ویلنٹائن ڈے کچھ لوگوں کے لیے پسندیدہ اور کچھ کے لیے ناپسندیدہ ہے، مگر اسے عام طور پر رومانس کا بہترین دن سمجھا جاتا ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ مبہم طور پر جانتے ہوں گے کہ اس دن کا نام سینٹ ویلنٹائن نامی ایک پادری سے لیا گیا ہے، لیکن وہ ویلنٹائن ڈے کی پوری تاریخ سے واقف نہیں ہوں گے، جو توقع سے کہیں کم رومانوی ہے۔
ویلنٹائن آف ٹرنی تیسری صدی کا ایک پادری تھا، جس نے قدیم روم میں مسیحیوں کی خدمت کی۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات کی تفصیل موجود ہے، جس کی وجہ سے وہ ’شہید‘ ہوئے اور بعد میں کیتھولک چرچ نے انہیں سینٹ قرار دے دیا۔
سب سے زیادہ مانے جانے والے واقعات میں سے ایک کے مطابق ویلنٹائن نے روم کے شہنشاہ کلاڈیس دوم کی مخالفت کی۔ شہنشاہ نے نوجوان مردوں کی شادی پر پابندی لگا دی تھی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ گھر سے زیادہ میدان جنگ میں کام آئیں گے۔
کچھ روایات میں آتا ہے کہ سینٹ ویلنٹائن اس قانون کے خلاف تھے اور وہ خفیہ تقریبات منعقد کر کے نوجوان جوڑوں کی شادیاں کرواتے تھے۔ یہ شہنشاہ کی نظر میں سنگین جرم تھا اور اس کی پاداش میں پادری کا سر 14 فروری کو قلم کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہنشاہ کے غیظ و غضب کے باوجود کیتھولک چرچ نے ویلنٹائن کی مسیحی عقیدے پر عمل کرنے والے جوڑوں کو اکٹھا کرنے پر تعریف کی۔ اس طرح ویلنٹائن کو ان کی موت کے بعد چرچ نے باضابطہ سینٹ کے طور پر تسلیم کیا۔ سینٹ ویلنٹائن اس کے بعد سے پیار محبت اور ویلنٹائن ڈے کی رومانوی روایات سے وابستہ ہو گیا۔
اس واقعے کے ساتھ ساتھ کچھ افراد کا ماننا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی تاریخ لوپرکالیا نامی ایک قدیم رومی تہوار سے بھی منسلک ہو سکتی ہے۔
یہ زرخیزی کا جشن تھا اور قدیم رومی یہ تہوار ہر سال 15 فروری کو مناتے تھے۔ اس جشن میں حصہ لینے والے سمجھتے تھے کہ وہ اس تہوار کے ذریعے اپنے دیہات میں زرخیزی بڑھانے، خوشحالی لانے اور انہیں بری روحوں سے پاک کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
اس بت پرستانہ تہوار کو ’ڈائز فیبریوٹس‘ (dies februatus) بھی کہا جاتا تھا، جس کا مطلب ہے ’پاکی کا دن۔‘ اسی تہوار کی وجہ سے فروری کے مہینے کا نام فروری پڑا۔
اس جشن کی تقریبات کے دوران دیوتا لوپرکس کے پجاری (جو لوپرسائی کہلاتے تھے) بکریوں اور ایک کتے کی قربانی دیتے تھے اور پھر ان جانوروں کے خون سے اپنے ماتھا دھوتے تھے۔
یہ پجاری پھر پیلیٹائن ہل کے گرد ننگے بھاگتے اور اپنے قریب آنے والی کسی بھی خاتون کو جانوروں کی کھالوں سے مارتے، جن کی انہوں نے قربانی دی تھی۔ ان پجاریوں کا ماننا تھا کہ جانوروں کی کھالوں سے خواتین کو مارنے سے یہ یقینی ہو جائے گا کہ وہ زرخیز رہیں گی۔
اگرچہ لوپرکالیا کا تصور ویلنٹائن ڈے کی ہماری جدید فہم سے بہت مختلف ہو سکتا ہے، لیکن دونوں تقریبات آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔
اس کے بعد پوپ گیلاسیس اول نے اس تہوار پر اعتراض کیا، جس کے بعد پانچویں صدی کے آس پاس لوپرکالیا کا جشن ختم ہو گیا۔
پوپ نے بت پرستانہ تہوار کے طریقوں کی مذمت کی اور اس میں حصہ لینے والوں کو ’حقیر اور عام، ذلیل اور نچلے درجے کا‘ قرار دیا۔
14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن ڈے کی چھٹی کا باضابطہ طور پر پوپ نے 496 عیسوی میں اعلان کیا تھا، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے سینٹ ویلنٹائن کے اعزاز میں چھٹی کے ساتھ لوپرکالیا کو مؤثر طریقے سے تبدیل کر دیا تھا۔
ویلنٹائن ڈے کے رومانوی معنی ہونے کا پہلا ثبوت 14 ویں صدی میں انگریز شاعر جیفری چاسر کی شاعری کے ذریعے سامنے آیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’کیونکہ یہ سینٹ ویلنٹائن ڈے تھا، جب ہر پرندہ اپنا ساتھی چننے کے لیے وہاں آتا ہے۔‘
جیفری چاسر نے یہ کنگ رچرڈ دوم اور این آف بوہیمیا کی منگنی کے اعزاز میں لکھا تھا۔
ولیم شیکسپیئر نے بھی اپنے کام میں ویلنٹائن ڈے کا حوالہ دیا، چنانچہ 17 ویں صدی کے ڈرامے ’ہیملٹ‘ کی ایک کردار اوفیلیا اس دن کا ذکر کرتی ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کی موجودہ شکل 19 ویں صدی اور 20 ویں صدی کے اوائل میں جزوی طور پر صنعتی انقلاب کے عروج کی بدولت وضع ہونا شروع ہوئی۔
1913 میں امریکی ریاست مزوری کے شہر کینسس کی ایک اشاعتی کمپنی ’ہال مارک کارڈز‘ نے ویلنٹائن ڈے کارڈز کی بڑے پیمانے پر چھپائی شروع کی، جس سے 14 فروری کو تجارتی شکل ملی۔
ایک دہائی بعد چاکلیٹ بنانے والے رسل سٹوور کو خیال آیا کہ کیوں نہ دل کی شکل کے ڈبوں میں چاکلیٹ فروخت کی جائیں، جو ساٹن اور سیاہ لیس میں بندھے ہوئے ہوں۔
2018 میں ویب سائٹ ’فائنڈر‘ نے رپورٹ کیا کہ دو کروڑ 20 لاکھ برطانوی شہری ویلنٹائن ڈے پر اپنے شریکِ حیات پر پیسہ خرچ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ محبت سے لبریز اس جشن میں حصہ لینے والے ایک فرد کے لیے اوسط خرچ 28.45 پاؤنڈ تھا، جبکہ 16 فیصد آبادی نے کہا کہ وہ ایک پیسہ بھی خرچ کیے بغیر یہ دن منانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
© The Independent