لچھی رام، جی ایس کوہلی، رام لال، بخشی مہندر، سی ارجن اور ایک لمبی قطار۔ کیا آپ ان میں سے کسی کو بالی وڈ موسیقار کے طور پر پہچان سکتے ہیں؟
ایسے فنکاروں کے لیے ادریس بابر نے ایک کمال کا شعر کہہ رکھا ہے۔
وہ لوگ بھی ہیں تاریخ میں جن کا کوئی ذکر نہیں ملتا
وہ نقش بھی ہیں جو کوزہ گر کے چاک میں گم ہو جاتے ہیں
بالعموم بی اور سی گریڈ فلموں میں موسیقی دینے والے یہ باصلاحیت فنکار غربت اور گمنامی کی گرد میں گم ہو گئے۔ ان کے پاس وسائل ہوتے تھے نہ تیکنیکی سہولیات۔
یہ لوگ نوشاد یا مدن موہن نہ بن سکے مگر کچھ ایسے شاہکار تخلیق کر گئے جو نوشاد یا مدن موہن کے چوٹی کے گیتوں سے کم نہیں۔
چند روز پہلے محمد رفیع کی برسی گزری۔ بطور انسان رفیع کی عظمت کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی اے گریڈ اور بی گریڈ فلم/موسیقار میں امتیاز نہ کیا۔
لتا منگیشکر اور اوپی نیر کی لڑائی میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نیر کی پہلی فلم کے وقت لتا نے یہ کہہ کر گانے سے انکار کیا تھا کہ میں نئے لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرتی۔
لتا جی نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات خود بتائی۔ حقائق کی کھوج میں جائے بغیر اس سے لتا منگیشکر جی کا مزاج سمجھا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف محمد رفیع بھی 50 اور 60 کی دہائی میں اتنے ہی مصروف تھے لیکن ایسا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے کبھی کسی موسیقار کو انکار کیا ہو۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے گمنام موسیقاروں کے ساتھ سب سے زیادہ کام رفیع صاحب نے کیا۔ اگر دوگانا ہوتا تو اس میں لتا کی بجائے اکثر آشا کو بلایا جاتا۔
کیوں نہ رفیع کے ایسے پانچ بہترین گیتوں کا ذکر کیا جائے جن کے موسیقار گم نام اور گیت شاہکار ہیں۔
1۔ سب جواں سب حسیں کوئی تم سا نہیں
آپ رفیع کے بہترین گیت الگ کیجیے اور یہ شاہکار ان کے ساتھ رکھ کر سنیں۔ مجال ہے اپنی مٹھاس اور روانی میں یہ گیت ان کے ہم پلہ نہ ہو۔
یہ گیت 1964 میں آئی فلم ’میں سہاگن ہوں‘ میں شامل تھا۔ محض یہ گیت ہی نہیں پوری فلم کی موسیقی لاجواب ہے۔
تو شوخ کلی میں مست پون، تو شمع وفا میں پروانہ (رفیع، آشا)، گوری تورے نینوا کجر بن کارے (رفیع، آشا) میں تو رومانس چھاجوں برستا ہے۔
ان گیتوں کے خالق لچھی رام تھے جن کا تعلق ہماچل پردیش سے تھا۔ گھر میں گانا بجانا تھا سو بچپن میں سیکھ لیا اور چڑھتی جوانی میں ریکارڈنگ کمپنی ایچ ایم وی کے ساتھ دہلی میں بطور موسیقار اور گلوکار کام کرنے لگے۔
یہیں دہلی میں ان کی ملاقات عزیز کشمیری سے ہوئی جو اس وقت کے نامور فلم مصنف تھے۔ عزیز کشمیری کے تعارف کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ انہوں نے ’لارا لپا لارا لپا‘ اور ’انہی لوگوں نے لے لینا دوپٹہ میرا چھینا‘ جیسے مشہور گیت لکھے۔
آخری گیت کا مکھڑا بعد میں ’پاکیزہ‘ میں شامل ہوا اور یوں ایک غضب کا نیا گیت بنا۔
عزیز کشمیری شوری پکچرز کے دہلی میں نمائندہ تھے۔ انہوں نے لچھی رام کو شوری پکچرز کے ہیڈکوارٹر بمبئی بھیجا اور یوں اسی پروڈکشن ہاؤس کی فلم ’چمپا‘ (1945) سے لچھی رام کو بریک ملا۔
لچھی رام نے 20 فلموں میں موسیقی ترتیب دی جن میں آٹھ فلموں کے گیت نصف ان کے اور نصف دیگر موسیقاروں کے تھے۔ یہ سبھی بی گریڈ فلمیں تھیں۔
لچھی رام کا نقطۂ عروج و زوال ایک ہی فلم ہے، ’میں سہاگن ہوں۔‘ اس فلم میں انہوں نے بہترین گیت تخلیق کیے اور یہی ان کی آخری فلم ثابت ہوئی۔
لچھی رام کے رفیع کے ساتھ چند دیگر شاہکار:
ڈھلتی جائے رات، کہہ لے دل کی بات (آشا کے ساتھ)
آنسو نہ بہا کر یاد اسے جو اس سنسار کا داتا ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
2۔ وہ ہم نہ تھے وہ تم نہ تھے
1964 بالی وڈ کی فلمی موسیقی کے لیے بہت خوش قسمت سال رہا۔ معروف فلموں کے علاوہ ’میں سہاگن ہوں‘ اور ’چا چا چا‘ جیسی لافانی فلمیں 1964 میں ریلیز ہوئیں۔
’چا چا چا‘ جیسی فلمیں بہت کم ہیں جن میں ایک ساتھ اتنے اچھے گیت ملیں۔ ’صبح نہ آئی شام نہ آئی،‘ ’وہ ہم نہ تھے وہ تم نہ تھے،‘ ’اک چمیلی کے منڈوے تلے دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے۔‘ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ان میں سے پہلے نمبر پر کس گیت کو رکھیں۔
ان فلموں کے موسیقار تھے اقبال قریشی جن کی پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی۔ آغاز اپٹا کے ساتھ تھیئڑ سے ہوا جہاں یہ ڈرامے ڈائریکٹ کرتے رہے۔
ان کی پہلی فلم ’پنچایت‘ 1958 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا ایک گیت دریا کی روانی رکھتا ہے۔ ’تھا تھیا کرتے آنا۔‘ اسے لتا اور گیتا دت نے گایا تھا۔
60 کی دہائی میں انہوں نے ’بندیا،‘ ’لو اِن شملہ‘ جیسی کئی فلموں میں موسیقی ترتیب دی۔
’میں اپنے آپ سے گھبرا گیا ہوں،‘ ’یوں زندگی کے راستے سنورتے چلے گئے،‘ ’گال گلابی کس کے ہیں،‘ یہ تینوں گیت رفیع کے آواز میں بہت مشہور ہوئے مگر اقبال قریشی کی مشکلات کم نہ ہو سکیں۔ انہوں نے کام ڈھونڈنے کے لیے ہمیشہ تگ و دو کا سامنا کیا۔
تقریباً 15 برس اور 25 فلموں میں کام کرنے والے اقبال قریشی کو ان کی فلم ’چا چا چا‘ نے امر کیا۔ یہ ہیلن کی پہلی فلم تھی جو بعد میں نامور اداکارہ بنیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’صبح نہ آئی شام نہ آئی‘ کے آخر میں رفیع کی آواز کا بلند ہونا اور وہ ہم نہ تھے وہ تم نہ تھے میں مسلسل اتار چڑھاؤ سامعین کو کسی اور دنیا میں لے جاتا ہے۔ شاندار بول نیرج نے لکھے تھے اور یہ ان کی اولین فلموں میں سے ایک تھی۔
’اک چنبیلی کے منڈوے تلے‘ دراصل مخدوم محی الدین کی نظم تھی جس میں دو پریموں کی لافانی محبت کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔
رفیع اور آشا نے بھی گانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مگر سب سے زیادہ کردار اقبال قریشی کا تھا جن کے گیت ان سے آگے نکل گئے۔
3۔ تقدیر کا فسانہ جا کر کسے سنائیں
پورے کیریئر میں محض چھ فلمیں اور ان میں سے دو کا سنگیت ناقابل فراموش۔ ایسی اوسط اور کس موسیقار کی ہو گی بھلا؟
ان کا نام تھا رام لال، جنھیں شہنائی اور بانسری بجانے میں خاص مہارت تھی۔ ان کا سب سے زیادہ مشہور گانا فلم ’صحرا‘ میں ’پنکھ ہوتے تو اڑ آتی رے‘ ہے۔
اس گانے میں انہوں نے جس طرح جل ترنگ کو مرکزی ساز کے طور پر استعمال کیا اس کی مثالیں بہت کم ملیں گی۔
40 کی دہائی میں بمبئی آنے والے رام لال ابتدا میں رام گنگولی نام کے ایک موسیقار کے اسسٹنٹ بن گئے۔ یہ وہی رام گنگولی ہیں جنہوں نے راج کپور کی پہلی فلم ’آگ‘ (1948) کی موسیقی دی تھی۔
بہت جلد رام لال کو ایک فلم مل گئی جس کا نام تھا ’تانگے والا۔‘ پی ایل سنتوشی جیسا فلم ساز، راج کپور اور وجنتی مالا جیسے ستارے۔
رام لال کو یقین ہو گیا کہ فلم ریلیز ہوتے ہی ان کی قسمت کا تانگہ بھی دوڑنے لگے گا۔ مگر یہ فلم درمیان میں ہی روک دی گئی اور یوں رام لال کا سپنا ادھورا رہ گیا۔
یہ سازندے کے طور پر مختلف موسیقاروں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ انہیں 50 کی دہائی میں چار فلمیں ملیں مگر ان کے نام سے ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کس درجے کی تھیں۔
’حسن بانو،‘ ’نقاب پوش،‘ ’میا مچھندر۔‘ اب ان میں موسیقی کی کتنی گنجائش تھی آپ خود سوچ لیں۔
60 کی دہائی میں مشہور فلم ساز وی شانتا رام نے ’صحرا‘ اور ’گیت گایا پتھروں نے‘ کے نام سے دو فلمیں بنائیں جن میں رام لال کی موسیقی تھی۔
’تقدیر کا فسانہ‘ ابتدا میں مہندر کپور کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا لیکن موسیقار اور فلم ساز دونوں مطمئن نہ تھے۔
یہ رفیع کے بہترین المیہ گیتوں میں سے ایک ہے۔ اس گیت میں رام لال نے خود شہنائی بجائی اور کیا خوب بجائی۔
اسی فلم میں رفیع لتا کا ایک نہایت مدھر گیت ہے، ’تم تو پیار ہو سجنا۔‘ رومانوی گیتوں میں ایسی معصوم اور اجلی فضا کم کم نظر آتی ہے۔
4۔ تم پوچھتے ہو عشق بلا ہے کی نہیں ہے
رفیع کی آواز کا ایک خاص جوہر غزل یا غزل کی طرز پر بنے گیتوں میں کھلتا ہے۔ ’ہم بےخودی میں تم کو پکارے چلے گئے‘ ٹائپ کے گیت۔
ایسے گیتوں کی ایک مختصر فہرست مرتب کیجیے۔ کیا یہ فہرست ’تم پوچھتے ہو عشق بلا ہے کہ نہیں ہے‘ کے بغیر مکمل ہو سکتی ہے؟ محض اس مصرعے کو نوٹ کریں، کھونے میں بھی پائے کا مزہ ہے کے نہیں ہے۔ کیا ادائیگی ہے، کیا کیفیت ہے۔
’نقلی نواب‘ (1962) میں شامل اس گیت کے انتہائی خوبصورت بول کیفی اعظمی نے لکھے تھے جبکہ خواب آور دھن بابل نے ترتیب دی تھی۔
گلوکار بننے کی خواہش مند بابل 40 کی دہائی میں بمبئی آئے۔ کچھ عرصہ خاک چھاننے کے بعد اندازہ ہو گیا کہ بطور گلوکار دال نہیں گلنے والی۔ شوق پاؤں کی زنجیر بنا اور انہوں نے میوزک ڈائریکشن کے میدان میں قدم رکھ دیا۔
جدوجہد کے دوران ان کی دوستی بپن کے ساتھ ہوئی۔ یوں بپن بابل نے مدن موہن کے معاون کے طور پر شروعات کیں۔
بطور جوڑی ان کی سب سے کامیاب فلم ’چوبیس گھنٹے‘ تھی۔ اس کے بعد وہ الگ ہو گئے اور آزادانہ طور پر کام کرنے لگے۔
بابل نے ’چالیس دن،‘ ’ریشمی رومال،‘ ’سارا جہاں ہمارا‘ اور ’نقلی نواب‘ میں زبردست موسیقی دی۔ مگر رفیع کے ساتھ ’تم پوچھتے ہو‘ جیسا ماسٹر پیس یہ کبھی نہ تخلیق کر سکے۔
5۔ ہزاروں رنگ بدلے گا زمانہ
سوشل میڈیا پر بھولے بسرے زمانے کی کوئی ویڈیو گردش کرتے ہوئے سامنے آتی ہے، آواز کا بٹن دباتے ہی ایک گیت سماعتوں میں ناسٹلجیا بکھیرنے لگتا ہے۔ ’گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ حافظ خدا تمہارا۔‘
’ہزاروں رنگ بدلے گا زمانہ‘ اور ’حافظ خدا تمہارا‘ دونوں کے خالق کا نام ہے بخشی موہندر سنگھ جو ایس مہندر کے نام سے بطور موسیقار کام کرتے رہے۔
یہ دونوں شاہکار ایک ہی فلم ’شیریں فرہاد‘ سے ہیں۔ ایک لتا اور دوسری رفیع کی آواز میں۔
سلانوالی کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والے ایس مہندر بچپن سے ہی اشلوک گانے لگے۔ یہی اشلوک گائیکی ان کے ذریعہ روزگار کی سیڑھی بن گئی۔
بٹوارے کے وقت یہ بمبئی پہنچے تو رہنے کو جگہ نہ تھی۔ دادر میں ایک گردوارے پہنچے جہاں چھ دن سے زیادہ رہنے کی اجازت نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجھے رہنے دیجیے میں اشلوک گا کر سنایا کروں گا۔ اس طرح ان کے ٹھکانے کا بندوست ہوا۔
رفیع کے ساتھ ان کا ایک اور شاہکار گیت ہے ’تیرا کام ہے جلنا پروانے چاہے شمع جلے یا نہ جلے۔‘
چند فلموں میں یادگار گیت دینے کے باوجود ایس مہندر ہندی فلموں میں کامیاب کیریئر نہ بنا سکے البتہ پنجابی فلموں میں ان کا جادو سر چڑھ کر بولا اور انہوں نے 1969 میں ’نانک نام جہاز‘ فلم پر نیشنل ایوارڈ بھی حاصل کیا۔