ان کی تکنیکی برتری اور جذباتی گہرائی میں مضمر ہے۔ ان کی میراث گانوں کا ایک خزانہ ہے جو آج بھی دلوں کو محظوظ کرتی ہے اور مستقبل میں بھی کرتی رہے گی۔ ان کی موسیقی سن کر ہمیں یاد آتا ہے کہ ایک حقیقی فنکار کا اثر وقت کو عبور کر کے دلوں کو چھوتا ہے اور ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

مدن موہن کی موسیقی میں پر اسراریت (سسپنس) اور میلوڈی

مدن موہن کی موسیقی میں سسپنس اور میلوڈی کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کی کمپوزیشنز میں ایک خاص قسم کی پراسراریت اور دلکشی ہوتی ہے جو سامعین کو محظوظ کرتی ہے۔

 مدن کی موسیقی سسپنس کی عکاسی ہے۔ مدن موہن کو موسیقی میں سسپنس کو تخلیق کرنے کا خاص ہنر تھا۔ ان کے گانوں میں پراسرار اور دلکش دھنیں سننے والوں کو حیران کر دیتی تھیں۔ فلم ’وہ کون تھی؟‘ میں ان کا گیت ’لگ جا گلے‘ اور ’نیناں برسیں رم جھم‘ کا پہلے ذکر آ چکا ہے، اس کے علاوہ ’تو جہاں جہاں چلے گا میرا سایہ ساتھ ہو گا،‘ بھی ایک عمدہ مثال ہے۔

ان گانوں کی دھنیں اور موسیقی میں ایک خاص قسم کی پراسراریت اور سسپنس ہے جو فلم کی کہانی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

یہاں پر ضروری ہے کہ اس کی وضاحت کی جائے۔ میرے نزدیک گیت کو کھولنا وہ مشکل اور پچیدہ عمل ہے جس کے لیے آپ کو بہت زیادہ حساسیت کے ساتھ ساتھ تکنیکی مہارت اور جمالياتی ذوق کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے اور پھر تخلیقی جوہر کا بہت عمیق انداز کے ساتھ تجزیہ کرنا ہوتا ہے پھر اسی عمل کو اگے بڑھاتے ہوئے دھن کو ساز سے الگ کر کے دیکھنا پڑتا ہے، پھر آواز میں پھیلتے ہوے ارتعاش کو ناپنا پڑتا ہے۔

پھر شاعری میں ڈو بتے ہوے اس کے نازک بند کو ایک ہیت کے روپ میں دیکھ کر پھر موسیقی کے ساتھ رشتہ اور امتزاج کا آہنگ دیکھنا پڑتا ہے۔ مدن کے ہاں ایک سر کو دو سے تین روپ میں آرام سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سماعت کے لیے ایک دلچسپ عمل اور تجربہ ہے جس میں ایک سر کو ایک روپ سے دوسرے روپ میں جاتے ہوئے آپ دیکھ سکتے ہیں جبcrosmatic note  یعنی بے ڈ ار سر کو ایک ہی لمحہ میں الگ ہوتے ہوئے اور پھر واپس مڑتے ہوے محسوس کر سکتے ہیں۔

مدن موہن کی میلوڈی کی کشش

مدن موہن کی کمپوزیشنز کی میلوڈی بہت سادہ مگر دلکش ہوتی تھیں۔ ان کی دھنیں سیدھی سادی ہوتی تھیں مگر ان میں ایک ایسی خوبصورتی ہوتی تھی جو سامعین کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ گانے جیسے ’آپ کی نظروں نے سمجھا‘ اور ’ہو کے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہو گا‘ ان کی میلوڈک خوبیوں کی مثال ہیں۔

آواز اور ساز کا امتزاج

مدن موہن نے گلوکاروں کی آواز اور سازوں کا ایسا امتزاج بنایا جو ان کی میلوڈی کو اور بھی خوبصورت بناتا تھا۔ لتا منگیشکر اور محمد رفیع کی آواز میں ان کی دھنیں خاص طور پر دلکش ہوتی تھیں۔

مدن موہن کی راگ پر مبنی دھنیں

مدن موہن کی موسیقی کی ایک اور نمایاں خصوصیت ان کی راگ پر مبنی دھنیں ہیں۔ انہوں نے انڈین کلاسیکی موسیقی میں موجود راگوں کے ذریعے اپنے گانوں میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔

’نیناں برسیں‘ 1964 میں آئی فلم ’وہ کون تھی‘ کا گیت ہے۔ یہ گیت سن کر آپ کسی اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ راجہ مہدی علی خاں کے بول کا جادو ہے اورمدن موہن کی سحر آمیز بندش۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس گیت کی پرتوں کو اگر کھولا جائے تو اس گیت میں تو راگ مشر کلیان کا چلن اور انگ چل رہا ہے اور پہاڑی راگ کے سُر بھی شامل ہیں۔ جب انٹرلیوڈ میں داخل ہونے سے پہلے ’نیناں برسیں‘ کہا جاتا ہے تو اس میں مارو بہاگ کے سُر بھی شامل ہوتے ہیں۔

اگر آپ ابتدائی الاپ سنیں تو اس میں پرسراریت جنم لینا شروع کر دیتی ہے۔ یہ الاپ فلم کے مختلف حصوں میں پس منظر میں چلتا رہتا ہے، بلکہ پوری فلم میں یہ گیت بیک گراؤنڈ میں بجتا ہے۔

اس گیت کے سروں پر اگر غور کریں تو اس میں مشر کلیان کا استعمال کیا گیا ہے کہیں کہیں کھماچ کا رنگ سروں میں دمكتا ہے اور پھر انہی سروں میں کروزمیٹک نوٹ اس کے طلسم کو اور اگے بڑھاتے ہوئے نظر اتے ہیں جیسے کہ گیت ’لگ جا گلے سے‘ میں (ملاقات ہو نہ ہو) کہ جو بول ہیں اسی طرح اس گیت میں (پیا تورے آون کی آس) ہے، جہاں مینڈھ کا لاجواب استعمال کیا گیا ہے۔

جو چھلانگ یا جمپ مدن موہن گیت کے مختلف حصوں میں بانٹتے ہوئے رکھتے ہیں وہ آپ کو اس جگہ پر باقاعدہ محسوس ہوتی ہے۔ جب انترے میں داخل ہوتے ہیں تو دُھن راگ كروانی کے سُروں میں چلی جاتی ہے، اب گیت دوبارہ واپس کلیان اور پہاڑی میں کیسے آتا ہے تو ان بولوں پر واپسی ہے:

’یہ دل اب تک بھٹکتا ہے تیری الفت کی راہوں میں‘

 کہروا تال پر اس گیت کی بنیاد ہے۔ جب یہ بول آتے ہیں، ’وہ دن میری نگاہوں میں‘ اس کے بعد جو الاپ اتا ہے اس الاپ میں بے ڈار سُر آپ کو محسوس ہوتے ہیں جو اس کیفیت کی شدت کو بڑھاتے ہیں۔

پورے گیت میں کلیان کا رچاؤ چل رہا ہے اور اسی میں واپسی ہوتی ہے مگر درمیان کے مصرعوں میں رچنا واپس سمٹ کر مارو بہاگ میں آ جاتی ہے۔ اس گیت کو مدن موہن نے اپنی آ واز میں بھی گایا ہے۔ اس میں بھی ایک سُر کے دو روپ کروزمیٹک نوٹ میں نظر اتے ہیں۔

راگ ایمن

’آپ کی نظروں نے سمجھا‘ (فلم: ان پڑھ)

یہ گانا راگ ایمن پر مبنی ہے اور اس کی دھن اور تال راگ ایمن کی خوبصورتی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس گانے میں مدن موہن نے راگ ایمن کی نزاکت اور خوبصورتی کو اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔

 راگ بھیرویں

’لگ جا گلے‘ (فلم: وہ کون تھی؟)

یہ گانا راگ بھیرویں پر مبنی ہے اور اس کی دھن میں راگ بھیرویں کی دلکشی اور مدھر خصوصیات کو ظاہر کیا گیا ہے۔ دادرا تال میں کا استعمال کیا گیا ہے۔ لفظ ’جا‘ میں وابریٹو کا استعمال کیا گیا ہے جس سے اس مصرعے کی دلکشی اور بڑھ جاتی ہے۔

نینوں میں بدرا چھائے (میرا سایہ)

 بھیم پلاسی کی بندش میں یہ گیت مدن موہن کے راگ پر مبنی دھنوں کی بہترین مثال ہے۔ یہ گانا بھی لتا منگیشکر کی آواز میں ہے اور مدن موہن کی موسیقی کی خوبصورتی کو نمایاں کرتا ہے۔ اس گانے کی دھن اور الفاظ کا امتزاج اسے ایک لازوال کلاسک بناتا ہے۔ لفظ ’گروا‘ کی ادائیگی بہت مشکل احساس پر مبنی ہے۔

’ہو کے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہو گا‘  (فلم: حقیقت)

کیفی اعظمی کے لکھے اس گیت کو مدن موہن نے ایک خوبصورت کمپوزیشن میں تراشا ہے، جسے محمد رفیع، مناڈے، بھو پندر اور طلعت محمود نے گایا ہے۔ اس گانے کی دھن اور جذباتیت سننے والے کو متأثر کرتی ہے۔

’بیتاب دل کی تمنا یہی ہے‘ (فلم: ہنستے زخم )

 کیفی اعظمی کے لکھے اس گیت کو راگ پیلو اور کروانی میں تال دادرا میں سجایا گیا ہے۔ یہ گانا لتا منگیشکر کی آواز میں ہے اور مدن موہن کی موسیقی کے تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ اس گانے کی خوش مزاج اور رو مانس میں ڈوبی دھن اور بہترین گائیکی اسے خاص بناتی ہے۔

’میری آواز سنو‘ (فلم: نونہال)

 یہ گانا محمد رفیع کی آواز میں ہے اور مدن موہن کی موسیقی کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

’نغمہ و شعر کی سوغات کسے پیش کروں‘

 یہ گانا مدن موہن کی خوبصورت دھن اور لتا منگیشکر کی بہترین گائیکی کی ایک اور مثال ہے۔

’جو ہم نے داستان اپنی سنائی‘ (فلم: وہ کون تھی)

یہ گانا بھی لتا منگیشکر کی آواز میں ہے اور مدن موہن کی موسیقی کی نزاکت کو ظاہر کرتا ہے۔

’دو دل ٹوٹے دو دل ہارے‘ (ہیر رانجھا)

یہ گانا راگ پہاڑی پر مبنی ہے اور اس کی دھن میں راگ پہاڑی کی سادگی اور دلکشی کو نمایاں کیا گیا ہے۔

’اگر مجھ سے محبت ہے فلم‘ (آپ کی پرچھائیاں)

یہ گانا راگ درباری پر مبنی ہے اور اس کی دھن میں راگ درباری کی شاہانہ اور پر شکوہ خصوصیات کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے

’نہ تم بے وفا ہو‘ (فلم: شعلہ اور شبنم)

 یہ گانا مدن موہن کی موسیقی کی گہرائی اور جذباتیت کو ظاہر کرتا ہے۔

دل کی فرصت کے مختلف رنگ

اس گیت کو مد ن موہن نے چار مختلف طرزوں میں تیار کیا تھا، جن میں سے دو طرزیں فلم ’موسم‘ کے اندر موجود ہیں اور بعد میں ایک طرز کو فلم ’ویر زارا‘ میں استعمال کیا گیا جس دھن پر جاوید اختر نے گیت لکھا۔ ’تیرے لیے ہم ہیں جیے‘ یہ گیت بھی لتا منگیشکر اور روپ کما ر نے گایا۔

مدن موہن کو پہلا ایوارڈ فلم ’دستک‘ 1970 میں ملا۔ انہوں نے 700 سے زائد گیتوں کو کمپوز کیا۔ مدن موہن نے شیلا کوہلی کے ساتھ ازدواجی رشتے کا بندھن باندھا۔

جب مدن موہن کو بہت ساری فلموں کا میوزک ترتیب دینے پر بھی کوئی ایوارڈ نہ ملا تو وہ اداس ہو گئے۔ لتا جی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ ’بڑے خوددار تھے مدن بھیا۔ ’وہ کون تھی‘ فلم میوزک پر ممکن تھا ان کو بہت بڑا ایوارڈ ملتا مگر وہ ایوارڈ مدن بھیا کو نہیں ملا، ایوارڈ نہ ملنے پر جب میں نے افسوس کا اظہار کیا۔ تو مدن بھیا نے کہا، ’میرے لیے کیا یہ ایوارڈ کم ہے کہ تمہیں افسوس ہوا۔‘

مدن کا لتا جی کی فنی زندگی میں کردار

لتا منگیشکر کی فنی زندگی میں جہاں باقی موسیقاروں کا بہت کردار رہا وہیں پر مدن موہن نے منگیشکر کے لیے خصوصی طور پر دھنیں تیار کیں۔ ان کے بیشتر گیت لتا منگیشکر کی آواز میں ہیں۔ اور لتا منگیشکر نے گائیکی میں جو عروج حاصل کیا اس میں مدن موہن کی موسیقی کا بہت بڑا کردار ہے۔

مدن موہن کا کیریئر

1932 کے بعد مدن موہن کا کچھ عرصہ دینہ ضلع جہلم میں بھی گزرا۔ انہوں نے لاہور شہر میں سکول کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انہوں نے موسیقی کی کچھ تربیت کرتار سنگھ سے لی، مگر باقاعدہ تربیت نہیں لی۔

انہوں نے ال انڈیا ریڈیو سے بچوں کے پروگراموں میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے1943 میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ آرمی اپنی نوکری کا آغاز کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد انہوں نے اس نوکری کو خیر آباد کہہ کر واپس ممبئی فلم نگری میں آ گئے۔

1946 میں انہوں نے لکھنو آل انڈیا ریڈیو میں بطور پروگرام اسسٹنٹ کام کا آغاز کیا۔ وہاں پر ان کی ملاقات استاد فیاض خان، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، اور طلت محمود سے رہی جن کی سنگت میں ان پہ غزل کا رنگ نمایاں رہا۔

اسی دوران وہ آل انڈیا ریڈیو کے لیے گیت کمپوز کرتے رہے۔ 1947 میں انہوں نے بہزاد لکھنوی کی لکھی ہوئی دو غزلیں ریکارڈ کیں: ’آنے لگا ہے کوئی نظر جلوہ گر مجھے‘ اور ’اس راز کو دنیا جانتی ہے۔‘

1948 میں انہیں فلم میں لتا منگیشکر کے ساتھ گیت گانے کا پہلا موقع ملا، ’پنجرے میں بلبل بولے اور میرا چھوٹا سا دل ڈولے۔‘

اس گیت کی موسیقی غلام حیدر نے بنائی تھی۔ 1946 اور 48 کے درمیان انہوں نے معروف موسیقار ایس ڈی برمن کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کیا۔ فلم ’دو بھائی‘ میں بھی وہ ایس ڈی برمن کے ساتھ رہے۔

بطور فلم میوزک ڈائریکٹر 1950 میں انہیں پہلا بریک تھرو فلم ’آنکھیں‘ سے ملا۔ فلم شرابی کے گیت ’ساون کے مہینے میں‘ اور ’کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں سے‘ بھی ان کو شہرت ملی۔

اسی طرح طلعت محمود کا گیت ’پھر وہی شام وہی غم وہی تنہائی‘ بھی خاصا مقبول رہا۔

مدن موہن نے کشور کمار سے بھی گیت ریکارڈ کروائے جن میں ’سمٹی سی شرمائی سی کس دنیا سے تم آئی ہو،‘ ’اے حسین و نازنینوں،‘ ’میرا نام عبدالرحمان،‘ ’ضرورت ہے ضرورت ہے کسی،‘ ’ایک مٹھی آسمان،‘ وغیرہ شامل ہیں۔

لتا منگیشکر نے مدن کو ’غزل کا شہزادہ‘ کا خطاب بھی دیا تھا

انہوں نے بہت باریک بینی اور حساسیت کے ساتھ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کی دھنوں کو غور سے سنا تھا انہوں نے اپنی کمپوزیشن کے عناصر میں کلاسیکل میوزک کو نئے انداز کے ساتھ پیش کیا انہوں نے مغربی انداز موسیقی کو بھی اپنی دھنوں میں harmony کی صورت میں پیش کیا

انہوں نے 90 سے زائد فلموں میں موسیقی ترتیب دی۔ فلم ’موسم،‘ ’وہ کون تھی‘ اور ’ان پڑھ‘ کے لیے ان کی فلم فیئر ایوارڈ کی نومینیشن ہوئی تھی۔

 ان کے بیٹے سنجیو کوہلی نے 2004 میں ان کی آخری موسیقی کو فلم ’ویر زارا‘ میں استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا کہ جب مدن موہن دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ انہیں 2005 میں آئیفا کا بہترین موسیقار کا ایوارڈ بھی ملا۔

اس کے علاوہ بھی ان کی مو سیقی راکی اور رانی کی پریم کہانی 2023 میں ریلیز ہوئی۔

وہ 14 جولائی 1975 کو اس دنیا کو خیر آباد کہہ گئے۔ اس قلیل عرصے میں انہوں نے یادگار دھنیں اپنے سننے والوں کے لیے چھوڑی ہیں۔

مدن موہن نے ہندی فلموں کے لیے جو غزلیں کمپوز کی ہیں اس کے لیے ان کو یاد رکھا جائے گا۔

مدن موہن کی موسیقی میں سسپنس، میلو ڈی، اور راگ کی خوبصورتی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کی دھنیں سامعین کو ایک پراسرار اور دلکش دنیا میں لے جاتی ہیں۔ ان کی راگ پر مبنی دھنیں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی خوبصورتی اور نزاکت کو جدید فلمی موسیقی میں خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں۔ مدن موہن کی موسیقی آج بھی دلوں کو محظوظ کرتی ہے اور ہمیشہ کے لیے یادگار رہے گی۔

مدن موہن کے گیتوں کی فہرست بہت طویل ہیں مگر یہاں چند ناقابل فراموش گیتوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:

  • اے دل مجھے بتا دے تو کس پہ آ گیا ہے
  • رسم الفت کو نبھا یں
  • تجھے کیا سناؤں میں دلربا
  • تیری انکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
  • ہر طرف اب یہی افسانے ہیں
  • ملو نہ تم تو ہم گھبرائیں
  • ذرا سی آہٹ ہوتی ہے تو دل سوچتا ہے
  • نغمہ و شعر کی سوغات کسے پیش کروں
  • میری آنکھوں سے کوئی نیند لیے جاتا ہے
  • میں تو تم سنگ پریت لگا کر
  • سپنوں میں اگر میرے تم آؤ تو سو جاؤں
  • رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے
  • آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے
  • ان کو یہ شکا یت ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے
  • ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
  • مشکل ہے جینا بے دردوں کی دنیا میں
  • شوخ نظر کی بجلیا ں دل پہ میرے گرائے جا
  • پھر وہی شام وہی درد پرانے
  • تم جو مل گئے ہو
  • تم سے کہوں اک بات
  • وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آ گئی
  • تم سے بچھڑ کے چین کہاں ہم پائیں گے
  • میری دنیا میں تم آئے
  • میری وینا تم بن روئے
  • اشکوں سے تیری ہم نے
  • تو پیار کرے یا ٹھکرائے
  • ایک حسین شام کو دل میرا کھو گیا
  • کئی دن سے جی ہے بےکل
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی