کچے کا ’ٹک ٹاکر‘ ڈاکو شاہد لُنڈ کیسے مارا گیا؟

حکومت پنجاب نے شاہد لُنڈ کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی اور وہ طویل عرصے سے پنجاب کے کچے کے علاقوں میں روپوش تھے۔

پولیس کے مطابق ڈاکو شاہد لُنڈ شہریوں کو راغب کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کر کے انہیں اپنا شکار بنایا کرتے تھے (سکرین گریب/ شاہد لُنڈ یوٹیوب)

 

پنجاب پولیس نے جمعے کو ٹک ٹاک پر اپنی ویڈیوز کے لیے مشہور ڈاکوؤں کے سرغنہ کو مبینہ ’پولیس مقابلے‘ میں مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔

شاہد لُنڈ طویل عرصے سے پنجاب کے کچے کے دریائی علاقوں میں روپوش تھے، جن پر ڈاکوؤں کو پناہ دینے کے الزامات بھی تھے۔

پولیس کے مطابق 28 سالہ شاہد لُنڈ شہریوں کو راغب کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کر کے انہیں اپنا شکار بنایا کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہد نے دیہی طرزِ زندگی کو اجاگر کرنے کے لیے ٹک ٹاک، فیس بک، یوٹیوب اور انسٹاگرام پر اپنے پیغامات سے ہزاروں لوگوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، جن میں وہ ہاتھ میں بندوق تھامے نظر آتے تھے۔

پنجاب پولیس نے جمعے کو سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ’رحیم یار خان اور راجن پور پولیس کی مشترکہ کارروائی میں کچہ بنگلہ اچھا میں لُنڈ گینگ کے سرغنہ ڈاکو شاہد لُنڈ مارے گئے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’حکومت پنجاب نے ڈاکو شاہد لُنڈ کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی جب کہ مارے گئے ڈاکو پولیس اہلکاروں کے قتل، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، پولیس پر حملوں، قتل اور ڈکیتی جیسے 28 سے زائد سنگین مقدمات میں پولیس کو مطلوب بین الاضلاعی اشتہاری تھے۔‘

شاہد لُنڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دریائے سندھ میں ایک جزیرے پر رہتے تھے جسے اکثر ’کچے‘ کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں گنے کی اونچی اونچی فصلیں گھات لگانے والوں کے لیے کور فراہم کرتی ہیں، یہ خطہ دریائی گزرگاہوں کے بدلنے سے متاثر ہوتا ہے، جو اغوا سے لے کر ہائی ویز پر ڈکیتی اور سمگلنگ تک کے جرائم کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

پاکستان کے چار میں سے تین صوبوں کے سنگم پر واقع یہ مقام سینکڑوں ارکان پر مشتمل ڈاکوؤں کے گینگز کی محفوظ آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ 2016 میں بڑے پیمانے پر پولیس آپریشنز اور یہاں تک کہ فوج کی مداخلت بھی امن و امان نافذ کرنے میں ناکام رہی۔ رواں سال اگست میں اس علاقے میں پولیس کے قافلے پر راکٹ حملے میں 12 پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔

کچھ ڈاکو رومانوی ساتھی، کاروباری پارٹنر اور ٹریکٹروں یا کاروں کی سستی فروخت کا اشتہار دے کر متاثرین کو لالچ دینے کے لیے ’ہنی ٹریپس‘ بچھانے کے لیے انٹرنیٹ  کا استعمال کرتے ہیں جب کہ دیگر یرغمالیوں کے رشتے داروں کو تاوان کے لیے بھیجے جانے والے ٹک ٹاک کلپس میں بھاری ہتھیاروں کی نمائش کرتے ہیں۔

شاہد لُنڈ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر دو لاکھ سے زیادہ فالوورز تھے، جو پولیس کی پریشانی کا باعث بھی تھے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے دریائی علاقوں میں کامیاب آپریشن پر رحیم یار خان اور راجن پور پولیس کو سراہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچے کے علاقے سے دہشت گردوں، ڈاکوؤں اور شرپسندوں کو ختم کرنا پولیس کا مشن ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان