’ایک وقت تھا جب گھر سے نکلتا تو لوگ میرے پاس آتے اور مجھے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ میرے قد پر ہنستے ہیں۔ لیکن میں نے تعلیم جاری رکھی اور اب ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہوں۔‘
یہ کہنا تھا ضلع لوئر دیر کے علاقے خال سے تعلق رکھنے والے پست قامت شاہد خان کا، جو ایک مقامی مدرسے میں بچوں کو قران کریم پڑھاتے ہیں۔
تقریباً تین فٹ قد والے شاہد خان کو بچپن میں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کا قد مزید نہیں بڑھے گا۔ لیکن جب وہ بڑے ہوئے اور گھر سے باہر لوگوں سے ملنے جلنے لگے تو اندازہ ہوا کہ چھوٹا قد لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنے گا۔
شاہد خان نے بتایا، ’جب 2014 میں گھر سے باہر نکلنا شروع کیا تو لوگ مجھے دیکھ کر میرے پاس آ جاتے تھے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ میرے قد کی وجہ سے قریب آتے ہیں۔‘
’لیکن میں نے اپنے چھوٹے قد کو کمزوری نہیں بننے دیا۔ بلکہ اسے طاقت سمجھا اور اپنی اور والدین کی مرضی سے 2017 میں مدرسے میں داخلہ لیا اور قران کریم کا حفظ شروع کیا۔‘
انہوں نے بتایا، ’مدرسے میں نہایت مشکل سے قران کی تعلیم حاصل کی اور 2020 میں قران کریم حفظ مکمل کر لی جبکہ ساتھ میں عصری تعلیم بھی جاری رکھی۔’
بعد ازاں 19 سالہ شاہد خان نے کو ایک مقامی مدرسے میں بچوں کو قران سکھانے کی ملازمت ملی، جب کہ اس علاوہ وہ گھروں میں جاکر بھی بچوں کو پڑھاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہد خان کے مطابق، ’گھروں میں جا کر بچوں کو قران کی ٹیوشن کرانے کے مناسب فیس ملتی ہے اور اسی سے اپنا خرچہ چلاتا ہوں۔ بہن بھائیوں کی تعلیم کے اخراجات بھی اسے آمدن سے پورے کرتا ہوں۔‘
شاہد خان کے والد ایک مزدور ہیں، جو اب بیمار رہتے ہیں جس کی وجہ سے پورے گھر کی ذمہ داری شاہد خان پر آن پڑی ہے۔
شاہد خان، جن کے دوسرے بہن بھائی پستہ قد نہیں ہیں، ایک مقامی کالج میں بی ایس انگلش کے تھرڈ سمسٹر میں تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔
شاہد خان بتاتے ہیں کہ ’میری والدہ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ اگر خود اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوئے تو یہ معاشرہ آپ کی زندگی حرام کر دے گا۔ اسی نصیحت کو لے کر میں آج اس مقام پر ہوں۔‘
قاری شاہد نے بتایا کہ ’میں نے پست قامت ہونے کو کبھی کمزوری نہیں سمجھا اور بس اسی پر اللہ کا شکر ہے کہ ہاتھ پاؤں بالکل ٹھیک ہیں اور میں کام کر سکتا ہوں۔‘
شاہد خان بچوں کو پڑھانے اور کالج آنے جانے کی غرض سے چار پہیوں والا سکوٹر استعمال کرتے ہیں۔