’عرب دنیا کی آواز‘ ام کلثوم موت کے 50 سال بعد بھی ہر دلعزیز

مصری گلوکارہ ام کلثوم، جو ایک پسماندہ پس منظر سے اٹھ کر عرب دنیا کی سب سے طاقتور آواز بن گئیں۔

بغداد کے ام کلثوم کیفے میں 27 جنوری 2025 کو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

نصف صدی بعد بھی مصری گلوکارہ ام کلثوم کی منفرد آواز مصر کی گلیوں، عراق کے پرانے ہوٹلوں، اور مراکش سے عمان تک لاکھوں گھروں میں گونج رہی ہے۔

قاہرہ کے ’ام کلثوم‘ کیفے کے مینیجر ابو احمد نے اے ایف پی کو بتایا، ’جب تک لوگ موسیقی سنیں گے، ام کلثوم ہمیشہ رہیں گی۔‘ انہوں نے کہا، ’وہ ہر گیت اور ہر سُر میں آج بھی زندہ ہیں۔‘

قاہرہ کے اس تاریخی بازار میں موجود شائقین کیفے کے اندر جھانک رہے تھے۔ ابو احمد کے کیفے کی دیواروں پر اس مشہور گلوکارہ کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر آویزاں ہیں، جن کے ساتھ ان کے کنسرٹس کے پوسٹر بھی لگے ہیں۔

جب کیفے میں ام کلثوم کا مشہور نغمہ ’انت عمری‘ (تم میری زندگی ہو) اپنے عروج پر پہنچا، تو قریب کی میز پر ہونے والی گفتگو خاموشی میں ڈوب گئی۔

36 سالہ آیا خامس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے سرگوشی کی، ’ام کلثوم قوم کی آواز ہیں۔‘

باہر ایک لکڑی کے ٹال پر ایک دکاندار ام کلثوم اور ان کے آرکسٹرا کی ننھی مجسمہ نما شبیہیں سجا رہا تھا۔ ہر ٹکڑا بڑی نفاست سے تیار کیا گیا تھا۔ یہاں دھاری دار سوٹ پہنے موسیقار، عربی ساز قانون اور عود کی چھوٹی چھوٹی نقلیں، اور خود ام کلثوم کے مجسمے موجود تھے جس میں انہوں نے اپنا مخصوص سکارف اور دھوپ کا چشمہ پہنا ہوا تھا۔

37 سالہ شادی سعید نے گلوکارہ کا ایک مجسمہ اٹھاتے ہوئے کہا، ’یہ میرے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے آئٹمز ہیں۔‘

لڑکے کے بھیس میں

قاہرہ سے ایک کلومیٹر دور، بغداد کے اپنے ’ام کلثوم کیفے‘ میں وہی موسیقی گونج رہی تھی۔ یہ کیفے 1970 میں کھلا تھا، یعنی ام کلثوم کی وفات سے پانچ سال پہلے۔ 1975 میں ام کلثوم کی وفات نے عرب دنیا کو غمزدہ کر دیا تھا۔

قاہرہ میں ان کے جنازے سے بہت دور، بغداد کے اس کیفے نے اپنے عقیدت مندوں کے لیے ایک الگ تقریب منعقد کی، جن میں عراقی انجینیئر یوسف حماد بھی شامل تھے۔

اب 77 سال کے ریٹائرڈ حماد نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ آج بھی روزانہ اسی کیفے میں آ کر ام کلثوم کے گھنٹوں لمبے کنسرٹ سنتے ہیں۔

ایک اور کیفے میں بیٹھے خزال ابو علی اپنی محبت کا اظہار الفاظ میں ڈھالنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

83 سالہ علی نے کہا، آنکھوں میں نمی لیے ہوئے کہا، ’انہوں نے ایک بار ایک گیت گایا تھا، ’اگر ایک دن تمہیں دیکھے بغیر گزر جائے، تو وہ میری زندگی کے دنوں میں شمار نہیں ہو سکتا۔‘ میرا بھی یہی احساس ہے۔ ام کلثوم کی آواز کے بغیر ایک دن، ضائع شدہ دن ہے۔‘

1898  میں دریائے نیل کے ڈیلٹا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والی ام کلثوم نے انتہائی سادہ حالات سے اٹھ کر عرب دنیا کی سب سے مشہور آواز بننے تک کا سفر طے کیا۔

ان کے امامِ مسجد والد نے جلد ہی ان کی صلاحیت کو پہچان لیا، لیکن 20ویں صدی کے اوائل کے مصری معاشرے کے سخت ردعمل کے خوف سے انہیں لڑکے کے بھیس میں عوامی سطح پر گانے کی اجازت دی۔

ان کی بھرپور آواز اور مقناطیسی شخصیت نے جلد ہی سامعین کو مسحور کر لیا، اور 1930 کی دہائی میں وہ قاہرہ منتقل ہو گئیں۔

عرب موسیقی کی دنیا میں انقلاب

انہوں نے عربی موسیقی میں انقلاب برپا کیا، اور عظیم کلاسیکی عربی شاعری کو جدید آکسٹرا کی موسیقی کے ساتھ ملا کر ایک زبردست فیوژن پیدا کر دیا۔

لیکن ان کی پہچان ان کے بے ساختہ اور جذباتی انداز میں گانے کی تھی، جو سامعین کی توانائی سے متاثر ہو کر گانے کے بولوں کو بار بار دہرانے کا منفرد انداز تھا۔

مغربی موسیقار بھی ان کے سحر میں گرفتار ہو گئے، جن میں باب ڈلن ماریا کیلس، رابرٹ پلانٹ اور جیسے نام شامل ہیں، جنہوں نے ان کو خراج تحسین پیش کیا۔

ڈلن نے ایک بار کہا تھا، ’وہ میری ہمیشہ کی پسندیدہ گلوکاراؤں میں سے ایک ہیں۔‘

حال ہی میں، شکیرا اور بیونسے نے بھی امِ کلثوم کے گانے اپنے انداز میں پیش کیے ہیں۔

مردوں کے معاشرے میں طاقتور خاتون

ام کلثوم کا اثر و رسوخ محض موسیقی تک محدود نہیں تھا۔

ان کی آواز ایک بدلتے ہوئے مصر کی علامت بن گئی، جو ایک نئی قوم پرستی، اتحاد کے جذبے اور 1952 میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد ایک نئی جمہوری شناخت کی نمائندگی کرتی تھی۔

1967 میں، انہوں نے پیرس کے مشہور ’لومپیا‘ ہال میں ایک شاندار کنسرٹ کیا، جس کے ٹکٹوں کی بڑی آمدنی انہوں نے مصری فوج کو عطیہ کر دی، جو اس وقت اسرائیل کے خلاف جنگ لڑ رہی تھی۔

سینیئر آرٹ نقاد ماجدہ خیراللہ نے اے ایف پی کو بتایا، ’ام کلثوم محض ایک گلوکارہ نہیں تھیں۔ وہ ایک قومی شخصیت تھیں۔ اسی لیے لوگ انہیں صرف ام کلثوم نہیں بلکہ ’السیدہ‘ (دی لیڈی) کہتے تھے۔

اس سال امِ کلثوم کی زندگی پر ایک فلم بن رہی ہیں جس میں مصری اداکارہ منی زکی ان کا کردار ادا کریں گی۔ یہ فلم نہ صرف انہیں ایک موسیقار کے طور پر پیش کرے گی بلکہ ایک ایسی خاتون کے طور پر بھی دکھائے گی، جس نے سماجی روایات کو چیلنج کیا۔

امِ کلثوم نے 56 سال کی عمر میں شادی کی، اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

1940  کی دہائی میں وہ مصر کی موسیقی یونین کی سربراہی کرنے والی پہلی خاتون بنیں۔ آرٹ نقاد فائزہ ہنداوی نے کہا، ’انہوں نے مردوں کے غلبے والی انڈسٹری میں بے پناہ طاقت حاصل کی۔ وہ ناقابل یقین حد تک مضبوط تھیں اور ہر چیز پر مکمل کنٹرول رکھتی تھیں، اپنے گانوں، اپنی شبیہہ، اور اپنی زندگی کے فیصلوں پر۔‘

قاہرہ میں دریائے نیل کے کنارے ام کلثوم کا کانسی کا مجسمہ آج بھی ایستادہ ہے، باوقار اور لازوال۔

دریا کے پار، ان کے نام سے منسوب ایک میوزیم ان کی یادیں محفوظ کیے ہوئے ہے، جہاں ان کے عمدہ لباس، نوٹ بکس، اور ہیرے جڑے چشمے دیکھنے والوں کو محو کر دیتے ہیں۔

میوزیم کے کمروں میں گھومنے والے زیادہ تر نوجوان ہیں، ایک نیا نسل، جو اپنے بڑوں کی طرح آج بھی ان کی موسیقی سے مسحور ہے۔

15 سالہ رودینہ محمد نے گلوکارہ کے ایک کڑھائی والے لباس کے سامنے رک کر کہا، ’وہ ہر تفصیل میں باریک بینی سے کام لیتی تھیں، اشعار، دھن، پرفارمنس۔ اسی لیے وہ آج بھی اہمیت رکھتی ہیں۔‘

ہندوستانی فلمی موسیقی پر بھی امِ کلثوم کے گہرے اثرات پڑے۔ 1951 میں راج کپور کی مشہور فلم ’آوارہ‘ میں ایک گیت ہے، ’گھر آیا میرا پردیسی،‘ جس کی دھن ہوبہو امِ کلثوم کی 1936 میں آنے والی فلم ’وداد‘ کے گیت ’على بلد المحبوب ودينى‘ سے اٹھائی گئی تھی۔ امِ کلثوم کا اصل نغمہ یہاں سنا جا سکتا ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی